سوال
کیا مسیح کی الوہیت بائبل مُقدس کے مطابق ہے؟
جواب
خُداوند یسوع کے اپنی ذات کے بارے میں خاص دعوؤں کے علاوہ اُس کے شاگرد اُسکی الوہیت کو مانتے تھے ۔ وہ یہ مانتے تھے کہ یسوع کو گناہ معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے – گناہ معاف کرنے جیسا کام صرف خُدا ہی کر سکتا ہے – کیونکہ انسان کا گناہ خُدا کے خلاف ہے اورانسان اپنے گناہ سے براہِ راست اُسی کو ناراض کرتا ہے۔(اعمال 5باب 31آیت؛ 130زبور 4آیت؛ یرمیاہ 31باب 34آیت)۔ اوپر بیان کردہ دعوے کیساتھ منسلک یسوع کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ "زندوں اور مُردوں کی عدالت کرے گا"(2 تیمتھیس4باب 1آیت)۔توما نے یسوع کے سامنے عاجزی کے ساتھ پکار کر کہا "اِے میرے خُداوند! اَے میرے خُدا!" (یوحنا 20باب 28آیت)۔ پولس رسول یسوع کو "بزرگ خُدا اور منّجی " کہتا ہے (ططس 2باب 13آیت) اور اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مجسم ہونے سے پہلے یسوع بطور"خُدا" اپنا وجود رکھتا تھا (فلپیوں 2باب5-8آیات)۔ خُداوند یسوع کے بارے میں خُدا باپ کہتا ہے کہ " اے خدا تیرا تخت ابدالآباد رہے گا اور تیری بادشاہی کا اعصا راستی کا عصا ہے " (عبرانیوں 1باب8آیت)۔ یوحنا بیان کرتا ہے کہ "ابتدا میں کلام تھا، اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام (یسوع) خدا تھا" (یوحنا 1باب 1آیت)۔وہ حوالہ جات جو یسوع مسیح کی الوہیت کی تعلیم دیتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں(دیکھئے مکا شفہ 1باب 17آیت ؛ 2 باب 8آیت؛ 22 باب 13آیت ؛ 1کرنتھیوں 10باب 4آیت؛ 1پطرس2باب 6-8آیات؛ 18 زبور 2آیت؛ 95زبور 1آیت؛ 1 پطرس5باب 4آیت؛ عبرانیوں 13باب 20آیت) ، اور اِن میں سے صرف ایک حوالہ بھی یہ دکھانے کے لیے کافی ہے کہ یسوع کے شاگرد، اُس کے پیروکار اُس کی الوہیت کا یقین رکھتے تھے۔
یسوع کو کئی ایسے خطابات/القابات بھی دئیے گئے ہیں جو صرف خُدا کی ذات (یہواہ: پرانے عہد نامے میں خُدا کے لیے استعمال ہونے والے نام) کے لیے مخصوص ہیں۔پرانے عہد نامے میں خُدا کے لیے استعمال ہونے والا لقب "فدیہ دینے والا/چھڑانے والا" (130 زبور 7آیت؛ ہوسیع 13باب14آیت) نئے عہد نامے میں خُداوند یسوع کے لیے استعمال ہوا ہے (ططس 2با ب 13آیت ؛ مکا شفہ 5باب 9آیت)۔ یسوع کو متی 1باب میں عمانوایل یعنی "خُدا ہمارے ساتھ" کہا گیا ہے۔ زکریاہ 12باب10 آیت میں یہواہ یہ کہتا ہے کہ "اور وہ اس پر جس کو انہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اس کے لئے ماتم کریں گے"اور نیاعہد نامہ اِسے خُداوند یسوع مسیح کی مصلوبیت کے ساتھ جوڑتا ہے(یوحنا 19باب 37آیت؛ مکا شفہ 1باب 7آیت) ۔ اگر وہ جسے چھیدا گیا تھا اور جس پر وہ نظر کریں گے یہواہ ہے ، اور دوسری طرف یسوع وہ ذات ہے جسے چھیدا گیا تھا اور لوگوں نے اُس پر نظر کی تو پھر یسوع ہی یہواہ ہے۔ پولس رسول یسعیاہ 45باب 22-23 کی تفسیر کرتے ہوئے اُس کا اطلاق فلپیوں2 باب 10-11آیات میں یسوع کی ذات پر کرتا ہے ۔ مزید برآں پولس کی طرف سے اپنے خطوط کے آغاز میں دُعائیہ کلمات کے اندر خُدا کے نام کے ساتھ یسوع کا نام بھی استعمال کیا گیا ہے جیسے کہ " خدا باپ اور ہمارے خداوند یسوع مسیح کی طرف سے تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہوتا رہے "( گلیتوں1باب 3آیت ؛ افسیوں 1باب 2آیت)۔ اگر خُداوند یسوع مسیح خُدا نہیں ہےتو ایسا کچھ بھی کہنا کفر کے مترادف ہے۔ یسوع کا نام اُس کے اُس حکم میں بھی خُدا کے ساتھ آتا ہے جہاں پر اُس نے کہا ہے کہ "جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کوباپ اور بیٹے اور رُوح القُدس کے نام(صیغہ واحد) سے بپتسمہ دو"(متی 28باب 19آیت؛ مزید دیکھئے 2 کرنتھیوں13 باب 14آیت) ۔
