سوال
کیا یہ سچ ہے کہ ہر چیز کے رونما ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ؟
جواب
کیا ہر کام ، ہر چیز کے رونما ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے؟ اس کا مختصر جواب ہے "ہاں"؛ کیونکہ خدا ہر چیز پر خود مختار ہے اور کوئی بھی کام اتفاق سے یعنی نا گہانی طور پر رونما نہیں ہوتا۔ خدا کے مقاصد ہم سے پوشیدہ ہو سکتے ہیں لیکن ہم اس لحا ظ سے پُر یقین ہو سکتے ہیں کہ ہر واقعے کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔
یوحنا 9باب میں مذکور شخص کے اندھے ہونے کے پیچھے ایک وجہ تھی حالانکہ شاگردوں نے اس وجہ کی غلط شناخت کی تھی (یوحنا 9باب 1-3آیات)۔ یوسف کے ساتھ بدسلوکی کے پیچھے ایک وجہ تھی حالانکہ اُس کے بھائیوں نے جس مقصد کے تحت یہ سب کیا تھا وہ اُس مقصد سے پوری طرح مختلف تھا جس کے لیے خدا نے یہ سب ہونے دیا تھا (پیدایش 50باب 20آیت)۔ خُداوند یسوع کی موت کے پیچھے ایک وجہ تھی - یروشلیم کے حکام کے بُرے ارادے پر مبنی اُن کی اپنی وجوہات تھیں جبکہ دوسری جانب راستبازی پر مبنی خدا کے اپنے مقصد تھے ۔ یہاں تک کہ خُدا کی حاکمیت سب سے معمولی مخلوقات کا بھی احاطہ کرتی ہے : "ایک(چڑیا) بھی تمہارے باپ کی مرضی کے بغیر زمین پر نہیں گر سکتی"(متی 10باب 29آیت )۔
ایسے کئی عوامل ہیں جو ہماری یہ جاننے میں مدد کرتے ہیں کہ ہر کام کسی وجہ سے رونما ہوتا ہے: قانونِ سبب اور اثر( علت ومعلول)، بنیادی گناہ کا عقیدہ اور خدا کی دستگیری ۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ سب کچھ کسی وجہ سے رونما ہوتا ہے نہ کہ محض اتفاق یا نا گہان احتمال سے۔
پہلے نمبر پر قانونِ سبب اور اثر( علت ومعلول)ہےجو بونے اور کاٹنے کے قانون کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ پولس کہتا ہے کہ " فریب نہ کھاؤ۔ خُدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جو کُچھ بوتا ہے وُہی کاٹے گا۔ جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹے گا اور جو رُوح کے لئے بوتا ہے وہ رُوح سے ہمیشہ کی زِندگی کی فصل کاٹے گا"( گلتیوں 6باب 7-8آیات)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم جس بھی بات کو عمل میں لاتے یا بولتے ہیں خواہ اچھی ہو یا بُری اُس کے بعد کچھ ناگزیر نتائج ظاہر ہوتے ہیں (کلسیوں 3باب 23-25آیات)۔ کوئی انسان یہ سوال کر سکتا ہے کہ "میَں جیل میں کیوں ہوں؟ کیا اس کی کوئی وجہ ہے؟" اور جواب ہو سکتا ہے"کیونکہ تم نے اپنے پڑوسی کے گھر چوری کی اور پکڑے گئے۔" یہی قانونِ سبب اور اثر( علت ومعلول)ہے۔
ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ یا تو جسم کے لیے سرمایہ کاری ہے یا رُوح کے لیے سرمایہ کاری ۔ ہم نے جو کچھ بویا ہے وہی کاٹیں گے اور جیسا بویا ہے اُسی تناسب سے کاٹیں گے۔"لیکن بات یہ ہے کہ جو تھوڑا بوتا ہے وہ تھوڑا کاٹے گا اور جو بُہت بوتا ہے وہ بُہت کاٹے گا " ( 2کرنتھیوں 9باب 6آیت)۔ وہ ایماندار جو رُوح میں چلتا اور رُوح کے لیے "بوتا ہے" ایک رُوحانی فصل کاٹنے والاہے۔ اگر اُس نے فراخدلی سے بویا ہے تو فصل بہت زیادہ ہوگی، اگر اُس زندگی میں نہ ہوئی تو آنے والی زندگی میں یقیناً ہوگی ۔ اِس کے برعکس جو لوگ جسم کے لیے "بوتے ہیں" وہ اِس زندگی اور آئندہ زندگی دونوں میں ایک ایسی زندگی بسر کریں گے جو خدا کی تمام برکتوں سے خالی ہوگی (یرمیاہ 18باب 10آیت؛ 2پطرس 2باب 10-12آیات)۔
