سوال
نظریہ موافقت کیا ہے؟
جواب
نظریہ موافقت(compatibilism) دراصل تعینیت /جبریت (determinism)اور انسان کی آزاد مرضی کے نظریات کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش ہے۔(ابھی determinism کے لیے اکثر اُردو میں تقدیر پرستی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اِس میں اور تقدیر پرستی میں واضح فرق ہے)۔ تعینیت/جبریت وہ تصور ہے جس کے مطابق ہر ایک چیز اور کام کا تعین خُدا کی طرف سے ہو چکا ہے، سب کچھ اُسکی طرف سے مقرر کر دیا گیا ہے یا ہر ایک چیز کے ہونے کے لیے حکم دیا جاچکا ہے ۔ اِس نظریے کا پرچار ابتدائی طور پر یونان کے ستوئیکی فلسفیوں کے فلسفیانہ تصورات میں ہوا، بعد میں بہت سارے فلسفیوں نے اِس نظریے کی تشہیر کی جیسے کہ تھامس ہوبز اور ڈیوڈ ہیوم اورپھر الہیاتی نقطہ نظر سے آگسٹن آف ہپو اور جان کیلون وغیرہ۔ موافقت کے نظریے کے مطابق آزاد مرضی کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اگرچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آزاد مرضی خُدا کی حاکمیت ، تعینیت/جبریت کے نظریے کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتی لیکن یہ دونوں تصورات موجود ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہیں۔
آزاد مرضی کے بارے میں نظریہ موافقت کی بنیاد ہی وہ ذریعہ ہے جس کے مطابق "مرضی" کی تعریف کی گئی ہے۔ الہیاتی نقطہ نظر سے "مرضی " کی تعریف کو خُدا کے ظاہر کردہ کلام کے اندر اصل گناہ اور انسان کے کامل رُوحانی بگاڑ کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ دونوں سچائیاں "مرضی" کی تعریف گناہ میں گرے ہوئے انسان کے تعلق سے "گناہ کے قیدی"(اعمال 8باب23آیت)، "گناہ کے غلام" (یوحنا 8باب 34آیت؛ رومیوں 6باب16-17آیت اور اپنے واحد "مالک" گناہ (رومیوں 6باب14آیت)کے ماتحت ہونے کے طور پر پیش کرتی ہیں ۔ ایسے میں اگرچہ انسان کی مرضی کچھ بھی کرنے کے لیے آزاد ہے لیکن اِس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمیشہ ہی جو کچھ بھی کرے اپنی فطرت کے مطابق ہی کرے۔ اور اب جبکہ گناہ میں گرے ہوئے انسان کی فطرت گناہ آلود ہےاِس لیے گناہ میں گرے ہوئے انسان کے دل کے ہر ایک خیال کا ہر حصہ "لگاتار گناہ آلود" ہی ہے (پیدایش 6 باب5آیت بالموازنہ 8باب21آیت)۔ چونکہ انسان فطری طور پر اُس سے باغی ہے جو "رُوحانی طور پر بھلا" ہے (رومیوں 8باب7-8آیات؛ 1 کرنتھیوں 2باب14آیت)،اِس لیے اُس کا رجحان ہمیشہ ہی بغاوت کی طرف ہے(امثال 17باب 11آیت)۔ ابھی انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے اُس کو کرنے کے لیے وہ مکمل طور پر "آزاد" ہے لیکن وہ صرف وہی کچھ کرتا ہے جو اُس کی فطرت ہے، وہ اپنی گناہ آلود فطرت کے برعکس اور کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ جو کچھ انسان کرنے کی "مرضی" رکھتا ہے اُس کا تعین مکمل طور پر اُس کی اپنی گناہ آلود فطرت کی روشنی میں ہوتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں پر نظریہِ موافقت انسان کے آزاد مرضی رکھنے اور ایک آزاد ذات ہونے میں فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ اِنسان اُس سب کا چناؤ کرنے کے لیے آزاد ہے جس کا تعین اُس کی اپنی فطرت کی طرف سے ہوا ہے یا جو کچھ فطرت کے اصولوں کے ماتحت ہے۔ اِس بات کی تصویر کشی یوں کی جا سکتی ہے کہ فطرت کے اصولوں کی وجہ سے انسان ہوا میں اُڑ نہیں سکتا لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان آزاد نہیں ہے۔ وہ انسان جو آزاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ صرف اُنہیں چیزوں کو کرنے کے لیے آزاد ہے جس کی اجازت اُس کی اپنی فطرت یا پھر فطرت کے اصول اُسے دیتے ہیں۔ الہیاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو نفسانی آدمی اپنے آپ کو خُدا کی شریعت کے تابع کرنے سے قاصر ہے (رومیوں 8باب7-8آیات) اور وہ اُس وقت تک مسیح کے پاس نہیں آسکتا جب تک خُدا خود اُسے کھینچ نہیں لیتا (یوحنا 6باب44آیت)، لیکن فطری انسان پھر بھی اپنی ذاتی فطرت کے تحت آزادی کے ساتھ ہی سب عمل کرتا ہے۔ وہ بالکل آزادی اور مستعدی کے ساتھ اپنی ناراستی سے سچائی کو دبا دیتا ہے (رومیوں 1باب18آیت)کیونکہ اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ اِس کے برعکس کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے (ایوب 15باب 14-16آیات؛ 14 زبور 1-3آیات؛ 53زبور 1-3آیات؛ یرمیاہ 13 باب23آیت؛ رومیوں 3باب 10-11)۔ یسوع کی طرف سے اِس تصور کی تصدیق کی دو مثالیں متی 7باب 16-27آیات اور متی 12باب 34-37 آیات میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
آزاد مرضی اور آزاد ذات کے درمیان فرق کو بیان اور واضح کرنے کے بعد نظریہ ِ موافقت پھر الہیاتی لحاظ سے بیان کی جانے والی ایک حالت تعینیت یا خُدا کے علیم کُل ہونے کے تناظر میں اِس آزاد ذات کی فطرت پر بات کرتا ہے۔ بنیادی ترین چیز یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کے اعمال نے ہر صورت میں ایسا ہی ہونا تھا جیسا اُن کے لیے مقرر کیا جا چکا ہے تو پھر اُس کو اپنے اعمال کا ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے اور یہ بھی کہ جو کچھ ہوچکا ہے اُس کے علاوہ کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا تھا (مثال کے طور پر مستقبل کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا) ۔ اگرچہ کلامِ مُقدس کے ایسے بہت سارے حوالہ جات ہیں جو اِس موضوع پر بات کرتے ہیں، ہمارے پاس تین ایسے اہم بنیادی ترین حوالہ جات ہیں جن کا ہم تجزیہ کر سکتے ہیں۔
یوسف اور اُس کے بھائیوں کی کہانی
پہلی کہانی یوسف اور اس کے بھائیوں کی ہے (پیدائش 37 باب)۔ یوسف سے اُسکے بھائیوں کو نفرت تھی کیونکہ اُن کا باپ یعقوب یوسف سے اس کے کسی بھی دوسرے بھائی سے زیادہ محبت کرتا تھا (پیدائش 37 باب 3آیت) اور اُسکے بھائی یوسف کو اُسکے خوابوں اور ان کی تعبیروں کی وجہ سے بھی ناپسند کرتے تھے (پیدائش 37باب 5-11آیات)۔ ایک بار جب اُنہیں موقع ملا تو اُنہوں نے اپنے بھائی یوسف کو مصر کی طرف سفر کرنے والے مدیانی تاجروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ پھر انہوں نے اپنے باپ کو دھوکا دینے کے لئے ایک بکری ذبح کر کے اُس کے خون کو یوسف کی قبا پر چھڑک دیا تاکہ اُن کا باپ سمجھے کہ یوسف کو کسی جنگلی جانور نے مار دیا ہے۔ (پیدائش 37باب 18-33آیات)۔ کئی سالوں کے بعد،جب خُدا نے یوسف کو مصر میں برکت دی تو یوسف کے بھائی اُسے مصر میں ملے اور یوسف نے اپنے آپ کو اُن پر ظاہر کیا(پیدایش 45باب 3-4آیات) یوسف نے اِس دوران اپنے بھائیوں سے جو گفتگو کی وہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