وہ کام جو صرف اور صرف خُدا کی ذات ہی سر انجام دے سکتی ہے اُنہیں خُداوند یسوع کی ذات کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یسوع نے نہ صرف مُردوں کو زندہ کیا (یوحنا 5باب 21 آیت؛11باب 44-45آیات) اور گناہگاروں کے گناہوں کو معاف کیا (اعمال 5باب 31آیت، 13باب 38آیت)، بلکہ اُس نے کائنات کو بھی تخلیق کیا اور قائم رکھے ہوئے ہے(یوحنا 1باب 2آیت ؛ کلسیوں 1باب 16-17آیات)۔ یہ بات اُس وقت اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب یہواہ خُدا کہتا ہے کہ کائنات کی تخلیق کے وقت وہ بالکل اکیلا تھا(یسعیاہ 44باب 24آیت) ۔مزید برآن مسیح کی ذات میں وہ صفات پائی جاتی ہیں جو صرف اور صرف خُدا کی ذات میں ہو سکتی ہیں جیسے کہ: ابدی (یوحنا8باب 58آیت) ، حاضرو ناظر (متی 18باب 20آیت؛ 28 باب 20آیت)، علیمِ کل (متی 16باب 21آیت) اور قادر مطلق (یوحنا 11باب 38-44آیات) ۔
ابھی خُدا ہونے کا دعویٰ کرنا یا کچھ لوگوں کو بیوقوف بنا کر اُن کو یہ یقین دلانا ایک الگ چیز ہے جبکہ اِس دعوے کو ثابت کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ خُداوند یسوع نے اپنے الوہیت کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ معجزات دکھائے تھے۔ یہاں پر اُن میں سے چندایک کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جیسے کہ معمولی پانی کو مے میں تبدیل کرنا (یوحنا 2باب 7آیت) ، پانی پر چلنا (متی 14باب 25آیت) طبعی چیزوں کو اپنی قدرت سے بہت زیادہ بڑھا دینا(یوحنا 6باب 11آیت) ، اندھوں کو بینائی عطا کرنا (یوحنا 9باب 7آیت) لنگڑوں کو (مرقس 2باب 3آیت)اور بیماروں کو شفا دینا (متی 9باب 35آیت؛ مرقس1باب 40-42آیات) اور حتیٰ کہ مُردوں کو زندہ کرنا (یوحنا 11باب 43-44آیات؛ لوقا 7باب 11-15آیات؛ مرقس 5باب 35آیت) ۔ اِس کے علاوہ یسوع خود بھی مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ کچھ قدیم غیر اقوام کے دیوتاؤں کے مرنے اور جی اُٹھنے کی دیومالائی یعنی اساطیری داستانوں کے علاوہ دُنیا کے اندر پائے جانے والے بڑے بڑے مذاہب میں نہ تو کسی کے اِس طرح سے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا دعویٰ موجود ہے اوراگر کوئی ہے بھی تو اُس کے پاس مسیح کے جی اُٹھنے جیسی حقیقت کی طرح کلام سے باہر ثبوت موجود نہیں ہیں۔
یسوع مسیح کی ذات کے بارے میں کم از کم 12 ایسے تاریخی حقائق موجود ہیں جنہیں غیر مسیحی علماء بھی تسلیم کرتے ہیں۔
1. یسوع صلیبی موت مرا تھا۔
2. یسوع کو دفن کیا گیا تھا۔
3. اُس کی موت اُس کے شاگردوں میں مایوسی اور نااُمیدی کی وجہ بنی۔
4. یسوع کی موت کے چند روز بعد یسوع کی قبر خالی پائی گئی (یا یہ دعویٰ کیا گیا کہ اُسے خالی پایا گیا ہے)۔
5. شاگرد پُر یقین تھے کہ اُنہیں نے جی اُٹھے مسیح کے کئی ایک ظہور کا تجربہ کیا تھا۔
