سوال
مشروط تحفظ سے کیا مُراد ہے؟
جواب
"مشروط تحفظ" ایک الہیاتی اصطلاح ہے جو یسوع مسیح میں ایمانداروں کی نجات کے تعلق سے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ مبینہ طور پر کسی مسیحی کی نجات کی آزمائشی خاصیت کو بیان کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ایک مسیحی کی نجات کچھ "شرائط کی بناءپر " محفوظ ہے۔ یہ چیز اِس سوال کو جنم دیتی ہے کہ: وہ کونسی شرط ہے جس کی بنیاد پر ایک ایماندار کی نجات محفوظ ہے؟ مشروط تحفظ کے اِس عقیدے کے پیروکار بیان کرتے ہیں کہ نجات آخر تک وفادار رہنے اور اپنے ایمان پر قائم رہنے کی شرط پر محفوظ ہے۔ اِسے بیا ن کرنے کے لیے بائبل میں سے ایک مثال اِستعمال کی جاتی ہے کہ دوڑ لگانے والے کو انعام پانے کے لیے اُس دوڑ کے اختتام تک مسلسل دوڑنے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشروط تحفظ کے اِس عقیدے کی پشت پناہی کرنے کے لیے اِس عقیدے کو ماننے والے بائبل مُقدس میں سے کچھ اِس طرح کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں:
"اور بہت سے جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے۔اور بے دِینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبّت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔مگر جو آخر تک برداشت کرے گاوہ نجات پائے گا۔ " (متی 24باب11-13آیات)
"پس اَے بھائیو! ہم قرض دار تو ہیں مگر جسم کے نہیں کہ جسم کے مطابِق زِندگی گذاریں۔کیونکہ اگر تم جسم کے مطابِق زِندگی گذارو گے تو ضرور مَرو گے اور اگر رُوح سے بدن کے کاموں کو نیست و نابُود کرو گے تو جیتے رہو گے۔اِس لئے کہ جتنے خُدا کے رُوح کی ہدایت سے چلتے ہیں وُہی خُدا کے بیٹے ہیں۔ " (رومیوں 8باب12-14آیات)
"اب اَے بھائیو! مَیں تمہیں وُہی خُوشخبری جتائے دیتا ہوں جو پہلے دے چکا ہوں جسے تم نے قبول بھی کر لِیا تھا اور جس پر قائم بھی ہو۔اُسی کے وسیلہ سے تم کو نجات بھی ملتی ہے بشرطیکہ وہ خُوشخبری جو مَیں نے تمہیں دی تھی یاد رکھتے ہو ورنہ تمہارا اِیمان لانا بے فائدہ ہوا۔ " (1 کرنتھیوں 15باب1-2آیات)
"فریب نہ کھاؤ ۔ خُدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کچھ بوتا ہے وُہی کاٹے گا۔جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو رُوح کے لئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زِندگی کی فصل کاٹے گا۔ہم نیک کام کرنے میں ہمّت نہ ہاریں کیونکہ اگر بے دِل نہ ہوں گے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔ " (گلتیوں 6باب7-9آیات)
یہ حوالہ جات اور بہت سارے دیگر جن کا یہاں پر حوالہ دیا جا سکتا ہے ایک ایماندار کی نجات کی مشروط خاصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اِن سبھی حوالہ جات میں بائبلی مصنف (رُوح القدس کی طرف سے الہام کے وسیلے ) مشروط زبان کو استعمال کرتا ہے (مثال کے طور پر ، اگر تم برداشت کرو تو پھر تم بچائے جاؤ گے)، اور اِس سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کی ذات میں ایماندار کے تحفظ کو ہلکا کر دیا گیا ہے۔اپنی نجات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایماندار کے لیے ضروری ہے کہ وہ (1)آخر تک برداشت کرے؛ (2)رُوح کے ماتحت زندگی گزارے؛ (3) کلامِ مُقدس کی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامے رہے؛ (4) رُوح کا بیج بوتا رہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نجات کے تحفے کے اندر کسی طور پر کوئی کمی ہے لیکن کسی بھی ایماندار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایماندار رہنے کے لیے دِل سے کوشش کرتا رہے۔ پولس رسو ل کے الفاظ میں، "پس اَے میرے عزِیزو! جس طرح تم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح اب بھی نہ صرف میری حاضری میں بلکہ اِس سے بہت زیادہ میری غَیر حاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کئے جاؤ۔ " (فلپیوں 2باب12 آیت)
