settings icon
share icon
سوال

بائبل سزائے موت کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

جواب


پرانے عہد نامے کا قانون یعنی شریعت کئی ایک طرح کے کاموں کی صورت میں سزائے موت کا حکم دیتی ہے جیسے کہ: قتل (خروج 21باب12 آیت)، اغوا (خروج 21باب 16 آیت)، کسی جانور کے ساتھ بدکاری (خروج 22باب 19 آیت)، زنا کاری ( احبار 20 باب 10 آیت)، ہم جنس پرستی (احبار 20باب13 آیت)، جھوٹا نبی ہونا (اِستثنا 13باب 5 آیت)، جسم فروشی اور زنا بالجبر (استثنا 22باب24 آیت) اور اِن کی مانند کئی اور جرائم۔ بہرحال بہت سارے ایسے معاملات میں جہاں پر کسی کو سزائے موت ملنی چاہیے ہوتی ہے خُدا اپنا رحم دکھاتا ہے۔ داؤد کی زندگی میں بت سبع کیساتھ بدکاری اور حتّی اوریاہ کے قتل جیسے گناہ پائے گئے لیکن خُدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ داؤد بادشاہ کی زندگی لے لی جائے (2 سموئیل 11باب1- 5 آیات، 14- 17 آیات؛ 2 سموئیل 12باب13آیت)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہر ایک گناہ کی سزا موت ہی ہے کیونکہ بائبل بیان کرتی ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے (رومیوں 6باب23 آیت)۔ لیکن خُدا نے ہم پر اپنے غضب کو نہیں بلکہ اپنی محبت کی خوبی کو ہی ظاہر کیا ہے (رومیوں 5باب 8آیت)۔

جس وقت فریسی ایک ایسی عورت کو یسوع کے پاس لائے جو اُن کے مطابق بدکاری کے عین فعل کے وقت پکڑی گئی تھی اور یسوع سے پوچھا کہ کیا اُسے سنگسار کیا جانا چاہیے یا نہیں تو یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ "جو تم میں سے بے گناہ ہو وہی پہلے اُس کے پتھر مارے" (یوحنا 8باب 7 آیت)۔ اِس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جانا چاہیے کہ یسوع نے ایسا کہہ کر ہر ایک معاملے میں سزائے موت کے قانون کو تبدیل کر دیا ہے اور سزائے موت کو رَد کر دیا ہے۔ اِس معاملے میں یسوع اُن فریسیوں کی ریا کاری کو ظاہر کر رہا تھا۔ فریسی اصل میں ایک خاص چال چل کر یسوع کو پھنسانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ کسی طرح پرانے عہد نامے کی شریعت کو توڑے اوروہ اُسے موردِ الزام ٹھہرائیں۔ اُنہیں اُس عورت کے معاملے سے جو اُن کے مطابق عین فعل کے وقت پکڑی گئی تھی قطعی طور پر کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ اُسے سنگسار کیا جائے یا نہیں (اگر وہ واقعی ہی سنجیدہ تھے تو عین فعل کے وقت پکڑی جانے والی عورت کے ساتھ بدکاری کرنے والا آدمی کہاں تھا؟)۔ یہ خُدا ہی ہے جس نے سزائے موت کا حکم جاری کیا تھا۔ "جو آدمی کا خون کرے اُس کا خون آدمی سے ہوگاکیونکہ خُدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا ہے"(پیدایش 9باب6 آیت)۔ یسوع لازمی طور پر کچھ معاملات میں سزائے موت کی حمایت کرتا، لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بہت سارے ایسے لوگوں کے لیے جو سزائے موت کے مستحق تھے یسوع نے اپنے فضل کا مظاہرہ کیا۔ (یوحنا 8باب1-11 آیات)۔ پولس رسول کے مطابق کوئی بھی حکومت یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ جہاں بہتر سمجھے کسی بھی شخص کو سزائے موت دے سکتی ہے (رومیوں 13باب 1-7 آیات)۔

ایک مسیحی کو سزائے موت کو کس طرح سے دیکھنا چاہیے؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کئی ایک معاملات میں سزائے موت کا حکم خود خُدا نے اپنے کلام کے اندر دیا ہے، اِس لیے ہماری طرف سے ایسا سوچنا کہ ہم اِ س بات کو نظر انداز کر کے اِس سے بھی اعلیٰ معیار متعارف کرا سکتے ہیں بالکل غلط بات ہے۔ خُدا کی ذات کامل ذات ہے اور اُس کی طرف سے متعارف کیا گیا کوئی بھی معیار اُس خاص معاملے میں اعلیٰ ترین معیار ہے۔ وہ معیار جو خُدا طے کرتا ہے اُس کا اطلاق نہ صرف ہم سب پر بلکہ خود خُدا کی ذات پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ لا محدود خُدا ہے اِس لیے ہمارے لیے اُس کی محبت بھی لا محدود ہے اور اُس کا رحم بھی لا محدود ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب خُدا کے غضب کی بات آتی ہے تو اُس کاغضب بھی لا محدود ہے اور یہ ساری چیزیں اُس کی کاملیت کے توازن کے اندر قائم ہیں۔

دوسرے نمبر پر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ خُدا نے حکومت کو یہ اختیار بخشا ہے کہ وہ مختلف معاملات میں خود یہ طے کرے کہ آیا کسی کو کسی خاص گناہ یا جرم کی وجہ سے سزائے موت دی جانی چاہیے یا نہیں (پیدایش 9باب6 آیت؛ رومیوں 13باب 1- 7 آیات)۔ یہ کہنا کہ خُدا ہر طرح کے معاملات میں سزائے موت کو رَد کرتا ہے بالکل غیر بائبلی تصور ہے۔ جس وقت کسی بڑے جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو سزائے موت دی جاتی ہے تو مسیحیوں کو قطعی طور پر اِس بات سے خوش نہیں ہونا چاہیے ، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اگرکسی ملک کی حکومت گھنونے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کوسزائے موت دیتی ہے تو حکومت کے اِس حق اور اختیار کے خلاف مسیحیوں کو لڑنا بھی نہیں چاہیے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل سزائے موت کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries