سوال
کیا ایکیومینزم / نظریہ عالمگیر اتحاد بائبل کے مطابق ہے؟ کیا ایک مسیحی کو اتحاد کی اس عالمگیر تحریک میں شامل ہونا چاہیے؟
جواب
والٹر۔ اے۔ اِیل ول(Walter A. Elwell) اپنی تصنیف The Concise Evangelical Dictionary of Theology (علمِ الہیات کی جامع بشارتی لغت)میں ایکیومینزم/Ecumenism کی تعریف "مسیحیوں کے مابین تعاون اور اتحاد پیدا کرنے کی ایک منظم کوشش" کے طور پر کرتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پرورلڈ کونسل آف چرچز جب اپنے مقصد کو اِن الفاظ میں بیان کرتی ہے تووہ ایکیومینزم کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے کہ "ورلڈ کونسل اور چرچزکلیسیاؤں کی رفاقت ہے جو صحائف کے مطابق خُداوند یسوع مسیح کو خدا اور نجات دہندہ کے طور پر تسلیم کرتی ہے اور اِس لیے خدا، باپ، بیٹے اور رُوح القدس کے جلال کے لیے اُن کی مشترکہ بُلاہٹ کو باہمی طور پر سرانجام دینے کی کوشش کرتی ہے ۔ یہ کلیسیاؤں کی ایک ایسی جماعت ہے جواُس واحد ایمان اور عشائے زبانی کی رفاقت میں نظر آنے والے اتحاد پر قائم ہےجس کا اظہار مسیح میں عبادت اور مشترکہ زندگی کے اندر ہوتا ہے۔ یہ اُس اتحاد کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتی ہے جس کے بارے یسوع نے اپنے شاگردوں کے لیے دعا کی"'دُنیا اِیمان لائے کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا'(یوحنا 17باب 21آیت)" (www.wcc-coe.org)۔ Evangelicals and Catholics Together: The Christian Mission in the Third Millennium/ایوینجلیکلز اور کیتھولکس ٹوگیدر: دی کرسچن مشن اِن دا تھرڈ ملینیم کے نام سے 1994 میں شائع ہونے والی ایک دستاویز جس کی بشارتی مسیحیت اور رومن کیتھولک ازم کے کچھ نمایاں نمائندوں نے توثیق کی تھی قومی سطح پر ایکومینز م کی ایک اور مثال ہے ۔
ایکیومینزم کو مزید وسیع مفہوم میں یوں بیان کیا جا سکتا ہےکہ : "ایک ایسی تحریک جو بڑے باہمی تعاون کے وسیلے تمام مذاہب کے مابین عالمگیر اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔" مثال کے طور پر ایک مسیحی پادری کسی مسلمان امام کو اپنے منبر پر خطبہ دینے کے لیے مدعو کر سکتا ہے یا کسی کلیسیا کے اراکین ہندو لوگوں کے ساتھ مل کر مندر میں مشترکہ عبادتی خدمت منعقد کر سکتے ہیں ۔ اگر اس اعتبار سے بیان کیا جائے تو ایکیومینزم یقینی طور پر غلط ہے۔ ہمیں "بے اِیمانوں کے ساتھ ناہموار جُوئے" میں نہیں جُتنا"(2کرنتھیوں 6باب 14آیت؛ اور گلتیوں 1باب 6-9آیات بھی دیکھیں)۔ نُور اور تاریکی کا آپس میں کوئی میل نہیں ہے۔
اس مضمون میں ہم ایکیومینزم کی تعریف کو صرف "مسیحی گروہوں کے مابین اتحاد کی تحریک " تک محدود رکھیں گے۔ اہم سوال یہ ہےکہ : کیا عالمگیر اتحادی مہم جوئیاں صحیح اور بائبل کے مطابق ہیں؟ کیا ہمیں دوسرے "مسیحیوں" کے ساتھ مقامی، قومی یا بین الاقوامی طور پر مشترکہ مہم جوئیوں میں شامل ہونا چاہیے؟ اس کے لیے حتمی جواب نہیں ہے۔ بلاشبہ حقیقی مسیحیوں کے درمیان اتحاد نہایت ضروری ہے ( 133 زبور 1آیت؛ یوحنا 17باب 22آیت)۔ لیکن اگر مسیحیت کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کچھ لوگ اصل میں ایمان کی بعض بنیادی باتوں سے انکار کر دیں تو پھر کیا؟ کسی ایماندار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر صورتحال پر انفرادی طور پر غور کرے۔ یہاں کچھ سوالات پیش کئے جاتے ہیں جو ہمیں ایکیومینزم کے بارے ایسے فیصلے لینے میں مدد کریں گےجو خدا کے نام کے جلال کا باعث ہیں:
سب سے پہلی بات ، جن لوگوں کے ساتھ ہم شامل ہونے جا رہے کیا وہ کلام کے مطابق حقیقی مسیحی ہیں ؟ کیونکہ بہت سی تنظیمیں اورلوگ یسوع مسیح کے نام کا اقرار کرتےاور حتیٰ کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ خداوند اور نجات دہندہ ہے لیکن بائبل یسوع کے بارے میں جو کچھ فرماتی ہے اُن باتوں کو وہ واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں مورمن عقیدے کے پیروکار اور یہوواہ کے گواہ ہیں جو خود کو یسوع مسیح کے پیروکار کہتے اور "مسیحی " ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن بائبل مسیح کی فطرت اور کام کے بارے میں جو کچھ بیان کرتی ہے اُس سے انکار کرتے ہیں۔ اِن کی ایک غیر واضح مثال آزاد خیال مسیحیت (Liberal Christianity)ہے۔آزاد خیال مسیحیت تقریباً ہر فرقے میں پائی جاتی ہے اور اگرچہ یہ مسیحیت معلوم ہوتی ہے لیکن عام طور پر یہ مسیحیت کی کئی اہم سچائیوں کو مسترد کرتی ہے۔ آزادی خیال مسیحیت کے قائل لوگ اکثر بائبل کے الہام اور اختیار (2تیمتھیس 3باب 16 آیت) مسیح میں نجات کی خصوصی نوعیت (یوحنا 14باب 6آیت؛1تیمتھیس 2 باب 5 آیت ) اور نجات کے لیے انسانی اعمال کی بجائے خدا کے فضل پر مکمل انحصار (رومیوں 3باب 24، 28آیت؛ گلتیوں 2باب 16آیت؛ افسیوں 2باب 8-9 آیات) سے انکار یا اُن کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان دنوں ایوینجیلیکلزاور رومن کیتھولک کے درمیان عالمگیر اتحاد پر بہت زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ جو لوگ اس طرح کے اتحاد کو فروغ دیتے ہیں اُن کا بیان ہے کہ دونوں گروہ مسیحی ہیں اور دونوں ہی خدا کی عزت و جلال پر مبنی ایمان کے نظام ہیں۔ لیکن دونوں گروہوں کے درمیان کافی فرق ہے۔ بائبلی مسیحیت اور رومن کیتھولک ازم دو مختلف مذاہب ہیں جو کسی شخص کی نجات، بائبل کے اختیار، ایمانداروں کی کہانت، انسانی فطرت، صلیب پر مسیح کے کام وغیرہ کے حوالے سے الگ الگ باتوں پر ایمان رکھتے اور عمل کرتے ہیں ۔ جو کچھ بائبل فرماتی ہے اور جو کچھ رومن کیتھولک کلیسیا کا کہنا ہے اُس کے درمیان ناقابل مصالحت فرق اِن دونوں گروہوں کے درمیان مشترکہ مشن کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ جو لوگ اس بات سے انکار کرتے ہیں وہ جو کچھ کہتے اور جو کچھ مانتے ہیں اُس میں سچے نہیں ہیں چاہے وہ کسی بھی طرف ہوں ۔ کوئی بھی کیتھولک ایماندار جو اپنے عقیدے کے بارے میں سنجیدہ ہے وہ اس بات کو مسترد کر دے گا جس پر ایک سنجیدہ ایونجیلیکل مسیحی ایمان رکھتا ہے، اور ایسی ہی صورتحال دوسری طرف بھی ہوگی۔
ایکیومینزم کا ایک نقطہ یہ ہے کہ علم ِ الہیات کے اعتبار سے مختلف عقائد کے پیروکار لوگ کچھ چیزوں اور مسائل کے حوالے سے یکساں احساسات رکھتے ہیں۔ بائبل پر حقیقی ایمان رکھنے والے مسیحی عام طور پراسقاطِ حمل کے خلاف مضبوط موقف، خاندان کے بارے میں روایتی نظریہ، بے گھر اور بیماروں کی دیکھ بھال کرنے کا عزم اور دنیا میں عدل و انصاف ہوتا دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ دیگر گروہ جو ممکنہ طور پر غیر بائبلی علم ِالہیات کے حامل ہیں ایسے نقطہ نظر کے قائل ہو سکتے ہیں۔ پس ایک مشترکہ مقصد کے حصول میں وسائل کو یکجا کرنے کی آزمائش بعض اوقات کافی بڑی ہوتی ہے ۔ یہ بات اگلے سوال کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