بائبلی ثبوتوں کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مشروط تحفظ کا یہ تصور ناقابلِ تردید ہے۔ کوئی شخص اِس رائے پر کیسے بحث کر سکتا ہے کہ ایماندار کو اپنی زندگی کے اختتام تک وفا دار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ اُس کی نجات یقینی ہو؟ لیکن اِس بحث کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ یہ آرمینین ازم (وہ جو مشروط تحفظ کے تصور کو مانتے ہیں) اور کیلون ازم کے حامیوں (وہ جو اُس نظریے کو مانتے ہیں جو "ابدی" تحفظ یا ایمانداروں کی استحکامت کہلاتا ہے)کے درمیان لمبے عرصے سے چلنے والی ایک الہیاتی بحث ہے۔ جہاں پر آرمینیت کے حامی ایماندار کی نجات کے مشروط تحفظ کے بارے میں درجنوں آیات پیش کر سکتے ہیں وہیں پر کیلون ازم کے حامی بھی اُسی تعداد میں بائبلی حوالہ جات ایمانداروں کی نجات کے ابدی تحفظ کی حمایت میں پیش کر سکتے ہیں جیسے کہ:
"کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اَیسے بڑے نشان اور عجیب کام دِکھائیں گے کہ اگر ممکِن ہو تو برگُزِیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔ " (متی 24باب24آیت)
"کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خُدا کی جو مُحبّت ہمارے خُداوند مسیح یسو ع میں ہے اُس سے ہم کو نہ مَوت جُدا کر سکے گی نہ زِندگی۔نہ فرشتے نہ حکومتیں ۔ نہ حال کی نہ اِستقبال کی چیزیں ۔ نہ قُدرت نہ بُلندی نہ پستی نہ کوئی اَور مخلوق۔ " (رومیوں 8باب38-39آیات)
"اور مَیں اُنہیں ہمیشہ کی زِندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی اُنہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔ " (یوحنا 10باب28-29آیات)
"اور اُسی میں تم پر بھی جب تم نے کلامِ حق کو سنا جو تمہاری نجات کی خوشخبری ہے اور اُس پر اِیمان لائے پاک مَوعُودہ رُوح کی مُہر لگی۔وُہی خُدا کی ملکیت کی مخلصی کے لئے ہماری مِیراث کا بیعانہ ہے تاکہ اُس کے جلال کی ستایش ہو۔ " (افسیوں 1باب13-14آیات)
بالکل مشروط تحفظ کے بارے میں بات کرنے والے حوالہ جات کی طرح ہی بہت سارے ایسے حوالہ جات پیش کئے جا سکتے ہیں جو ایمانداروں کی نجات کے ابدی تصور کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔ اوپر بیان کردہ تمام حوالہ جات کی روشنی میں ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک ایماندار کی نجات کے ابدی تحفظ کا اُس ایماندار کی ذاتی کوششوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ، بلکہ اُس کا مکمل طور پر تعلق خُدا کے قائم رکھنے یا بچانے والے فضل پر ہے، اور دوسری طرف تمام حوالہ جات جو مشروط تحفظ کی پشت پناہی کرتے ہیں اُن پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایماندار کے خُدا کے ساتھ وفادار رہنے کی قابلیت پر زور دیتے ہیں۔
ہمیں اِس سب سے کیا اخذ کرنا چاہیے؟کیا بائبل اِن دونوں نظریات یعنی مشروط تحفظ اور ابدی تحفظ کی تعلیم دیتی ہے؟کیا خُدا اِس حوالے سے گول مول بات کرتا ہے؟ اِن دونوں سوالات کا جواب ہے "نہیں"۔ اِس کے باوجود ہمیں اِس قابل ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم اُن حوالہ جات کی جو ایماندار کے وفادار رہنے کے بارے میں بات کرتے ہیں دوسرے حوالہ جات کے ساتھ ہم آہنگی یا مطابقت کو پیش کر سکیں جو خُدا کی طرف سے ایماندار کو ہمیشہ تک محفوظ رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ اِس پہیلی کو سلجھانے کی کلید اُس عقیدے پر غور کرنے میں ہے جس کو الہیات کے علماء "فضل کا عقیدہ" قرار دیتے ہیں۔ فضل کے عقیدے کا دوسرا نام کیلون ازم کے پانچ نکات (اِن کا نام کیلون کے نام پر رکھا گیا ہے، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ کیلون نے اپنی تعلیمات میں محض "پانچ نکات" کے بارے میں تعلیمات نہیں دی ) یا پھر TULIP (اِنہی پانچ نکا ت کا وضعی لفظ) ہے۔ یہاں پر فضل کے اِس عقیدے کو مختصراً پیش کیا جاتا ہے۔
