سوال
کیا اِس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ خُدا دُعاکا جواب دیتا ہے؟
جواب
ایسی بہت سی کہانیاں بیان کی جا سکتی ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ دُعاؤں کے جواب میں بہت ساری بیماریاں ٹھیک ہو گئیں، لوگ امتحان میں پاس ہو گئے، کئی لوگوں کو توبہ کرنے پر معافی دے دی گئی، لوگوں کے تعلقات بحال ہو گئے، بھوکے بچّوں کے لیے کھانے کا انتظام ہو گیا، لوگوں کے بل ادا ہو گئے اور بہت سارے لوگوں کی زندگیاں اور رُوحیں بچ گئیں۔ تو جی ہاں، ایسے بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ خُدا دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ بہر حال ایسے زیادہ تر ثبوت قصّوں کہانیوں کی صورت میں اور شخصی نوعیت کے ہیں اور یہ بات اُن بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب بنتی ہے جو ثبوت کوصرف ایک ایسی بات یا چیز کے طور پر سمجھتے ہیں جو قابلِ مشاہدہ، قابلِ پیمائش ہو اور جسے بار بار دہرایا اور پیش کیا جا سکتا ہو ۔
کلامِ مُقدس واضح طور پر تعلیم دیتا ہے کہ دُعاؤں کا جواب دیا جا تاہے۔ یعقوب 5باب16آیت بیان کرتی ہے کہ "راست باز کی دُعا کے اثر سے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔"یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ تعلیم دی کہ "اگر تم مجھ میں قائِم رہو اور میری باتیں تم میں قائِم رہیں تو جو چاہو مانگو۔ وہ تمہارے لئے ہو جائے گا" (یوحنا 15با ب 7آیت)۔ 1 یوحنا 3باب22آیت جب بیان کرتی ہے کہ " جو کچھ ہم مانگتے ہیں وہ ہمیں اُس کی طرف سےملتا ہے کیونکہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں اور جو کچھ وہ پسند کرتا ہے اُسے بجا لاتے ہیں" تو ہمیں اُسی سچائی کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
مزید برآں کلامِ مُقدس ایسی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے جن میں ہم دُعاؤں کا جواب ملتا ہوا دیکھتے ہیں۔ آسمان سے آگ نازل کرنے کے لیے ایلیاہ کی دُعا (2 سلاطین 1باب12آیت)، حزقیاہ کی اپنے دشمنوں کی طرف سے ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے دُعا (2 سلاطین 19باب19آیت) اور پولس رسول کی دلیری کے لیے دُعا (اعمال 4باب29آیت) اِسی طرح کی دُعاؤں کی تین اہم مثالیں ہیں۔ اب جبکہ یہ بیانات چشمِ دید گواہوں کی طرف سے قلمبند کئے گئے تھے اِس لیے یہ ایسی دُعاؤں کا واضح ثبوت ہیں کہ خُدا دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ یقیناًیہاں کوئی نہ کوئی شخص کلامِ مُقدس پر یہ اعتراض بھی اُٹھا سکتا ہے کہ کلام ایسے ثبوت مہیا نہیں کرتا جو سائنسی لحاظ سے قابلِ مشاہدہ ہوں۔
بہرحال کلامِ مُقدس کے کسی بھی بیان کو کبھی حتمی طور پر غلط ثابت نہیں کیا جا سکا لہذا اِس کی طرف سے پیش کی جانے والی کسی شہادت پر شک کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ در حقیقت کچھ طرح کے ثبوتوں کو "سائنسی" جبکہ دیگر طرح کے ثبوتوں کو "غیر سائنسی"قرار دینا بڑے پیمانے پر غیر واضح اور مصنوعی فرق ہے۔ یہ وہ فرق ہے جسے کسی بھی طرح کے مواد کا تجزیہ کئے بغیر یا تجزیہ کرنے سے پہلے پیش کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دُعا کی افادیت کا صرف مشاہداتی شواہد کی روشنی میں اندازہ لگانے کا فیصلہ اصل میں ایک ایسا فیصلہ ہے جو اصل مواد کی بجائےاُن فلسفیانہ عزائم سے تحریک پاتا ہے جو پہلے سے قائم کردہ ہیں ۔ جب اس بے قاعدہ پابندی کو دُور کیا جاتا ہے تو بائبلی مواد اپنے ہر بیان کی وضاحت پیش کرتا ہے۔
لیکن محققین کا کوئی گروہ جب کبھی دُعا کی افادیت پر سائنسی تحقیق کر ے تو اُن کے نتائج عام طور پر یہی ہوتے ہیں کہ دُعا کا کوئی اثر (یا ممکنہ طور پر منفی اثر بھی ) نہیں ہوتا، مثال کے طور پر طبّی علاج کے دوران لوگوں کے صحت یاب ہونے کا اوسط وقت ایک جیسا ہی رہتا ہے ۔ ہم اِن جیسی تحقیقات کے نتائج کو کیسے سمجھتے ہیں ؟ کیا جن دعاؤں کا جواب نہیں آتا اُن کےلیے کوئی بائبلی وجوہات موجود ہیں ؟
66زبور 18 آیت بیان کرتی ہے کہ "اگر مَیں بدی کو اپنے دِل میں رکھتا تُو خُداوند میری نہ سُنتا"۔اسی طرح 1یوحنا 5باب 15آیت کی روشنی میں ضروری ہے کہ "جو کچھ ہم مانگتے ہیں" اُسے حاصل کرنے کے لیے ہم خُدا کی فرمانبرداری کریں۔ یعقوب اس بات کو بیان کرتاہے کہ "تم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لئے کہ بُری نِیّت سے مانگتے ہو تاکہ اپنی عیش و عشرت میں خرچ کرو۔"پس اِس سب کی روشنی میں دُعا کے جواب نہ ملنے کی دو وجوہات غیر اعتراف شدہ گناہ اور بُری نیت ہیں ۔
ایمان کی کمی دعا کے جواب نہ آنے کی ایک اور وجہ ہے :"مگر اِیمان سے مانگے اور کُچھ شک نہ کرے کیونکہ شک کرنے والا سمُندر کی لہر کی مانند ہوتا ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔ اَیسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مُجھے خُداوند سے کچھ مِلے گا" ( یعقوب 1باب 6-7آیات)۔عبرانیوں 11باب 6آیت بھی خدا کے ساتھ تعلق کےلیے ایمان کے موجود ہونے کی ایک لازمی شرط کی نشاندہی کرتی ہےجو مسیح کے نام سے دُعا کے وسیلہ سے ہمیشہ ثالثی حیثیت کا حامل ہے :"اور بغیر اِیمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اِس لئے کہ خُدا کے پاس آنے والے کو اِیمان لانا چاہئے کہ وہ مَوجُود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے"۔ پس ایمان دعا کے جواب کےلیے ضروری ہے ۔
آخر میں مسیحیت کے کچھ ناقدین دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ یسوع اپنے شاگردوں کو سکھاتا ہے کہ " جو چاہو مانگو" لہذا تمام دُعاؤں کا جواب آنا چاہیے ۔ تا ہم اس قسم کی تنقید اس آیت کے پہلے حصے میں بیان کردہ وعدے کی شرائط کو مکمل طور پر نظرانداز کرتی ہے : "اگر تم مجھ میں قائم رہو اور میری باتیں تم میں۔" بلاشبہ یہ خدا کی مرضی کے مطابق دعا کرنےکی ہدایت ہے ؛ دوسر ے الفاظ میں وہ اصل دُعا جس کا خدا ہمیشہ جواب دیتا ہے در حقیقت اِس طرح کی دُعا ہوتی ہے جو واضح یا غیر واضح طو ر پر اس بات کی التجا ہے کہ خدا کی مرضی پوری ہو۔کیونکہ در خواست گزار کی مرضی ثانوی درجہ رکھتی ہے ۔ یسوع نے خود گتسمنی میں اسی طرح دُعا کی تھی ( لوقا 22باب 42آیت)۔ ایمان سے کی گئی عاجزانہ دُعا اس اہم حقیقت کا اظہار ہے کہ دُعا کا جواب "نہیں " کے ساتھ بھی دیا جا سکتا ہے ؛کوئی بھی شخص جو اس طرح کی دُعا نہیں کرتا یعنی کوئی بھی شخص جو دُعا کے جواب کا تقاضا کرتا ہے – اُس کے پاس جواب کی توقع کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
بہت سی تحقیقات کیوں دُعا کی غیر افادیت کا ذکرکرتی ہیں اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ دعا کرنے والوں کی رُوحانی حالت ( کیا درخواست گزار ایماندار بھی ہے ؟)، وہ جس مقاصد کے لیے دُعا کرتے ہیں (کیا یہ شواہد کی فراہمی کے لیے ہے یا اِس سبب سے ہے کہ رُو ح القدس نے اُنہیں دُعا کرنے کی تحریک بخشی ہے ؟) ، وہ جس انداز سے اپنی دعائیں پیش کرتے ہیں ( کیا وہ روایتی انداز میں دعا کر رہے ہیں یا دانستہ طور پر خدا کے حضور درخواستیں لائے ہیں ؟ ) اور اسی طرح کی دیگر باتوں سے منسلک متغیرات کو ختم کرنا نا ممکن ہے ۔
یہاں تک کہ اگر ا س طرح کے تمام پوشیدہ متغیرات کو ختم بھی کیا جا سکے ایک اہم ترین مسئلہ ختم نہیں ہو گا : کیونکہ اگر دُعا کو تجرباتی طور پر پرکھا اور فیصلہ کُن نتائج پیدا کرنے پر مجبور کیا جا سکے تو یہ ایمان کی ضرورت کو ختم کر دیا گا ۔ ہم خدا کو تجرباتی مشاہدات کے ذریعے نہیں " جان" سکتے اس لیے کہ ہم ایمان سے اُس کے پاس آتے ہیں ۔ خدا تنا اناڑی نہیں ہے کہ وہ خود کو اس طور سے ظاہر کرے جس کا وہ ارادہ نہیں رکھتا ۔ " اِس لئے کہ خُدا کے پاس آنے والے کو اِیمان لانا چاہئے کہ وہ موجُود ہے " ۔ ایمان اولین شرط اور پہلی ترجیح ہے ۔
کیا خدا دعا کا جواب دیتا ہے؟ یہ سوال کسی بھی ایماندار سے پوچھیں تو آپ کو اُسکی طرف سے اِس سوال کا جواب ملے گا ۔ ہر ایماندار کی تبدیل شدہ زندگی اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ خدا دُعا کا جواب دیتا ہے۔
English
کیا اِس بات کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ خُدا دُعاکا جواب دیتا ہے؟