کچھ باتوں کے رونما ہونے کی وجہ اکثر باغِ عدن میں واقع ہونے والے بنیادی گناہ پر مبنی ہو سکتی ہے۔ بائبل اس بارے میں واضح ہے کہ دنیا ایک لعنت کےما تحت ہے (پیدایش 3باب 17آیت) جس کے نتیجے میں کمزوریاں، بیماریاں، قدرتی آفات اور موت واقع ہوئی ہے۔ گوکہ یہ تمام چیزیں پوری طرح خُدا کے حتمی اختیار میں ہیں مگر بعض اوقات شیطان کی طرف سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں (دیکھیں ایوب 1-2ابواب ؛ لوقا 9باب 37-42آیات؛ 13باب 16آیت )۔ کوئی انسان پوچھ سکتا ہے کہ "میَں اس بیماری میں کیوں مبتلا ہوا؟ کیا اس کی کوئی وجہ ہے؟" اور جواب درج ذیل میں سےکوئی ایک یا زیادہ ہو سکتے ہیں:( 1) "اس لیے کہ آپ ایک زوال پذیر دنیا میں رہتے ہیں اور ہم سب بیماری کا شکار ہیں"؛ (2) "کیونکہ خدا آپ کو آزما رہا ہے اور آپ کے ایمان کو مضبوط کر رہا ہے"؛ یا( 3) "کیونکہ خدا عبرانیوں 12باب 7-13آیات اور 1کرنتھیوں 11باب 29-30آیات کے مطابق اپنی محبت میں آپ کی تربیت کر رہا ہے۔"
اس کے بعد ہمارے پاس وہ چیز ہے جسے خدا کی دستگیری کہا جاتا ہے۔ دستگیری کا عقیدہ اس بات کا قائل ہے کہ خدا قدرتی دنیا میں واقعات کو ترتیب دینے کے لیے خاموشی اور پوشیدگی سے کام کرتا ہے۔ اپنی دستگیری میں خدا ظاہر ی اور سماجی عالم میں قدرتی عمل کے وسیلہ سے اپنے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ ہر اثر کے پیچھے ایک فطری وجہ کی تلاش کی جا سکتی ہے اور کسی معجز ے کا کوئی اشارہ نہیں ہے ۔ قدرتی واقعات کے دوران چیزیں کیوں رونما ہوتی ہیں اس وجہ کی وضاحت کے لیے انسان سب سے بڑھ کر اِسے "اتفاق" قرار دے سکتا ہے ۔
ایماندار دعویٰ کرتے ہیں کہ اتفاقی واقعات کو خدا ترتیب دیتا ہے۔ غیر ایماندار ایسے خیالات کا مذاق اڑاتا ہے کیونکہ اُس کا خیال ہے کہ فطری اسباب ہر واقعے کو خُدا کا حوالہ دیئے بغیر پوری طرح بیان کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجودمسیح کے پیروکاروں کو اس گہری سچائی کا مکمل یقین ہے: " ہم کو معلُوم ہے کہ سب چیزیں مِل کر خُدا سے مُحبّت رکھنے والوں کے لئے بھلائی پیدا کرتی ہیں یعنی اُن کے لئے جو خُدا کے اِرادہ کے مُوافِق بُلائے گئے"( رومیوں 8باب 28آیت)۔
آستر کی کتاب الہی دستگیری کے سر گرم عمل ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ وشتی ملکہ کا بادشاہ کے حضور سے خارج ہونا، آستر کا چناؤ، یہودی قتل ِ عام کی سازش، ہامان کا تکبر، مردؔکی کی ہمت، بادشاہ کی بے خوابی، زریش کی خونخواری ، اور تواریخ کی کتابوں کا پڑھا جانا- کتاب میں درج ہر بات خدا کے لوگوں کی آزادی کے لیے ایسی روانی سے واقع ہوتی ہے جیسے کسی عمدہ مشین کے پُرزے کام کرتے ہیں ۔ اگرچہ آستر کی کتاب میں خدا کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا لیکن اُس کی دستگیر ی "اتفاقی واقعات " کے ذریعے کام کرتی صاف نظر آتی ہے۔
خُدا اپنے لوگوں کی زندگیوں میں ہمیشہ سے کام کرتا آ رہا ہے اور اُس کی بھلائی اُن کو نیک انجام تک پہنچائے گی (دیکھیں فلپیوں 1باب 6آیت)۔ ہماری زندگیوں کی وضاحت کرنے والے واقعات محض قدرتی اسباب یا نا گہاں امکان کی پیداوار نہیں ہیں۔ وہ خدا کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اور ہماری بھلائی کے لیے ہیں۔ اکثر جب ہماری زندگی میں واقعات رونما ہوتے ہیں تو ہم خدا کی پوشیدہ رہنمائی یا تحفظ کو محسوس کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ لیکن جب ہم ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اُس کے قوی ہاتھ کو اُس وقت بھی دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں جب کہ ہم شدید پریشان کُن حالات میں ہوتے ہیں ۔
English
کیا یہ سچ ہے کہ ہر چیز کے رونما ہونے کی کوئی وجہ ہوتی ہے ؟