مکمل بگاڑ: حقیقی گناہ کی بدولت انسان گناہ آلود فطرت کے ساتھ پیدا ہوتا ہےاور اُس گناہ آلود فطر ت کے ساتھ وہ کچھ بھی ایسا کرنے سے قاصر ہے جس سے خُدا کی خوشنودی ہو، اور نہ ہی وہ خُدا کی طرف رجوع لانے کی کوشش کرتا ہے۔
غیر مشروط چناؤ: انسان کی فطرت میں مکمل بگاڑ کی وجہ سے، انسان کی نجات کو یقینی بنانے کے لیے خُدا کو خود مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ خُدا ایسا غیر مشروط چناؤ کے ذریعے سے کرتا ہے (اور انسان اپنی نجات میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں ڈالتا)۔
محدود کفارہ: وہ لوگ جنہیں خُدا نے چُن لیا ہے اُن کو اپنی بادشاہی میں قبول کرنے کے لیے خُدا کی طرف سے گناہ کی راست عدالت کے تقاضوں کو پورا کرنے کی خاطر کفارہ ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خُدا اپنے بیٹے خُداوند یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے سے ایسا کرتا ہے۔
ناقابلِ مزاحمت فضل: خُدا رُوح القدس کی قدرت کے ذریعے ایماندار کو نیا مخلوق بنانے کے وسیلے سے اپنےناقابلِ مزاحمت فضل کی بدولت اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور یوں نجات یا یہ تقاضا پورا ہوتا ہے۔
مقدسین کی استقامت : وہ نجات جو خُدا ایمانداروں کو عطا کرتا ہے وہ ہمیشہ تک قائم رہے گی کیونکہ خُدا اُسے استقام بخشتا ہے اور ایمانداروں کے ابدی تحفظ کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان ہونے کے لیے دیتا ہے۔
اِس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہ آیا ایمانداروں کی نجات کا تحفظ مشروط ہے یا پھر ابدی، کسی بھی شخص کو پہلے فضل کے عقیدے کے اِن پانچ نکات کو دیکھنا پڑے گا۔ مقدسین کی استقامت کوئی ایسا نظریہ یا عقیدہ نہیں جو تن تنہا کھڑا ہو ، بلکہ اِس کی بنیاداِس سے پہلے کے چار نکات /عقائد پر ہے۔ فضل کے عقیدے کے دُھرے کی کیل اِس کا پہلا نکتہ یعنی مکمل بگاڑ ہےکیونکہ اگر یہ پہلا نکتہ درست ہے تو پھر باقی کے چاروں نکات بھی لازمی طور پر درست ہیں۔ یہاں پر ہمارے پاس اتنا وقت اور مضمون کے لحاظ سے اتنی جگہ نہیں کہ ہم پورے طور پر مکمل بگاڑ کے اِس عقیدے کا مکمل دفاع پیش کر سکیں۔ لیکن یہاں پر یہ کہنا کافی ہے کہ بائبل بالکل واضح طور پر یہ تعلیم دیتی ہے کہ انسان اپنے طور پر اپنی نجات کے لیے خُدا کی طرف آنے سے مکمل طور پر قاصر ہے (متی 19باب25-26آیات؛ یوحنا 6باب44آیت؛ رومیوں 3باب10-18آیات؛ اور مزید کئی ایک حوالہ جات)۔
کیلون ازم کے ناقدین اِس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور فضل کا یہ عقیدہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر ہم اِن عقائد کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر پاکیزگی اور تقویٰ وغیرہ تو بالکل ہی بے معنی چیزیں ہو جائیں گی۔ دوسرے الفاظ میں اگر نجات ابدی طور پر محفوظ ہے تو پھر وہ کونسی چیز ہے جو کسی ایماندار کو گناہ کرنے سے باز رکھے گی؟ صرف یسوع مسیح پر ایمان رکھنے کا دعویٰ "جہنم سے بچ نکلنے " کا لائسنس بن جائے گا۔پولس رسو ل رومیوں 6باب 1 آیت کے اندر بالکل یہی سوال پوچھتا ہے۔ اور اپنے ہی سوال کا پولس خود یہ جواب دیتا ہے کہ گناہ مسیح میں نئی زندگی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا (رومیوں 6 باب2-4آیت)۔ گناہ کرنے کے لائسنس کی وکالت کرنے سے قطع نظر فضل کا عقیدہ دراصل مسیحی پرہیز گاری اور پاکیزگی کو بڑھانے کے لیے جو کچھ کرتا ہے وہ مشروط تحفظ کے عقیدے سے بہت زیادہ بڑھ کر ہے۔ پیوریٹن جہاں پر بہت ساری دیگر چیزوں کے لیے جانے جاتے تھے وہاں پر وہ اپنی زندگی میں پرہیز گاری، سختی کے ساتھ عبادت اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے بارےمیں بھی جانے جاتے تھے اور اُن کی اکثریت کیلون ازم کے عقائد کی حامی تھی۔ فضل کے عقیدے کے اندر پرہیز گاری اور پاکیزگی کی زندگی گزارنے کو ہماری نجات کے لیے خُدا کے حیرت انگیز فضل کا رَد عمل خیال کیا جاتا ہے (رومیوں 12باب1-2آیات)۔ اگر اِن عقائد پر درست طور پر عمل کیا جائے اور اِن پر درست انداز سے ایمان رکھا جائے تو یہ اُن سارے کاموں کو جو ہم ایماندار ہوتے ہوئے کرتے ہیں ہمارے اُس سچے اور پیار کرنے والے خُدا کی محبت کا رَد عمل بنا دیتے ہیں جس نے ہم سے ایسی محبت رکھی کہ ہمیں گناہ، بد حالی اور ابدی ہلاکت سے بچایا۔ ہائیڈل برگ کیٹیکزم (پروٹسٹنٹ اصلاح کاری کے ابتدائی اقرار الایمان میں سے ایک اور بچّوں اور نئے ایمانداروں کو مسیحیت کے بارے میں سکھانے کا ایک ذریعہ ) تین حصوں پر مشتمل ہے: انسان کی بدحالی (ہماری گناہ آلود حالت)؛ انسان کی خلاصی (یسوع مسیح کے وسیلے خُدا کا ہماری نجات کے لیے پُر فضل عمل)؛ اور ہماری شکر گزاری (خُدا کے فضل کے جواب میں ہمارا رَدعمل، جو کہ مسیحی ہوتے ہوئے ہماری ذمہ داریوں پر بھی مشتمل ہے)۔
پس اگر ہم اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ فضل کا عقیدہ درست (یعنی بائبلی) ہے تو پھر ہم کس طرح سے اُس کو اُن سبھی حوالہ جات کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتے ہیں جو مشروط تحفظ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اِس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ہم (ایماندار)اِس لیے ایمان پر قائم رہتے ہیں کیونکہ خُدا ہمیں استقام بخشتا ہے۔ اِس کو ایک اور طریقے سے دیکھا جائے تو اگر ہم نجات کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتے (کیونکہ نجات تو خُدا کی طرف سے مفت بخشش ہے) تو پھر ہم اپنی نجات کو کھو کیسے سکتے ہیں؟مشروط تحفظ صرف اُنہی لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہو سکتا ہے جو کسی نہ کسی حد تک یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی نجات کو حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا ہے (جو کہ آرمینیت کا الہیاتی نظریہ عام طور پر کہتا ہے)۔ لیکن یہ بات کچھ ایسے حوالہ جات سے براہِ راست متصادم ہے جیسے کہ افسیوں 2باب8-9آیات: "کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں ۔ خُدا کی بخشش ہے۔اور نہ اَعمال کے سبب سے ہے تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔ " جو اِس بات کو واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ہم اپنی نجات کے حصول کے لیے قطعی طور پر کچھ نہیں کرتے؛ حتیٰ کہ خُدا کے فضل کو قبول کرنے کے لیے ہمیں جس ایمان کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی خُدا کی طرف سے ایک بخشش ہی ہے۔
دوسری طرف، آرمینیت کا الہیاتی عقیدہ دراصل انسان کو خود پر فخر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر مَیں خُدا کے رُوح کے ساتھ اپنے تعاون کی بدولت خُدا کے ساتھ آخر تک وفادار رہتا ہوں تو پھر اُس صورت میں مَیں تھوڑا سا فخر کر سکتا ہوں کہ مَیں کیسے سیدھے راستے پر رہا اور کیسے مَیں نے اپنی اُس دوڑ کو مکمل کیا۔ بہرحال خُد اکی حضوری میں خُدا پر فخر کرنے کی بجائے کسی بھی اور چیز پر فخر کرنے کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوگی (1 کرنتھیوں 1باب31آیت)۔ مشروط تحفظ کا عقیدہ بائبلی نہیں ہے؛ بائبل بالکل واضح ہے کہ ہم صرف اِس لیے قائم رہتے ہیں کیونکہ خُدا ہمیں استقامت بخشتا ہے۔
English
مشروط تحفظ سے کیا مُراد ہے؟