سوال
کیا ہمیں اُن لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کی ضرورت ہے جن کے خلاف ہم نے گناہ کیا ہے؟
جواب
ہم جانتے ہیں کہ ہمیں خدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہیےلیکن بہت سے مسیحی اِس کشمکش کا شکار ہیں کہ کیا ہمیں اُن لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں اعتراف کرنے کی ضرورت ہے جن کے خلاف ہم نے گناہ کیا ہے۔ کیا ہمیں اُس شخص کو جس کے خلاف ہم نے گناہ کیا ہے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم معذرت خواہ ہیں؟ "نور میں چلنے"(1یوحنا 1باب7آیت)کا مطلب ہے کہ ہم خدا کے احکامات کی تابعداری میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اِسی آیت میں ہمارے پاس مسیح کے ذریعے معافی اور "ایک دوسرے کے ساتھ رفاقت" کے حوالے ملتے ہیں۔ لہذا، "صاف سلیٹ" رکھنے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کے درمیان ایک تعلق ہے۔
ہر گناہ حقیقت میں خدا کے خلاف کیا جاتا ہے (51زبور 4آیت) ۔ بائبل مسلسل طور پر اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا اقرارخُدا کے سامنے کریں (41زبور4آیت؛ 130 زبور 4آیت؛ اعمال 8باب22آیت؛ 1یوحنا 19آیت)۔ جہاں تک لوگوں کے سامنے ہمارے گناہ کے اعتراف کا تعلق ہے تو بائبل میں اِس حوالے سے کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا ہے۔ ہمیں کئی بار کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف خداوند کے سامنے کریں، لیکن کسی اور کے سامنے اعتراف کرنے کے واحد براہ راست حکم کا سیاق و سباق کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے بیماروں پر دُعا کرنے کے ساتھ ملتا ہے۔ (یعقوب 5باب16آیت)۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کبھی بھی کسی دوسرے شخص سے معافی نہ مانگیں ۔ بائبل دوسرے لوگوں کے سامنے گناہوں کے اعتراف کی مثالیں دیتی ہے۔ایک مثال میں یوسف کے بھائی اُس سے معافی مانگتے ہیں (پیدایش 50باب17-18آیات)۔ شخصی طور پر ایک دوسرے کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے حوالے سے ہمیں ایسے حوالوں میں ذکر ملتا ہے جیسے کہ لوقا 17باب 3-4آیات؛ افسیوں 4باب32آیت اور کلسیوں 3باب13آیت۔
یہاں دئیے گئے اصول کچھ اِس طرح سے ہیں : (1) ہمیں ہر گناہ کے لئے خداوند سے معافی مانگنی چاہیے۔ وہ "باطن کی سچائی پسند کرتا ہے"(51 زبور 6آیت )۔ ( 2) اگر خداوند کے ساتھ ہمارا تعلق درست ہے تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی درست ہو جائیں گے۔ ہم دوسروں کے ساتھ انصاف ، ایمانداری اور شفقت کیساتھ پیش آئیں گے (15 زبور) ۔ کسی کے خلاف گناہ کرنا اور اُسے درست کرنے کی کوشش نہ کرنا ایسا عمل ہوگا جس کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا۔ (3) گناہ کے لئے معافی کی حد کو گناہ کے اثرات کی حد سے میل کھانا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں چیزوں کو درست کرنے کے لیے براہ راست اُس شخص سے معافی مانگنی چاہیے جو براہِ راست متاثر ہوا تھا۔
مثلاً اگر کوئی مرد کسی عورت کی طرف شہوت بھری نظر سے دیکھتا ہے تو اسے فوراً خداوند کے سامنے گناہ کا اعتراف کرنا چاہیے۔ عورت کے سامنے اس گناہ کا اعتراف کرنا ضروری یا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ گناہ آدمی اور خُدا کے درمیان ہے۔ تاہم، اگر کوئی مرد وعدہ توڑتا ہے، یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس کا براہ راست اثر عورت پر پڑتا ہے، تو اُسے اُس کے سامنے اعتراف کرنا چاہیے اور اُس سے معافی مانگنی چاہیے۔ اگر کسی گناہ کا اثر لوگوں کی بڑی تعداد پر ہوا ہو جیسے کہ کلیسیا، تو اُس مرد یا عورت کو اُس اعتراف کو کلیسیا کے اراکین کے سامنے بھی کرنا چاہیے۔ لہذا اعتراف اور معذرت کو گناہ کے اثرات کیساتھ میل کھانی چاہیے۔وہ لوگ جو گناہ سے متاثر ہوئے اُنہیں چاہیے کہ وہ اعتراف کو سُنیں۔
اگرچہ خدا سے معافی پانے کا انحصار دوسروں کے سامنے ہمارے گناہوں کا اعتراف کرنے اور/یااُن کی طرف سے ہمارے معاف کئے جانے پر نہیں ہے۔ لیکن خُدا چاہتا ہے کہ ہم ایماندار ہوں اور لوگوں کے سامنے اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا اعتراف کریں، خاص طور پر اُس صورت میں جب ہماری غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں۔ اگر ہم دوسروں کو ناراض کریں، اُنہیں تکلیف پہنچائیں یا اُن کے خلاف گناہ کر بیٹھیں تو ہمیں مخلصانہ طور پر اعترافِ جرم کرنے اور اُن سے معافی مانگنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ابھی ہمیں معافی دی جاتی ہے یا نہیں اِس کا انحصار اُن لوگوں پر ہے جن کے سامنے اعتراف کیا جاتا ہے۔ ہماری ذمہ داری حقیقی طور پر توبہ کرنا، گناہ کا اعتراف کرنا اور معافی مانگنا ہے۔
English
کیا ہمیں اُن لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرنے کی ضرورت ہے جن کے خلاف ہم نے گناہ کیا ہے؟