سوال
دُعا خُدا کے ساتھ گفتگو کرنا کیسے ہے؟
جواب
خُدا کی ہم سے، اور ہماری خُدا کے ساتھ گفتگو کی نوعیت کو سمجھنے کے لئےہمیں یہ بات چند کلیدی حقائق کے ساتھ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ خُدا ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا، اور نہ ہی اُس نے کبھی کسی کو دھوکا دیا ہے۔ ایوب 34باب 12آیت بیان کرتی ہے، "یقیناً خُد ابُرائی نہیں کرے گا۔ قادرِ مطلق سے بے انصافی نہ ہو گی"۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بائبل خُدا کا کلام ہے۔ نئے عہد نامہ میں کتابِ مقدس کے لئے یونانی لفظ "گرافے" 51 دفعہ پُرانے عہد نامہ کی تحریروں کو پیش کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 2تیمتھیس 3باب 16آیت میں پولُس رسول اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ کلام حقیقی طور پر "خُدا کا الہام" ہیں۔ لفظ "گرافے" کا اطلاق نئے عہد نامہ پر بھی ہوتا ہے، خاص طور پر انگریزی ترجمےکے مطابق جب پطرس رسول 2پطرس 3باب 16آیت میں پولُس کے خطوط کو "سکرِپچر (scripture)بمعنی کتاب ِمُقدس" کہتا ہے، اور جب پولُس بھی لوقا 5باب 18آیت میں یسوع کے الفاظ کا حوالہ 1تیمتھیس 5 باب 18آیت میں "سکرِپچر(scripture)" کے طور پر دیتا ہے۔ پس جب ہم اِس حقیقت کو جان لیتے ہیں اور ثابت کر پاتے ہیں کہ نئے عہد نامے کے کسی بھی حصے کا تعلق خُدا کے کلام (scripture)سے ہے تو پھر ہم 2تیمتھیس3 باب 16آیت کا اطلاق نئے عہد نامے کی تمام کتابوں پر کرنے میں حق بجانب ہیں۔ اور یہ کہنے میں بھی درست ہیں کہ وہ تمام خصوصیات جو پولس رسول خُدا کے کلام کے ساتھ منسوب کرتا ہے وہ نئے عہد نامے کے ہر ایک حصے کی بھی خصوصیات ہیں۔یہ سارا کلام "خُدا کے منہ سے نکلا" ہوا ہے اور اِس کے تمام الفاظ خُدا کے اپنے منہ کے الفاظ ہیں۔
اِس معلومات کا دُعا کے موضوع سے کیا تعلق ہے؟اب ہم نے اِس حقیقت کو بیان اور ثابت کر دیا کہ خُدا صرف سچ بولتا ہے اور بائبل خُدا کا کلام ہےپس اب ہم منطقی طور پر خُدا کے ساتھ گفتگو کرنے کے بارے میں دونوں نتائج کی پیروی کر سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کیونکہ بائبل کہتی ہے کہ خُدا انسانوں کی سُنتا ہے (17زبور 6آیت77 زبور 1آیت؛ یسعیاہ 38باب5آیت)،پس انسان یہ بھروسہ کر سکتا ہے کہ جب وہ خُدا کے ساتھ درُست تعلق میں ہوتے ہوئے دُعا کرے تو خُدا اُس کی دُعا کو سُنے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیونکہ بائبل خُدا کا کلام ہےاِس لیے انسان یہ بھروسہ کر سکتا ہے کہ جب خُدا کے ساتھ درُست تعلق میں ہے اور جب وہ بائبل مُقدس کو پڑھتا ہےتو وہ لفظی طور پر خُدا کے بولے گئے کلام کو سُنتا ہے۔ خُدا کے ساتھ درُست تعلق جو کہ خُدا اور انسان کے درمیان صحت مند رابطہ ہے کی گواہی تین طرح سے ملتی ہے ۔ پہلے نمبر پر گناہ سے پھرنا، یا توبہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر27زبور 9آیت میں داؤد کی فریاد ہے کہ خُدا اُس کی مناجات کو سُنے اور اپنے قہر میں اُسے ترک نہ کرے۔ اِس سے ہم جان سکتے ہیں کہ خُدا انسان کے گناہ کی وجہ سے اپنا چہرہ پھیر لیتا ہے اور گناہ خُدا اور انسان کے درمیان گفتگو میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اِس کی ایک اور مثال یسعیاہ 59باب 2آیت میں ملتی ہے جہاں یسعیاہ لوگوں کو بتاتا ہے، "بلکہ تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خُدا کے درمیان جُدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے رُوپوش کیا ایسا کہ وہ نہیں سُنتا"۔ لہذا جب ہماری زندگی میں غیراعتراف شُدہ گناہ ہوتے ہیں، تو یہ خُدا کے ساتھ گفتگو میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