" پس تم نے نہیں بلکہ خُدا نے مجھے یہاں بھیجا اور اُس نے مجھے گویا فرعون کا باپ اور اُسکے سارے گھر کا خُداوند اور سارے ملک مصر کا حاکم بنایا۔ " (پیدایش 45باب8آیت)
جو چیز اِس بیان کو حیران کن بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اِس سے پہلے یوسف اپنے بھائیوں سے کہہ چکا تھا کہ درحقیقت اُنہوں نے اُسے بیج دیا تھا اور مصر میں غلام کے طور پر بھیجا تھا (پیدایش 45باب4-5آیات) اور پھر چند ابواب کے بعد نظریہ موافقت کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔
"تم نے تو مجھ سے بدی کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن خُدا نے اُسی سے نیکی کا قصد کیا تاکہ بہت سے لوگوں کی جان بچائے چنانچہ آج کے دِن اَیسا ہی ہو رہا ہے " (پیدایش 50باب 20آیت)۔
پیدائش کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ درحقیقت یہ وہ بھائی تھے جنہوں نے یوسف کو بیچ دیا تھا اور وہ اِس طرح مصر پہنچ گیا تھا۔ تاہم یوسف یہ واضح کرتا ہے کہ اصل میں خدا نے ایسا کیا تھا۔ جو لوگ موافقت کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ یہ آیت صرف یہ بیان کر رہی ہے کہ خدا نے یوسف کے بھائیوں کے بُرے اعمال کو بھلائی کے لئے "استعمال" کیا۔ تاہم متن میں یہ نہیں کہا گیا ہے۔ پیدائش 45-50 ابواب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ (1) یوسف کے بھائیوں نے یوسف کو بیچ دیا اور یوں وہ مصر پہنچا ،(2) خدا نے یوسف کو مصر بھیجا تھا ،(3) یوسف کو مصر بھیجنے کے پیچھے یوسف کے بھائیوں کا بُرا ارادہ تھا۔ اور (4) یوسف کے مصر بھیجے جانے کے حوالے سے خُدا کا نیک ارادہ تھا۔اب سوال یہ ہے کہ یوسف کو مصر کس نے بھیجا؟ حیران کن جواب یہ ہے کہ یوسف کے بھائیوں اور خدا دونوں نے ایسا کیا۔یہ ایک ہی عمل تھا جو دو مختلف لوگ کر رہے تھے اور یوسف کے بھائیوں اور خُدا نے بیک وقت اُس میں حصہ لیا۔
اسُور کو حکم
دوسرا حوالہ جس سے نظریہ موافقت کا پتہ چلتا ہے وہ یسعیاہ 10 باب ہے۔ یہ خُدا کے لوگوں کے لیے ایک نبوتی تنبیہ ہے۔ جیسا کہ خُدا نے اپنے الہامی کلام کے ذریعے سے استثنا 28-29ابواب کے اندر یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک غیر قوم کو بھیج رہا ہے تاکہ اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں کی سزا دے۔ یسعیاہ 10باب 6آیت بیان کرتی ہے کہ اسُور خُدا کے قہر کا عصا ہے اور خُدا اسُور کو اپنے لوگوں کے خلاف حکم دیتا ہے کہ وہ اُنکا" مال لوٹےاور غنیمت لے لے اور اُنکوں بازاروں کی کیچڑ کی مانند لتاڑے۔"تاہم غور کیجئے کہ اسُور کے بارے میں خُدا کیا کہتا ہے:
"لیکن اسکا یہ خیال نہیں ہے اور اسکے دل میں یہ خواہش نہیں کہ ایساکرے بلکہ اسکا دل یہ چاہتا ہے کہ قتل کرے اور بہت سی قوموں کو کاٹ ڈالے۔" (یسعیاہ 10باب 7آیت)