6. اِس کے بعد یسوع کے شاگرد شک کرنے والوں کی بجائے پختہ یقین رکھنے والے بن گئے۔
7. ابتدائی کلیسیا میں یہی پیغام (یعنی یسوع کا موت اور قبر پر فتح پا کر جی اُٹھنا) منادی کا مرکزی نکتہ تھا۔
8. اِس پیغام کی منادی یروشلیم میں کی گئی۔
9. اِس پیغام کے نتیجے میں کلیسیا نے جنم لیا اور وہ بہت بڑھنا شروع ہو گئی۔
10. مسیح کے پیروکاروں کے لیےپرستش اور عبادت کے لیے اتوار کے دن (یعنی قیامت المسیح کے دن ) نے ہفتے (یعنی سبت) کی جگہ لے لی۔
11. یعقوب نے جو یسوع کی باتوں اور تعلیمات پر شک کرتا تھا جب جی اُٹھے مسیح کو دیکھا تو وہ مسیحی ہو گیا ۔
12. اُس دور میں مسیحیت کا بہت بڑا دشمن پولس ایک خاص تجربے کے بعد مسیحی ہو گیا۔ وہ مانتا تھا کہ اُس نے اپنے اُس تجربے میں جی اُٹھے مسیح کو دیکھا تھا۔
اگر کوئی اِس مخصوص فہرست پر اعتراض بھی کرتا ہے تو اُس کے سامنے صرف مسیح کے جی اُٹھنے: یسوع کی موت، تدفین، مُردوں میں سے جی اُٹھنے اور اپنے شاگردوں پر ظاہر ہونے کو ثابت کرنا ہی مسیحیت کی حقانیت کا سب سے بڑا ثبوت ہوگا(1 کرنتھیوں 1باب 5-15آیات) ۔ اگرچہ اوپر بیان کردہ حقائق میں سے ایک دو کی غیر بائبلی تشریح کرنے کے لیے کچھ نام نہاد نظریات کو بھی سامنے لایا جائے تو بھی صرف مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا ہی اِن سب کی حقیقت کی درست تشریح ہے۔ مسیحیت کے ناقدین بھی یہ مانتے ہیں کہ خُداوند یسوع کے شاگرد یہ ایمان رکھتے تھے کہ اُنہوں نے جی اُٹھے مسیح کو دیکھا تھا۔ نہ تو کوئی جھوٹ اور ہ ہی کسی طرح کی کوئی فریب نظر ی کسی کو اِس حد تک تبدیل کر سکتی ہے جیسے یسو ع کے جی اُٹھنے کی حقیقت نے اُس کے شاگردوں کو کیا تھا۔ پہلی بات تو یہ دیکھنے والی ہے کہ اُن کو ایسا سب کرنے یا کہنے سے حاصل کیا تھا؟نہ تو مسیحیت اُس وقت کوئی مقبول مذہب تھا اور ایسا کرنے سے اُن کو کسی سے کوئی مالی مدد نہیں مل رہی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے اپنے جھوٹ کی وجہ سےکبھی بھی شہید ہونا پسند نہیں کرتے۔ شاگردوں کی طرف سے اپنے مسیحی ایمان کی خاطر ایسی ہولناک اموات کا دلیری کے ساتھ سامنا کرنے جیسی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس یسوع کے جی اُٹھنے کی حقیقت کے علاوہ اور کوئی مناسب جواز نہیں ہے۔ جی ہاں بہت سارے لوگ اُس جھوٹ کے لیے ضرور اپنی جانیں دے دیتے ہیں جنہیں وہ سچ سمجھتے ہیں لیکن لوگ کبھی بھی اُس بات کے لیے اپنی جان نہیں دیں گے جو اُن کے اپنے علم کے مطابق جھوٹی ہو۔
اختتام پر یسوع نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ "یہواہ "ہے، وہ الٰہی ذات (کوئی دیوتا نہیں بلکہ زندہ اور سچا خُدا) ہے ؛ اُس کے پیروکار (یہودی جو بت پرستی یعنی حقیقی خُدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے کو انتہائی بُرا خیال کرتے تھے)وہ جی اُٹھے مسیح پر ایمان لائے اور اُس کی الوہیت کا یقین اور پرچار کیا۔ یسوع نے اپنے معجزات سے جس میں ساری دُنیا کو تبدیل کر دینے والا معجزہ "مُردوں میں سے جی اُٹھنا"شامل ہے اپنی الوہیت کو ثابت کیا۔ کوئی اور نظریہ اِس حقیقت کو مناسب طور پر بیان نہیں کر سکتا۔ جی ہاں یسوع مسیح کی الوہیت کا تصور بالکل بائبلی ہے۔
English
کیا مسیح کی الوہیت بائبل مُقدس کے مطابق ہے؟