سوال
بائبل مُقدس کے مطابق شادی کیسے تشکیل پاتی ہے؟
جواب
بائبل واضح طور پر کہیں بیان نہیں کرتی کہ خُدا اصل میں کس موقع پر ایک مرد اور ایک عورت کو شادی شُدہ خیال کرتاہے۔ اِس بارے میں تین عام نقطہ نظر پائے جاتے ہیں:
أ. خُدا ایک مرد اور ایک عورت کو صرف اُس وقت شادی شُدہ سمجھتا ہے جب وہ قانونی طور پر شادی کرتے ہیں یعنی وہ قانون کی نظر میں شوہر اور بیوی بنتے ہیں ۔
ب. ایک مرد اور ایک عورت خُدا کی نظر میں اُس وقت شادی شُدہ ہوتے ہیں جب وہ شادی سے متعلق عہد و پیماں پر مشتمل کسی طرح کی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں۔
ج. خُدا ایک مرد اور ایک عورت کو اُس لمحے شادی شُدہ خیال کرتا ہے جب وہ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔
آئیے اِن تینوں نظریات میں سے ہر ایک پر غور کرتے ہیں اور ہر ایک کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ لگاتے ہیں۔
(1): خُدا ایک مرد اور ایک عورت کو صرف اُس وقت شادی شُدہ سمجھتا ہے جب وہ قانونی طور پر شادی کرتے ہیں۔ اِس نظریے کو عموماً اعلیٰ حکومتوں کے تابع رہنے کے حکم کےتناظر میں بائبل مقدس کی طرف سے تقویت دینے کی کوشش کی جاتی ہے (رومیوں13باب 1- 7آیات ؛ 1پطرس 2باب 17آیت) ۔ اصل دلیل یہ ہے کہ اگر حکومت شادی سے پہلے کسی طریقہ کار اور کاغذی کاروائی کو مکمل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے تو مخصوص جوڑے کو چاہیے کہ وہ خود کو ا س عمل کے لئے پیش کرے۔ یقیناً یہ بات اُس جوڑے کےلیے بائبل کی رُو سے درست ہے کہ جب تک حکومتی مطالبات خُدا کے کلام سے ہم آہنگی اور مناسبت رکھتے ہیں اُس وقت تک وہ خود کو حکومت کے تابع رکھیں۔ رومیوں13 باب 1-2آیات بیان کرتی ہیں "ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابع دار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خُدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خُدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خُدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں وہ سزا پائیں گے"۔
تاہم اِس نظریے میں کچھ خامیاں اور ممکنہ مسائل بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ شادی کسی بھی طرح کی انسانی حکومت کے قائم ہونے سے پہلے موجود تھی۔ لوگ ہزاروں سال سے شادیاں کر رہے تھے اور اُن میں تحریری اجازت نامے جیسی کوئی چیزنہیں پائی جاتی تھی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ حتیٰ کہ آج بھی بعض ایسے ممالک ہیں جن میں سرکاری طور پر شادی کی کچھ شناخت نہیں اوراُن میں شادی کے لئے کسی طرح کے قانونی مطالبات نہیں ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ بعض ایسی حکومتیں بھی موجود ہیں جو شادی کو قانونی حیثیت دینے سے پہلے شادی کے لئے غیر بائبلی مطالبات رکھتی ہیں۔ مثلاً بعض ممالک مطالبہ کرتے ہیں کہ شادی کیتھولک چرچ میں ہونی چاہیے، کیتھولک تعلیمات کے مطابق ہونی چاہیے اور کیتھولک پادری کی زیرِ نگرانی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ جو کیتھولک کلیسیااور بطور ساکرامنٹ شادی کے کیتھولک نظریے کے ساتھ گہرا اختلاف رکھتے ہیں ا ُن کے نزدیک شادی کروانے کےلیے خود کو کیتھولک کلیسیا کے تابع کرنا غیر بائبلی ہو گا۔اورچوتھی بات یہ ہے کہ شادی کے بندھن کو صرف سرکاری قوانین کی بناء پر جائزٹھہرانا اصل میں شادی کی قانونی وضاحت کی منظوری دینا ہے جس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