اسُور کی طرف سے حملے میں خُدا کا ارادہ یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں پر اُن کے گناہوں کی وجہ سے اپنا راست قہر نازل کرے، یعنی اپنی راست عدالت کرے جبکہ اسُوریوں کا یہ ارادہ ہے کہ وہ "قتل کرے اور بہت سی قوموں کو کاٹ ڈالے" ابھی ایک عمل کے اندر دو مختلف ذاتیں کام کر رہی ہیں اور دونوں ایک طرح سے اپنا اپنا مقصد حاصل کر رہی ہیں ۔ اور جب ہم مزید آگے پڑھتے ہیں تو ہم پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ بربادی خُداوند رب الافواج کی طرف سے مقرر کی گئی تھی(یسعیاہ 10باب23آیت)۔ وہ اسُور کو اُس کے بادشاہ کے گستاخ دل اور بلند نظری اور گھمنڈ کی وجہ سے سزا دے گا (یسعیاہ 10باب12آیت کا موازنہ 10باب15آیت کے ساتھ کیجئے)۔اگرچہ خُدا نے خود ہی اپنی قوم کے نافرمان لوگوں پر عدالت لانے کو مقرر کیا لیکن پھر وہ اُن لوگوں کی بھی عدالت کرتا ہے جنہوں نے اسرائیل کو تباہ کیا اور خُدا اُس غیر قوم کو اُن کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہراتا ہے۔
یسوع مسیح کی مصلوبیت
کلامِ مُقدس میں سے تیسرا حوالہ جو موافقت کے نظریے کی بات کرتا ہے وہ اعمال 4باب23-24آیات ہے۔ جیسا کہ اعمال 2باب23-25آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ خُداوند یسوع خُدا کے مقررہ انتظام اور اُس کے علمِ سابق کے موافق پکڑوایا اور مصلوب کیا گیا۔ اعمال 4باب 27-28آیات مزید ظاہر کرتی ہیں کہ ہیرودیس، پنطس پیلاطس ، غیر اقوام اور اسرائیل کے لوگوں کی طرف سے سرانجام دیا جانے والا وہ عمل خُدا کی طرف سے مقرر کیا گیا تھا اور اُنہیں خُدا کی طرف سے یہ حکم تھا کہ وہ "یسوع مسیح کے برخلاف اُسی شہر میں جمع ہوں" اور جو کچھ "پہلے سے خُدا کی قدرت اور مصلحت سے ٹھہر گیا تھا وہی عمل میں لائیں۔ " اگرچہ خُدا نے یہ مقرر کر دیا تھا کہ مسیح مرے گا لیکن اِس کے باوجود وہ لوگ جو اُس کی موت کا سبب بنے خُدا اُنہیں اُن کے اُس عمل کے لیے جوابدہ ٹھہراتا ہے۔ مسیح بدکار لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا پھر بھی "لیکن خُداوند کو پسندآیا کہ اسے کچلے" (یسعیاہ 53 باب10آیت)۔ ایک بار پھر سوال ہے کہ مسیح کو کس نے مارا تھا؟ اور اِس کا جواب ہے کہ خود خُدا اور بدکار لوگوں نے –ایک ہی عمل کے دوران دو مختلف لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کیا۔
کلامِ مُقدس کے اندر دیگر بھی کئی ایک حوالہ جات ہیں جن میں موافقت کے نظریے کے بارے میں تصور پایا جاتا ہے، جیسے کہ خُدا کی طرف سے مختلف لوگوں کے دِل کا سخت کیا جانا (مثال کے طور پر خروج 4باب21آیت؛ یشوع 11 باب 20آیت؛ یسعیاہ 63 باب 17آیت)۔ اگرچہ موافقت کا نظریہ ہمیں بہت ہی حیران کن لگتا ہے (ایوب 9باب10 آیت؛ یسعیاہ 55باب 8-11آیات؛ رومیوں 11باب 33آیت)، یہ سچائی خود خُدا نے اپنے کلام میں ظاہر کی ہے کہ اُس کا خود مختا فرمان انسان کی مرضی کے ساتھ مصالحت رکھتا ہے۔ خُدا ہر ایک چیز پر قادر ہے (115 زبور 3آیت؛ دانی ایل 4باب 35آیت، متی 10باب 29-30آیات)، خُدا ہر ایک چیز کے بارے میں جانتا ہے (ایوب 37باب 16آیت؛ 147 زبور 5آیت؛ 1 یوحنا 3باب19-20آیات)، اور انسان جو کچھ بھی کرتا ہے خُدا اُسے اُس کے لیے جوابدہ ٹھہراتا ہے (پیدایش 18باب 25آیت؛ اعمال 17 باب 31آیت؛ یہوداہ 1باب15آیت)۔ یہ سچ ہے کہ اُس کی راہیں انسانی ادراک سے بالا ہیں(ایوب 9باب10آیت؛ رومیوں 11باب 33آیت) اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سارے دل سے خُداوند پر توکل کریں اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کریں (امثال 3باب 5-6آیات)۔
English
نظریہ موافقت کیا ہے؟