سوال
بائبل طلاق اور دوبارہ شادی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
جواب
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی شخص طلاق کے حوالے سے جو چاہے نظریہ رکھتا ہو، اُس سے کچھ فرق نہیں پڑا ، کیونکہ سب سے اہم بات ایمانداروں کے لیے ملاکی 2باب 16آیت کو ذہن میں رکھناضروری ہے۔ " خُداوند اسرائیل کا خُدا فرماتا ہے مَیں طلاق سے بیزار ہوں "۔ بائبل کے مطابق شادی زندگی بھر کا عہد ہے ۔ " پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں ۔ اِس لیے جسے خُدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جُدا نہ کرے"(متی 19باب 6آیت)۔خدا اگرچہ اس بات کو جانتا ہے کہ ، چونکہ شادیو ں دو گناہگار لوگوں کے درمیان ہوتی ہے اس لیےاُن کے درمیان طلاق کے ہونے کا بھی امکان موجود ہے۔ پرانے عہد نامہ میں خدا نےطلاق یافتہ لوگوں بالخصوص عورتوں کے حقوق کے تحفظ کےلیے کچھ قوانین مقرر کیے تھے (استثنا 24باب 1-4آیات)۔ یسوع مسیح واضح کرتا ہے کہ یہ قانون خُدا نے اپنی خوشی سے نہیں دئیے تھے بلکہ لوگوں کی سخت دلی کے باعث دئیے گئے تھے (متی 19باب 8آیت)۔
طلاق اور دوبارہ شادی کے حوالے سے پیدا ہونے والا تنازعہ کہ آیا طلاق اور دوبارہ شادی کی اجازت ہے یا نہیں بنیادی طور پر متی 5باب 32آیت اور 19باب 9 میں موجودہ یسوع کے الفاظ کے گرد گھومتا ہے۔ کلامِ مقدس میں " ازدواجی بے وفائی(حرامکاری)" وہ واحد عمل ہے جس کی بدولت طلاق اور دوبارہ شادی کےلیے خدا کی طرف سے ممکنہ اجازت دی گئی ہے۔ بہت سے مفسرین خیال کرتے ہیں کہ یہ بات منگنی کے دورانیہ میں کی جانے والی " ازدواجی بے وفائی "کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہودی رسم و رواج میں جب دو لوگوں کی منگنی ہو جاتی تھی تو اُنہیں ایک طرح سے میاں بیوی خیال کیا جاتا تھا۔ اِس نقطہ نظر کے مطابق تو " منگنی " کے دورانیہ میں کی جانے والی بدکاری ہی طلاق کےلیے واحد جائز وجہ ہوگی ۔
تاہم یونانی لفظ جس کا ترجمہ " ازدواجی بے وفائی " کیا گیا ہے اُس کا مطلب جنسی بدفعلی یا بد اخلاقی کی کوئی بھی شکل ہو سکتا ہے ۔اِس کا مطلب حرامکاری، عصمت فروشی، زناکاری وغیرہ ہو سکتا ہے ۔ یسوع ممکنہ طور پر کہہ رہا ہے کہ اگر جنسی بداخلاقی سرزد ہو تی ہے تو اِس صورت میں طلاق کی اجازت ہے ۔ جنسی تعلقات ازدواجی بندھن کا ایک لازمی حصہ ہیں : " وہ ایک تن ہوں گے " (پیدایش 2باب 24؛ متی 19باب 5 ؛ افسیوں 5باب 31آیت)۔ اِس لیے شادی سے باہر جنسی تعلقات استوار کرتے ہوئے اِس بندھن کو توڑنا طلاق کےلیے ایک جائز وجہ ہو سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اِس حوالہ کے مطابق یسوع کے ذہن میں دوبارہ شادی کا خیال موجود ہے ۔ یہ الفاظ " اور دوسری سے بیاہ" (متی 19باب 9آیت) نشان دہی کرتے ہیں کہ ایسی صورت میں طلاق اور دوبارہ شادی کی اجازت دی گئی ہے ، چاہے اِس کی کچھ بھی تشریح کیوں نہ کی جائے۔ اِس بات پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف بے گناہ فریق ہی کو پھر شادی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔ اگرچہ اِس متن میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ طلاق کے بعد دوبارہ شادی کرنے کی اجازت اُس شخص کےلیے خُدا کے رحم کی بدولت ہے جس کے خلاف گناہ کیا تھا نہ کہ اُس کےلیے جس نے جنسی بدکاری کی تھی ۔ ایسے واقعات ہو سکتے ہیں جن میں " گنہگار فریق " کو دوبارہ شادی کی اجازت دی جاتی ہے مگر اِس متن میں یہ بات نہیں سکھائی جاتی ۔
