سوال
تخلیق کی بائبلی کہانی کیا ہے؟
جواب
تخلیق کی بنیادی کہانی پیدایش 1 اور 2 باب کے اندر ملتی ہے، اور اِس کے ساتھ ہی 3 باب میں ہمیں اُس واقعے کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جو باغِ عدن میں ہوا تھا۔ پیدایش 1 باب کا آغاز خُدا کی اپنی ذات سے ہوتا ہے ، جس وقت کچھ بھی موجود نہیں تھا تو خُدا تھا۔ تخلیق کی کہانی کا آغاز انسان کے لیے خُدا کی طرف سے اپنی ذات کے مکاشفے اور اپنی مرضی کے اظہار کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابتدا میں خُدا نے اِس کائنات کے اندر موجود ہر ایک چیز کو تخلیق کیا (پیدایش 1باب1آیت)۔ اِس میں تمام آسمانی مخلوقات اور اشیاء (بشمول ستارے اور سیارے) اور اِس زمین پر موجود ہر ایک چیز شامل ہے ۔ اگرچہ پیدایش کی کتاب کے اِس تخلیقی بیان کے اندر خُدا کی ثالوث ذات کا اظہار بہت واضح طور پر نظر نہیں آتا لیکن یہاں پر خُدا اپنی ذات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے "ہم " جیسے لفظ کو متعارف کرواتا ہے (پیدایش 1باب26آیت)۔ رُوح القدس تخلیق کے اِس سارے عمل میں بڑی سرگرمی کے ساتھ کام کرتا نظر آتا ہے (پیدایش 1باب2آیت) اور ایسا ہی ہم یسوع کے بارے میں دیکھتے ہیں (یوحنا 1باب1-3آیات؛ کلسیوں 1باب15-17آیات)۔
تخلیق کے چھ دِنوں کے دوران خُدا نے روشنی ، کائنات اور اِس زمین (پہلا دن)؛ فضا اور آسمان (دوسرا دن)؛ خشک زمین اور تمام نباتاتی زندگی (تیسرا دن )؛ ستارے اور آسمانی مظاہر بشمول سورج اور چاند (چوتھا دن)؛ پرندے اور آبی مخلوقات (پانچواں دن)؛ اور تمام خشکی کے جاندار اور انسان(چھٹا دن) کو بنایا۔ بنی نوع انسان باقی کی تمام تر مخلوقات سے بالا ہے کیونکہ وہ خُدا کی شبیہ پر تخلیق کیا گیا ہے (پیدایش 1باب27آیت) اور اُس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اِس زمین پر خُدا کی طرف سے مختار ہو اور سب چیزوں پر حکمرانی کرے (28آیت)۔ تمام کی تمام مخلوقات اپنی ساری وسعت اور حیرت انگیز خوبصورتی کے ساتھ چھ دِنوں کے دورانیے میں تخلیق کی گئی تھیں۔ خُدا نے اپنے سارے تخلیقی کام کے اختتام پر اعلان کیا کہ سب "بہت اچھا" ہے اور پھر اِس کے بعد انسان کی تخلیق کی مزید تفصیلات ہمیں آگے ملتی ہیں۔
ساتویں دن خُدا نے آرام کیا۔ اِس آرام کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ خُدا تھک گیا تھا، بلکہ اُس کا آرام صرف اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خُدا نے اپنے سارے کام کو مکمل کر لیا تھا۔ خُدا نے اپنے کام کو ختم کیا تھا اور ساری کی ساری کائنات بالکل ویسی تھی جیسی خُدا چاہتا تھا۔خُدا کی طرف سے چھ دن کام کرنا اور پھر ایک دن آرام کرنا ہمارے لیے اپنے ہفتے کو گزارنے کا ایک نمونہ ہے اورہم اپنے ہفتے کے دوران بالکل اِسی نمونے پر عمل کرتے ہیں۔ بعد میں سبت کے دن کو پاک ماننے کی رسم خُدا کے چنے ہوئے لوگوں کی ایک خاص نشانی بن گئی (خروج 20باب8-11آیات)
پیدایش 2 باب انسان کی تخلیق کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ یہ حوالہ کسی دوسری تخلیق کا بیان نہیں ہے۔ نہ ہی یہ پیدایش 1 باب کے بیان کی تردید ہے۔ پیدایش 2 باب کا بیان بس تخلیق کے ایک مجموعی بیان سے ہٹ کر پڑھنے والے کی توجہ کو خُدا کی انسان کے حوالے سے خاص تخلیق پر مبذول کرواتا ہے۔ خُدا نے انسان کو اُسی زمین کی مٹی سے بنایا جسے اُسے نے پہلے تخلیق کیا ہوا تھا۔ انسان کے جسم کو مٹی سے بنانے کے بعد خُدا نے اُس میں زندگی کا دم پھونکا یعنی اُس میں رُوح ڈالا۔ خُدا کی طرف سے انسان کو اِس طرح سے تخلیق کرنے کی حقیقت انسان کے لیے خُدا کی خاص فکر اور پرواہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اُس کے بعد خُدا نے اِس پہلے انسان کو ایک بہت ہی خاص مقام پر رکھا جس کا نام عدن تھا۔ عدن ایک بہت ہی خوبصورت اور ہر طرح کے وسائل سے بھرپور مقام تھا۔ آدم کے پاس ہر وہ چیز تھی جس کی اُسے ضرورت تھی بشمول کھانے اور کرنے کے لیے مختلف طرح کی سرگرمیوں کے۔ بہرحال آدم کے ساتھ خُدا کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
خُدا نے آدم کو باقی ساری مخلوقات دکھائیں اور اُن کو دیکھنے کی بدولت آدم کو اپنے لیے ایک جیون ساتھی کی ضرورت کا احساس ہوا (پیدایش 2باب19-20آیات)۔ تمام جانداروں کو نام دینے کے مرحلے کے اختتام پر آدم کو احساس ہوا کہ اُس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے۔ خُدا نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور پھر اُتنی ہی پرواہ اور محبت کے ساتھ اُس نے حوؔا کو تخلیق کیا جتنی پرواہ سے اُس نے آدم کو تخلیق کیا تھا (21-22آیات)۔ حوؔا کو آدم کی پسلی سے بنایا گیا تھا۔ پھر خُدا حوؔا کو آدم کے پاس لایا، تب آدم فوراً سمجھ گیا کہ حوؔا اُس کے لیے خاص تھی۔ وہ اُس کی ذات کا حصہ تھی، اُس کی ہڈیوں میں سے ہڈی اور اُس کے گوشت میں سے گوشت (23آیت)۔
خُدا نے آدم اور حوؔا کو اپنی شبیہ پر تخلیق کیا تھا (پیدایش 1باب27آیت)۔ بائبل میں بیان کیا گیا تخلیق کا حوالہ خاندان کو معاشرے کی بنیادی اکائی کے طور پر پیش کرتا ہے (پیدایش 1باب24آیت بالموازنہ متی 19باب5-6آیات)۔ اور جیسا کہ شادی جیسے رشتے کی بنیاد خُدا نے رکھی ہے یہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان قائم ہونے والا رشتہ ہے۔
آدم اور حوؔا کو معصومیت کی حالت میں تخلیق کیا گیا تھا (پیدایش 1باب25آیت) اور اُس وقت تک اُنہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا۔ وہ باغِ عدن کے اندر خُدا کے ساتھ خاص رفاقت سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے اور اُنہیں سوائے ایک درخت کے پھل کے باغ کے سبھی درختوں کا پھل کھانے کی مکمل آزادی تھی (پیدایش 2باب16-17آیات)۔ خُدا کے ساتھ اُن کی رفاقت کے لیے ایک لازمی اصول بھی مقرر کیا گیا تھا اور وہ یہ کہ :آدم اور حوؔا نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل نہیں کھائیں گے (پیدایش 2باب17آیت)۔
پھر ایک مقام پر شیطان کی طرف سے حوؔا کو بہکایا گیا کہ وہ ممنوعہ درخت کے پھل میں سے کھائے اور اُس نے اُس درخت کے پھل میں سے کھا لیا۔ آدم نے بھی اُس درخت کے پھل میں سے لیکر کھایا اور یوں وہ بھی اپنی بیوی کے ساتھ خُدا کی اُس نافرمانی میں شامل ہو گیا (پیدایش 3باب1-6آیات)۔ جب آدم اور حوؔا نے خُدا کے خلاف گناہ کیاتو اُس وقت اُنہوں نے اپنی معصومیت کو کھو دیا اور اُن کی فطرت گناہ آلود ہو گئی (پیدایش 3باب7-12 آیات)۔ گناہ اپنے ساتھ خاص قسم کے نتائج بھی لیکر آیا۔ موت کا سلسلہ فوری طور پر شروع ہو گیا۔ خُدا نے سانپ کو لعنت کی کہ وہ عمر بھر اِس زمین کے اوپر اپنے پیٹ کے بل چلے اور انسان ہمیشہ اُس سے نفرت کریں (14-15آیات)۔ خُدا نے عورت کو سزا دی کہ وہ درد کے ساتھ بچّے جنے اور اپنے شوہر پر تسلط قائم کرنے کی کوشش میں رہے لیکن اُس کا شوہر ہمیشہ ہی اُس پر حکمرانی کرے (16آیت)، اور آدم کو یہ سزا دی کہ وہ عمر بھر محنت اور مشقت کی سختیاں جھیلے اور اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مزدوری کرے (17-19آیات)۔ پھر آدم اور حوؔا کو باغِ عدن میں سے نکال دیا گیا اور اُن کی زندگی کے درخت تک رسائی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا (پیدایش 3باب22-24آیات)۔
اپنے عظیم رحم کی بدولت خُدا نے آدم اور حوؔا کی برہنگی کو بھی ڈھانپا (پیدایش 3باب21آیت) اور ایک نجات دہندہ کے وعدے کے ساتھ اُنہیں اُمید کا ایک خاص پیغام دیا۔ بائبل مُقدس کے اندر آنے والے مسیحا کا سب سے پہلا ذکر پیدایش 3باب15آیت میں پایا جاتا ہے اور اِسے پروٹو ایونجلیم کہا جاتا ہے۔ عورت کی نسل سے کوئی آئے گا جو سانپ کے سر کو کچلے گا اور اُس دوران اُس کی ایڑی پر کاٹا جائے گا۔ پس اِس تخلیق کی کہانی کا ایک بہت اہم حصہ خُداوند یسوع مسیح کی صلیب پر موت اور پھر شیطان اور گناہ کی لعنت پر فتح پر مشتمل ہے۔
English
تخلیق کی بائبلی کہانی کیا ہے؟