(2): ایک مرد اور ایک عورت خُدا کی نظر میں اُس وقت شادی شُدہ ہوتے ہیں جب وہ شادی کی کسی قسم کی رسمی تقریب کا باقاعدہ انعقاد کرتے ہیں۔بعض مفسرین سمجھتے ہیں کہ عدن میں ہونے والی پہلی شادی کی تقریب میں خُدا کا اپنی نگرانی میں حوا کو آدم کے پاس لانے کا عمل (پیدائش2باب 22آیت ) جدید دور میں شادی کی رسم کی عکاسی کرتا ہے جس میں باپ اپنی بیٹی کو دُلہے کے سپرد کرتا ہے۔ یوحنا 2 باب میں یسوع ایک شادی کی تقریب میں شرکت کرتا ہے ۔ اگر یسوع اُس شادی کی رسومات کو نہ مانتا ہوتا اور شادی کی تقریب کے طور پر جو کچھ ہو رہا تھا اگر وہ اُس کے ساتھ اتفاق نہ کرتا ہوتا تو اُس نے ایسی تقریب میں شریک نہیں ہونا تھا۔ شادی کی تقریب میں یسوع کی موجودگی یہ اشارہ ہرگز نہیں دیتی کہ خُدا شادی کی تقریب کو لازمی قرار دیتا ہے بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ خُدا کی نظر میں شادی کی تقریب قابلِ قبول ہے۔بنی نو ع انسان کی تاریخ میں پائے جانے والے قریباً ہر معاشرے نے شادی کےلیے کسی نہ کسی رسمی تقریب کی پیروی کی ہے۔ ہر ثقافت میں ایک خاص واقعہ، عمل، عہد، اقرار یا با ضابطہ اعلان پایا جاتا ہے جسے ایک مرد اور ایک عورت کو شادی شُدہ قرار دینے کےلیے تسلیم کیا جاتا ہے۔
(3): خُدا ایک مردا اور ایک عورت کو اُس وقت شادی شُدہ سمجھتا ہے جب وہ جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اِس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شادی شُدہ جوڑا حقیقتاً اُس وقت تک "شادی شُدہ" نہیں ہوتا جب تک کہ وہ جسمانی تعلقات قائم نہیں کر لیتے۔ دیگر لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جب مرد اور عورت مباشرت کرتے ہیں تو تب خُدا اُن دونوں کو شادی شُدہ سمجھتا ہے۔ یہ نظریہ اِس حقیقت پرمبنی ہے کہ شوہر اور بیوی کے درمیان جنسی تعلق "ایک تن" ہونے کے اصول کی حتمی تکمیل ہے (پیدایش2باب 24آیت؛ متی 19باب 5آیت؛ افسیوں5باب 31آیت)۔ اِس لحاظ سے جنسی تعلق قائم کرنا شادی کے عہد پر حتمی "مہر" ہے۔ تاہم یہ نظریہ بائبل کے مطابق درُست نہیں ہے کہ مباشرت کرنا شادی کی تکمیل کرتاہے ۔ اگر ایک جوڑا قانونی اور رسمی طور پر شادی شُدہ ہے لیکن کسی وجہ سے جنسی تعلقات قائم نہیں کر سکا تو اِس کے باوجود وہ شادی شُدہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خُدا جنسی تعلقات کو شادی کے برابر رتبہ نہیں دیتا اِس کی حقیقت یہ ہے کہ پرانا عہد نامہ اکثر ایک بیوی کو حرم کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر 2تواریخ11باب 21آیت ایک بادشاہ کی خاندانی زندگی کو بیان کرتی ہے "رحُبعام ابی سلوم کی بیٹی معکاہ کو اپنی سب بیویوں اور حرموں سے زیادہ پیار کرتا تھا (کیونکہ اُس کی اٹھارہ بیویاں اور ساٹھ حرمیں تھیں اور اُس سے اٹھائیس بیٹے ساٹھ بیٹیاں پیدا ہوئیں)"۔ اِس آیت میں حرموں کو جو کہ شاہِ رحُبعام کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتی تھیں بیویاں قرار نہیں دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اُن کو ایک الگ درجہ دیا گیا ہے ۔