کچھ لوگ 1-کرنتھیوں 7باب 15آیت کو ایک اور ایسے حوالے کے طور پر سمجھتے ہیں جو دوبارہ شادی کی اجازت دیتا ہے۔ اور یہاں پر صورتحال یہ ہے کہ اگر ایک غیر ایماندار شریکِ حیات ایک ایماندار کو طلاق دیتا ہے تو ایماندار فریق کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت ہے۔ بہرحال سیاق و سباق دوبارہ شادی کا تذکرہ نہیں کرتا بلکہ صرف یہی کہتا ہے کہ اگر غیر ایماندار شریکِ حیات اُسے چھوڑنا چاہتا ہے تو ایمان دار شریکِ حیات اُس ازدواجی تعلق کو جاری رکھنے کا پابند نہیں ۔ کچھ دیگر لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ(شریکِ حیات یا بچّوں کے ساتھ ) بد سلوکی طلاق کےلیے ایک جائز وجہ ہے اگرچہ بائبل میں ایسا کچھ بھی بیان نہیں کیا گیا۔ بہت دفعہ ایسے حالات ہو سکتے ہیں لیکن خدا وند کے کلام کے حوالے سے خود سے ہی مختلف چیزیں فرض کر لینا کبھی بھی عقل مند ی کی بات نہیں ۔
بعض اوقات لوگ اِسی بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ کہاں پر دوبارہ شادی کرنے کی اجازت ہے اور کس کس طرح کی باتیں "ازدواجی بے وفائی" کے زمرے میں آتی ہیں۔ لیکن یہاں پر ہمیں اِس حقیقت کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ "ازدواجی بے وفائی " کی صورت میں طلاق کی اجازت دی جا رہی ہے اِس کو لازمی قرار نہیں دیا جا رہا۔ ایسا گناہ سرزد ہو جانے کے باوجود ایک جوڑا خداوند کے فضل سے ایک دوسرے کو معاف کرنے اور اپنے ازدواجی بندھن کو پھر سے تعمیر کرنے کے حوالے سے سیکھ سکتا ہے۔خُدا نے ہمیں ایسے گناہوں سے بھی بہت بڑے بڑے گناہ معاف کرکے قبول کیا ہے۔ یقیناً اگر ممکن ہو تو ہم اُس کے نمونے کی پیروی کرسکتے ہیں اور حرامکاری جیسے گناہ کو بھی معاف کر سکتے ہیں (افسیوں 4باب 32آیت)۔ تاہم بہت سے واقعات میں ایک شریکِ حیات توبہ نہیں کرتا اور جنسی بدکرداری میں بڑھتا جاتا ہے ۔ یہ وہ حالت ہے جس پر متی 19باب 9 آیت کو ممکنہ طور پر لاگو کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سے لوگ طلاق کے بعد جلدی سے دوبارہ شادی کرنے پر غور کرتے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے خدا اُن کو اکیلا رکھنا چاہتا ہو۔ بعض اوقات خدا لوگوں کو اکیلے رہنے کےلیے بلاتا ہے تاکہ اُن کی توجہ منتشر نہ ہو(1کرنتھیوں 7باب 32-35آیات)۔ کچھ حالات میں، طلاق کے بعد دوبارہ شادی کرنا ایک راستہ ہو سکتا ہے مگر اِس کا ہر گز مطلب نہیں کہ یہ آخری راستہ ہے ۔
یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ مسیحی ہونے کے دعویدار لوگوں میں طلاق کی شرح قریباً اُتنی ہی زیادہ ہے جتنی غیر ایماندار دنیا میں ۔ بائبل اِس بات کو پوری طرح واضح کرتی ہے کہ خُدا کو طلاق سے نفرت ہے (ملاکی 2باب 16آیت) اور یہ کہ صلح اور معافی ایک ایماندار کی زندگی کی نشانیاں ہونی چاہییں(لوقا11باب 4آیت؛ افسیوں 4باب 32آیت)۔ پھر بھی خدا اِس بات کو سمجھتا ہے کہ اُس کے بچوں کے درمیان بھی طلاق ہو گی۔اگرچہ طلاق اور دوبارہ شادی متی 19 باب 9 آیت کی تشریح میں مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی تو بھی ایک طلاق یافتہ اور یا دوبارہ شادی کرنے والے ایماندار کو قطعی طورپر یہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ خُدا اُسے کم پیار کرتا ہے۔ خُدا اکثر مسیحیوں کی گناہ آلود نافرمانی کو بھی اُن کی زندگیوں میں بڑے کام کرنے اور بھلائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
English
بائبل طلاق اور دوبارہ شادی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