دوسری بات، اس عالمگیر مہم جوئی کا حتمی مقصد کیا ہے؟ صحائف اس بارے میں واضح رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ بائبل پر یقین رکھنے والے مسیحیوں کو کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔ کلسیوں 3باب 17آیت ہمارے مقصد کو اس طرح بیان کرتی ہے: "کلام یا کام جو کچھ کرتے ہو وہ سب خُداوند یِسُوع کے نام سے کرو اور اُسی کے وسیلہ سے خُدا باپ کا شکر بجا لاؤ۔" یسوع بے ایمان لوگوں کے ساتھ ہمارے تعامل کے حوالے سے متی 5باب 16آیت میں فرماتا ہے کہ "تمہاری روشنی آدمیوں کے سامنے چمکے تاکہ وہ تمہارے نیک کاموں کو دیکھ کر تمہارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجید کریں"۔ متی 28باب 18-20آیات اور 1کرنتھیوں 2باب 2آیت انجیل کی خوشخبری کو ہماری اوّلین ترجیح قرار دیتی ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ خُدا کے نام کو جلال اور عزت دینے کے لیے ہے ہمیں بے ایمانوں اور اختتام پذیردنیا کے سامنے نیک چال چلن کی حامل زندگی بسر کرنی ہے ،اور ہمیں انجیل کا زندگی تبدیل کرنے والا پیغام دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ مسیح کی موت اور جی اُٹھنے کی خوشخبری کو دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹا خُدا کے نام کے لیے جلال کا باعث ہے اور اس مقصد کو دنیا کے ساتھ ہمارے تعامل کے لیے تحریک ہونا چاہیے۔
عالمگیر اتحاد کی مہم جوئیوں کے بارے میں ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ آیا اِن مندرجہ بالا باتوں کو مدِ نظر رکھا جا رہا ہے یا نہیں۔ اکثرانجیل کی خوشخبری کو بانٹناثانوی درجے کا کام تصور خیال کیا جاتا ہے یا حتی ٰ کہ یہ ایک تصور ہی بنا رہتا ہے ۔ عالمگیر اتحاد کا نظریہ انجیل کی جگہ سیاسی اور سماجی پیغامات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ دِلوں کو بدلنے کی کوشش کرنے کے بجائے عالمگیر اتحا د کی جدوجہد اکثر سیاسی، سماجی یا مالی حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ ہمارے افعال کا حتمی مقصد بے ایمانوں کی نجات ہونا چاہیے (افسیوں 2باب 1-3آیات)۔ توبہ کرنے والے ایک گنہگار کے باعث آسمان پر ہزاروں فرشتے خوشی مناتے ہیں (لوقا 15باب 10آیت)۔ بائبل میں ایسا کوئی بیان نہیں جو یہ کہتا ہو کہ جب کوئی قانون منظور ہوتا ہے، جب کوئی کنواں کھودا جاتا ہے یا جب کوئی گلی پکی ہوتی ہے تو فرشتے خوش ہوتے ہیں۔ (ایسا نہیں کہ ان باتوں کو سرانجام دینے میں کوئی برائی ہےلیکن انہیں انجیل کی خوشخبری پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔) جب ہم عالمگیر اتحاد کی مہم جوئیوں پر غور کرتے ہیں ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ آیا خدا کی بادشاہت انجیلی بشارت کے وسیلے ترقی کر رہی ہے۔
پس خلا صہ یہ ہے کہ کیا ہمیں دیگر کلیسیاؤں اور ایمانداروں کے دوسرے گروہوں کے ساتھ عالمگیر اتحاد ی تعاون میں شامل ہونا چاہیے؟ اگر مسیحیت کے بنیادی عقائد پر کوئی نظریاتی سمجھوتہ نہیں ہوتا، اگر انجیل کو متاثر یا نظر انداز نہیں کیا جا رہا ہے، اگر مسیحی ایماندار دنیا کے سامنے واضح گواہی برقرار رکھ سکتے ہیں اور اگر اس عمل سے خدا کا نام جلال پاتا ہے تو ہم خدا کی بادشاہی کی خاطر دوسرے مقدسین کے ہمراہ آزادی اور خوشی سے اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔
English
کیا ایکیومینزم / نظریہ عالمگیر اتحاد بائبل کے مطابق ہے؟ کیا ایک مسیحی کو اتحاد کی اس عالمگیر تحریک میں شامل ہونا چاہیے؟