اِس کے علاوہ1کرنتھیوں7باب 2آیت سے واضح ہوتا ہے کہ شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنا بدکاری ہے۔ اگر جنسی تعلق کی بناء پر کسی جوڑے کوشادی شدہ سمجھا جاتا ہے تو اس عمل کو غیر اخلاقی نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ جب ایک جوڑا جنسی تعلق قائم کر لیتا تو اُس وقت سے وہ شادی شدہ سمجھا جائے گا ۔ غیر شادی شُدہ جوڑے کے مباشرت کرنےاور پھر اپنے آپ کو شادی شُدہ ظاہر کرنے کے لئے بائبل بالکل حمایت نہیں کرتی کیونکہ اِس طرح ہر کوئی اپنی زندگی کے تمام جنسی تعلقات کو اخلاقی لحاظ سے بالکل جائز قرار دیکر خیال کرے گا کہ اُس کےغلط جنسی تعلقات بھی خُدا کے نام کو عزت دینے کا سبب ہیں۔
بعض لوگ پیدایش 24 باب میں اضحاق اور ربقہ کی کہانی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اضحاق اور ربقہ کی شادی کسی بھی تقریب کے بغیر ہوئی تھی اور اِس کی تکمیل اُسی وقت ہوئی تھی جب اضحاق اور ربقہ میں جنسی تعلق قائم ہوا تھا۔ لیکن شادی کی تفصیلات واضح کرتی ہیں کہ ایک رسمی عمل کی پیروی کی گئی۔ اضحاق کے باپ ابرہام نے اضحاق کی بیوی کی تلاش کے لئے اپنے نوکر کو ذمہ داریوں کی ایک فہرست مہیا کی تھی (پیدائش 24باب1- 10آیات)۔ نوکر نے وہ سب کام کئے جن کا حکم اُس کے آقا نے اسےدیا تھا نیز اُس نے رہنمائی اور تصدیق کے لئے خُدا سے دُعا بھی کی تھی (12-14آیات)۔ خُدا نے اُس کی رہنمائی کی اور خدانے اُس نوکر کی تمام "شرائط" کو پورا بھی کیا تھا اور یوں ثابت ہو گیا کہ اُس نے واقعی اضحاق اور ربقہ کی شادی کی منظوری دی تھی(15-27آیات)۔نوکراُن سب حالات میں خُدا کی مرضی کے شامل ہونے کا اتنا قائل ہوا کہ اُس نے اُن تمام تفصیلات کوجن سے خُدا کی مرضی کی تصدیق ہوئی فوراً ربقہ کے بھائی لابن سےبیان کر دیا(32- 49آیات)۔ جب رات کا کھانا پیش کیا گیا تو ہر کوئی جانتا تھا کہ خُدا کی مرضی ہے کہ اضحاق اور ربقہ کی شادی کی جائے (50-51آیات)۔ پھر دلہن اور اس کے گھر والوں کو قیمتی چیز یں(مہر) دی گئیں اور اُن کے درمیان زُبانی معاہدہ طے پایا (52- 59 آیات )۔ لہذا 67 آیت میں بیان کردہ بیاہ محض جنسی عمل پر مبنی نہیں تھا ۔ ثقافتی طریقہ کار اور مہر کی رسومات کی پیروی کی گئی تھی ، مطلوبہ شرائط پوری کی گئیں ، دُعاؤں کے جوابات کو دیکھا گیا اور یقیناًاِن تمام معاملات پر خُدا کی واضح برکت بھی تھی۔
لہذا خُدا کی نظر میں شادی کیسے تشکیل پاتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ مندرجہ ذیل اصولوں کی پیروی کرنی چاہیے:
أ. جب تک حکومتی مطالبات مناسب اور بائبل سےہم آہنگ ہوں ایک مرد اور ایک عورت کو چاہیے کہ وہ مطلوبہ سرکاری رسمی اصولوں کی پاسداری کریں۔
ب. ایک مرد اور ایک عورت کو چاہیے کہ عام طور پر جو بھی ثقافتی ، خاندانی اور عہد ی رسومات ایک جوڑے کو "رسمی طور پر شادی شُدہ" قرار دیتی ہیں اُن کی پاسداری کریں۔
ج. ایک مرد اور ایک عورت کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو وہ "ایک تن" ہونےکے اصول کے جسمانی پہلو کی تکمیل کرتے ہوئے جنسی تعلق بھی قائم کریں ۔
اگر اِن میں سے ایک یا ایک سے زیادہ اُصولوں کو پورا نہ کیا جائے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا ایسا جوڑا پھر بھی خُدا کی نظر میں شادی شُدہ سمجھا جائے گا؟ یہاں پر آخری بات یہ ہے کہ یہ معاملہ اُس مخصوص جوڑے اور خُدا کا آپسی معاملہ ہے۔ خُدا ہمارے دِلوں کو جانتا ہے (1یوحنا3 باب 20آیت)۔ خُدا حقیقی شادی اور جنسی بد اطواری کو جائز ٹھہرانے کی کوشش میں فرق کرنا بھی جانتا ہے۔
English
بائبل مُقدس کے مطابق شادی کیسے تشکیل پاتی ہے؟