سوال
افسردگی کی بابت کلام پاک کیا کہتا ہے؟
جواب
ذہنی دباؤ پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے کئی ملین لوگ متاثر ہو چکے ہیں جن میں مسیحی بھی ہیں اور غیر مسیحی بھی۔ وہ لوگ جو ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں وہ اکثر اپنی زندگیوں میں اچانک افسردگی، غصے، نا اُمیدی ، تھکان اور ایسے دیگر کئی ایک احساسات کا تجربہ کرتے رہتے ہیں جو اُن پر اکثر فوری طور پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ کئی بار اپنے آپ کو بالکل بیکار اور فضول سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور اُن کے اندر خود کشی کرنے کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں کیونکہ وہ چیزوں اور اپنے ارد گرد کے انسانوں میں اُس دلچسپی کو کھو دیتے ہیں جس سے کبھی وہ لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ذہنی دباؤ کو ہماری زندگی کےمختلف طرح کے حالات جنم اور تحریک دیتے ہیں جیسے کہ نوکری کا ختم ہو جانا،اپنے کسی پیارے کی موت، طلاق یا پھر نفسیاتی مسائل جیسے کہ جسمانی ، جنسی بد سلوکی، یا پھر اپنی ذات کے کمتر ہونے کا احساس۔
بائبل مُقدس ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں خُداوند میں ہر وقت خوش رہنا چاہیے اور خُداوند کی حمد اور ستائش کرتے رہنا چاہیے(فلپیوں 4باب 4 آیت؛ رومیوں 15 باب 11 آیت)۔ پس ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا ہم سب کے تعلق سے چاہتا ہے کہ ہم اپنی زندگیاں خوشی کے ساتھ گزاریں۔ذہنی دباؤ کی صورت میں ایسا کرنا کسی انسان کے لیے بالکل بھی آسان نہیں ہے ۔ اور وہ جو رُوحانی طور پرذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اُن کے لیے یہ بات بالکل بھی آسان نہیں ہوتی لیکن اِس بیماری کا علاج خُدا کی طرف سے دُعا کی نعمت، بائبل مُقدس کے مطالعے اور اُس کی تعلیمات کے اطلاق، مددگار مطالعاتی گروہوں، ایمانداروں کی باہمی رفاقت، خُدا کے حضور اور مقدسین کے سامنے اپنے گناہوں کے اعتراف اور بائبلی صلاح کاری کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے لیے ہمیں شعوری طور پر کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنی ذات میں ہی گم نہ ہو جائیں بلکہ اپنی ساری توجہ اور اپنی کوششوں کو اپنی ذات سے باہر کی دُنیا کی طرف رکھیں۔ ذہنی دباؤ کا احساس اکثر بڑی آسانی کے ساتھ اُس وقت ختم ہو نا شروع ہو جاتا ہے جب ہم اپنے احساسات کا رُخ اپنی ذات سے ہٹا کر خُداوند یسوع مسیح کی ذات یا اپنے ارد گرد کے لوگوں کی ذات پر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
طبّی نوعیت کا ذہنی دباؤ ایک جسمانی حالت ہے اِس کے علاج کے لیے ہمیں باقاعدہ طور پر معالج سے ملنا اور اُس کا مشورہ لینا چاہیے۔ اِس قسم کا ذہنی دباؤ ضروری نہیں کہ زندگی کے مشکل حالات کی وجہ سے جنم لے اور نہ ہی اِس کے دوران پیدا ہونے والے احساسات کسی انسان کی اپنی مرضی سے کم ہوتے ہوں۔ اُس بات کے برعکس جو بہت سارے مسیحی حلقوں میں مانی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ طبّی نوعیت کا ذہنی دباؤ کسی خاص گناہ کی وجہ سے ہی پیدا ہوا ہو۔ ذہنی دباؤ کئی دفعہ کسی جسمانی کمزوری یا اضطراب کی وجہ سے بھی ہو جاتا ہے جس کا باقاعدہ طور پر علاج دوائیوں اور صلاح کاری کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خُدا کسی بھی قسم کی جسمانی کمزوری یا اضطراب کی حالت میں ہمیں ٹھیک کرنے اور شفا دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ بہرحال بہت ساری حالتوں میں ذہنی دباؤ کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس مدد کے لیے جانا زخمی ہو کر ڈاکٹر کے پاس مدد کے لیے جانے سے قطعی طور پر مختلف نہیں ہے۔
کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی مدد سے وہ لوگ جو ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اپنی فکر مندی اور ذہنی دباؤ کو پیدا کرنے والے احساسات کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اُن کو اِس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ خُدا کے کلام کا مطالعہ کرتے رہیں، حتیٰ کہ اُس وقت بھی جب اُن کا دل ایسا کرنے کو بالکل نہیں چاہتا۔ ہمارے جذبات ہمیں اپنے ساتھ بہا کر کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں لیکن ہمارے خُدا کا کلام لا تبدیل ہے اور وہ ایک ہی جگہ پر مستقل طور پر موجود ہے۔ ہمیں خُدا کی ذات پر پختہ ایمان رکھنے کی ضرورت ہے اور جب ہم مختلف طرح کے مسائل یا آزمائشوں کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں خُدا کی طرف مکمل طور پر رجوع لانے کی ضرورت ہے۔ بائبل مُقدس ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ خُدا کبھی بھی ہماری زندگیوں میں اتنی بڑی آزمائش کو نہیں آنے دے گا جس کا ہم مقابلہ نہ کر سکیں (1 کرنتھیوں 10باب 13آیت)۔ اگرچہ ذہنی دباؤ کا شکار ہونا کوئی گناہ نہیں ہےپھر بھی ایسے شخص سے اِس بات کا تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مشکل میں اپنے رَد عمل کا جوابدہ ہو۔اِس رَد عمل میں ایسے لوگوں سے مدد لینا بھی شامل ہے جوایسے شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو ذہنی دباؤ کی صورت میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ "پس ہم اُس کے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی اُن ہونٹوں کا پھل جو اُس کے نام کا اقرار کرتے ہیں خُداوند کے لیے ہر وقت چڑھایا کریں" (عبرانیوں 13باب15 آیت)۔
English
بائبل ذہنی دباؤ کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ ایک مسیحی کس طرح ذہنی دباؤ پر غالب آ سکتا ہے؟