خُدا کے ساتھ گفتگو کے لئے شکستہ دِلی بھی ضروری ہے۔ یسعیاہ 66باب 2 آیت میں خُدا فرماتا ہے، "کیونکہ یہ سب چیزیں تو میرے ہاتھ نے بنائیں اور یُوں موجود ہوئیں خُداوند فرماتا ہے لیکن مَیں اُس شخص پر نگاہ کروں گا۔ اُسی پر جو غریب اور شکستہ دِل ہے اور میرے کلام سے کانپ جاتا ہے"۔ تیسری چیز راستبازی کی زندگی ہے۔ یہ گناہ سے پھرنے کا مثبت پہلو ہے اور موثر دُعا کرنا اِس کی ایک نشانی ہے۔ یعقوب 5باب 16آیت بیان کرتی ہے، "پس تم آپس میں ایک دُوسرے سے اپنے اپنے گناہوں کا اقرار کرو اور ایک دوسرے کے لئے دُعا کرو تاکہ شفا پاؤ۔ راست باز کی دُعا کے اثر سے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔"
یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے ذہن میں خُدا کی آواز کو سُن سکیں، یا پھر اُس کا لکھا ہوا کلام تو ہمارے پاس ہے ہی۔ ہم اعتماد کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری سُنے گا اور جو دُعا ضروری ہو گی اُس میں رُوح القدس ہماری مدد کرے گا ۔ رومیوں8باب26آیت بیان کرتی ہے، "اِسی طرح رُوح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے کیونکہ جس طور سے ہم کو دُعا کرنا چاہیے ہم نہیں جانتے مگر رُوح خود ایسی آہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جن کا بیان نہیں ہو سکتا"۔
جہاں تک خُدا کے ہمارے ساتھ بات کرنے کے طریقے کا تعلق ہے، ہمیں یہ اُمید کرنے کی بجائے کہ خُدا مخصوص افعال اور فیصلوں میں ہماری رہنمائی کرنے کے لئے ہمیشہ برائے راست خیالات ہمارے ذہن میں ڈالے گا، ہمیں یہ اُمید کرنی چاہیے کہ خُدا کتابِ مقدس کے وسیلہ سے ہم سے بات کرے گا۔چونکہ ہم خود فریبی کا شکار ہو سکتے ہیں اِس لیے ہمیں ہر اُس خیال کو درست اور سچا نہیں مان لینا چاہیے جو ہمارے ذہن میں آتا ہے اور ہر ایسے خیال کے بارے میں یہ تصور نہیں کر لینا چاہیے کہ وہ خُدا کی طرف سے ہی ہمیں ملا ہے۔ بعض اوقات ہماری زندگی سے متعلق مخصوص معاملات میں خُدا کتابِ مقدس کے وسیلہ سے براہ راست بات نہیں کرتا، تو ایسے حالات میں ہم بائبل سے باہر مکاشفہ جات تلاش کرنے کی ترغیب پاتے ہیں تاہم اِس طرح کی صورتحال میں عقلمندی اِسی چیز میں ہے کہ خُدا کے مُنہ میں کلام ڈالنے سے پرہیز کریں، اور اپنے آپ کو دھوکہ دہی کے لئے پیش نہ کریں، بلکہ بائبل کےاُن اصولوں سے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں جو اُس نے پہلے سےہی ہمیں فراہم کر دیئے ہیں۔
یہ بھی درست ہوگا کہ ہم حکمت کو بجا طور پر کام میں لانے کے لئے بھی دُعا کریں، کیونکہ اُس نے اُن لوگوں کو حکمت بخشنے کا وعدہ کیا ہے جو اُس کی تلاش کرتے ہیں، "لیکن اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو تو خُدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے۔ اُس کو دی جائے گی" (یعقوب1باب5آیت)۔ دُعا کس طرح سے خُدا کے ساتھ گفتگو ہے؟ جواب ہے، ہماری طرف سے ہمارے آسمانی باپ کے ساتھ دِل سے بات کرنا ، اور جواب میں خُدا کا اپنے کلام کے وسیلہ سے بولنا، اور رُوح القدس کی قیادت میں ہماری رہنمائی کرناخُدا کے ساتھ گفتگوکرنا ہے۔
English
دُعا خُدا کے ساتھ گفتگو کرنا کیسے ہے؟