سوال
"اِس سے کیا مُراد ہے کہ خُدا ابدی ہے؟
جواب
ابدی لفظ کا مطلب ہے " لازوال، دائمی جس کی نہ کوئی ابتدا ہو نہ انتہا " ۔ 90زبور2آیت ہمیں خدا کی ابدیت کے بارے میں بتاتی ہے "اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دُنیا کو تُو نے بنایا۔ ازل سے ابد تک تُو ہی خُدا ہے"۔ چونکہ انسان ہر چیز کا تعین وقت کے لحاظ سے کرتے ہیں اس لیے کسی ایسی چیز کے تصور کو پوری طرح سمجھنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں ، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی ۔ تاہم بائبل خدا کے وجود یا اُس کی ابدیت کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ مگر بائبل کا آغاز اِس دعوے کیساتھ ہوتا ہے کہ " خدا نے ابتدا میں۔۔۔" (پیدایش 1باب 1آیت) ، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وقت کے آغاز سے پہلے بھی خدا موجود تھا۔ گذشتہ تمام لامحدود ادوار سے لے کر آئندہ تمام لامحدود عرصے تک اور ازل سے ابدل تک خدا ہمیشہ سے تھا ، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
موسیٰ کو جب خدا کی طرف سے پیغام کے ساتھ بنی اسرائیل کے پاس جانے کا حکم دیا گیا تو موسیٰ سوچنے لگا کہ اگر لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ خُدا کا کیا نام ہے تو وہ لوگوں کو کیا بتائے گا ۔ پس موسیٰ کے لیے خدا کا جواب انتہائی واضح تھا "خُدا نے مُوسیٰ سے کہا مَیں جو ہوں سو مَیں ہُوں ۔ سو تُو بنی اِسرائیل سے یُوں کہنا کہ مَیں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے"( خروج 3باب 14آیت)۔ یہ آیت خدا کی حقیقی ذات اور اُس کے واجب الوجود ہونے کی بات کرتی ہے اور اِس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خُدا ہر چیز کے وجود کی وجہ ہے۔ یہ اُس کی لازوالیت اور یکسانیت کے ساتھ ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں اُس کی ثابت قدمی اور وفاداری کو بھی بیان کرتی ہے کیونکہ اِس میں ماضی ، حال اور مستقبل کا تمام وقت شامل ہے ۔ خُدا کے اِس تعارف کا اصل مفہوم یہ ہے مَیں اب جیسا ہوں مَیں ایسا ہی تھا اور ایسا ہی رہوں گا جیسا اب مَیں ہوں۔ اپنی ابدیت کے بارے میں خدا کے اپنے الفاظ کلام مقدس کے صفحات سے ہمارے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں۔
یسوع مسیح نےجو کہ مجسم خدا ہے اپنے زمانے کے لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہوئے اپنی الوہیت اور ابدیت کی تصدیق کی ہے " پیشتر اُس سے کہ ابرہا م پیدا ہوا مَیں ہوں" ( یوحنا 8باب 58آیت)۔ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ یسوع مجسم خدا ہونے کا دعویٰ کررہا تھا کیونکہ یہ بیان سن کر یہودیوں نے اُسے سنگسار کرنے کی کوشش کی تھی ۔ یہودیوں کے نزدیک کسی شخص کا خود اپنے آپ کو ابدی خدا قرار دینا کفر تھا اور اِس کی سزا موت تھی (احبار 24باب 16آیت)۔ یسوع ابدی ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا جس طرح اُس کا باپ ابدی ہے ۔یوحنا رسول بھی مسیح کی فطرت کے بارے میں اسی سچائی کا اعلان کرتا ہے "اِبتدا میں کلام تھا اور کلام خُدا کے ساتھ تھا اور کلام خُدا تھا" (یوحنا 1باب 1آیت)۔ یسوع اور خدا باپ اپنے جوہر کے لحاظ سے ایک ہیں ،وہ ازل سے موجود ہیں اور ابدیت کی صفت میں برابر کے شریک ہیں ۔
رومیوں 1باب 20آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کی ازلی قدرت اور اُس کی دائمی فطرت اُس کے ہاتھوں کی تخلیق کے ذریعے سے ہم پر ظاہر ہوتی ہے ۔ تمام لوگ تخلیق کی ترتیب کے مختلف پہلوؤں کے مشاہدے کے وسیلہ سے خدا کی قدرت کے اس پہلو کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں ۔سورج اور اجرام فلکی صدیوں سے اپنے مداروں میں قائم ہیں ۔ موسم اپنے مقررہ وقت پر آتے اور جاتے ہیں؛ درختوں کے موسمِ بہار میں پتے نکلتے ہیں اور موسم خزاں میں جھڑ جاتے ہیں ۔ سال بہ سال یہ عوامل جاری رہتے ہیں اور کوئی انسان اِن کو روک نہیں سکتا اور نہ ہی خدا کے منصوبوں کو تبدیل کر سکتا ہے ۔ یہ سب باتیں خدا کی ابدی قدرت اور زمین کےلیے اُس کے منصوبے کی تصدیق کرتی ہیں ۔ ایک دن خدا نیا آسمان اور نئی زمین بنائے گا اور اس کے بعد وہ بھی خدا کی مانند ابد تک قائم رہیں گے ۔اسی طرح ہم جو ایمان کے وسیلہ سے مسیح میں پیوست ہیں اُس خدا کی ابدیت میں شامل ہوتے ہوئے ہمیشہ قائم رہیں گے جس کی شبیہ پر ہم تخلیق کئے گئے ہیں۔
English
"اِس سے کیا مُراد ہے کہ خُدا ابدی ہے؟