settings icon
share icon
سوال

جب ایمان رکھنےکا تقاضا کیا جاتا ہے تو پھر نجات اعمال کے وسیلے کیسے نہیں ہے؟کیا ایمان رکھنا بھی ایک کام نہیں ہے ؟

جواب


ہماری نجات کا سارا دارومدار یسوع مسیح کی ذات پر ہے۔ گناہ کی سزا کو اپنے اوپر لیتے ہوئے وہ ہمارا نعم البدل بنا (2 کرنتھیوں 5باب21آیت)؛ وہ گناہ سے نجات دلانے والا ہمارا نجات دہندہ ہے (یوحنا 1باب29آیت)؛ وہ ایمان کا بانی اور اُسے کامل کرنے والا ہے (عبرانیوں 12باب2آیت)۔ نجات مہیا کرنے کے لیے جو ضروری کام تھا اُسے خود یسوع نے مکمل طو ر پر پورا کیا تھا، جس نے اِس زمین پر ایک کامل، گناہ سے بالکل پاک زندگی گزاری، گناہ کے لیے خُدا کی عدالت کو اپنے اوپر لیتے ہوئے جان دی اور پھر مُردوں میں سے جی اُٹھا (عبرانیوں 10باب12آیت)۔

بائبل اِس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ نجات کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے اپنے اعمال کافی نہیں ہیں۔ " راست بازی کے کاموں کے سبب سے نہیں " (ططس 3باب5آیت)۔ "اعمال کے وسیلے نہیں" (افسیوں 2باب9آیت)۔ "کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں " (رومیوں 3باب 10 آیت)۔ اِس کا مطلب ہے کہ قربانیاں گزراننا، احکام کو ماننا، چرچ جانا، بپتسمہ لینا اور دیگر سارے نیک کام کسی بھی انسان کو نجات دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنے "اچھے/نیک" ہیں ہم کبھی بھی خُدا کی پاکیزگی کے معیار تک نہیں پہنچ سکتے (رومیوں 3باب23آیت؛ متی 19باب17آیت؛ یسعیاہ 64 باب6 آیت)۔

اِس کے ساتھ ساتھ بائبل اِس حوالے سے بھی بالکل واضح ہے کہ نجات مشروط ہے؛ خُدا ہر ایک کو نجات نہیں دیتا۔ نجات کے لیے ایک واضح شرط یسوع مسیح پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان لانا ہے۔ نئے عہد نامے کے اندر ایک سو مرتبہ سے بھی زیادہ دفعہ اعلان کیا گیا ہے کہ ایمان لانا نجات کے لیے شرط ہے (جیسے کہ یوحنا 1باب12آیت؛ اعمال 16باب31آیت)۔

ایک دن کچھ لوگوں نے خُداوند یسوع سے پوچھا کہ وہ خُدا کو خوش کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں: " ہم کیا کریں تاکہ خُدا کے کام انجام دیں؟ " یسوع نے فوری طور پر اُن کی رہنمائی ایمان کی طرف کی۔ " خُدا کا کام یہ ہے کہ جسے اُس نے بھیجا ہے اُس پر اِیمان لاؤ۔ " (یوحنا 6باب28-29آیات)۔ پس سوال یہ کیا گیا تھا کہ خُدا کی طرف سے کونسے تقاضے (جمع کے صیغے میں ) ہیں اور یسوع نے جواب دیا کہ خُدا کی طرف سے تقاضا (واحد صیغے میں )یہ ہے کہ تم ایمان لاؤ۔

فضل سے مُراد یہ ہے کہ خُدا ہمیں وہ کچھ دیتا ہے جس کے ہم بالکل بھی مستحق نہیں اور جسے ہم اپنی کسی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتے۔ رومیوں 11 باب6آیت کے مطابق کسی بھی طرح کے "اعمال" فضل کو ضائع کر دیتے ہیں –یہاں پر تصور یہ ہے کہ کام کرنے والا اپنے کام کی مزدوری یا اجر پاتا ہے، جبکہ فضل پانے والا اُسے اپنی کسی کوشش سے کماتا نہیں بلکہ صرف قبول کرتا ہے۔اب جبکہ نجات کا تعلق مکمل طور پر فضل کے ساتھ ہے، اِس لیے نجات کو کسی طور پر کمایا نہیں جا سکتا۔ ایمان اِس لیے کوئی کام نہیں ہے۔ ایمان کو کسی بھی طور پر ایک کام /عمل قرار نہیں دیا جا سکتا ورنہ یہ فضل کو ضائع کر دے گا (دیکھئے رومیوں 4 باب ، ابرہام کی نجات کا مکمل دارومدار خُدا پر ایمان لانے پر تھا نہ کہ اُس کی طرف سے کئے گئے کسی بھی طرح کے کام پر)۔

فرض کریں کہ کسی گم نام شخص نے آپ کے نام 1000,000(ایک ملین) ڈالر کا چیک بھیجا ہو۔ ابھی اگر آپ چاہیں تو وہ پیسہ آپ کا ہے، لیکن پھر بھی آپ کو اُس چیک کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ چیک کو قبول کرنے کے لیے دستخط کرنے سے آپ ایک ملین ڈالر کمانے والےنہیں بن جاتے ۔ ابھی اُس پیسے کو قبول کرنا آپ کی طرف سے کیا گیا کوئی کام نہیں ہے۔ آپ کبھی بھی کہیں پر بھی اِس حوالے سے ڈھینگیں نہیں مار سکتے کہ آپ اپنے کاروبار میں خاص محنت کرنے کے وسیلے سے لاکھ پتی بن گئے ہیں۔ نہیں وہ ملین ڈالر تو محض ایک تحفہ تھا اور آپ نے دستخط کر کے اُسے قبول کیا ہے۔ بالکل اِسی طرح ایمان لانا وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے سے آپ خُدا کی طرف سے عطا کردہ اُس تحفے کو قبول کرتے ہیں اور آپ کا وہ ایمان کوئی ایسا کام نہیں ہے جو اُس نجات کے تحفے کی قیمت ہو۔

سچے ایمان کو کسی بھی صورت میں ایک کام تصور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سچا ایمان کسی بھی انسان کے لیے اپنے بدن میں کام کرنے کا خاتمہ کرتا ہے۔ سچے ایمان کا مرکز یسوع کی ذات اور ہماری جگہ پر اُس کی طرف سے مکمل کیا گیا کام ہے (متی 11باب28-29آیات؛ عبرانیوں 4باب10آیت)۔

اِس بات کو ایک قدم مزید آگے لیکر جائیں تو ہم سیکھتے ہیں کہ سچے ایمان کو کسی بھی طور پر ہمارا کوئی کام نہیں تصور کیا جا سکتا، کیونکہ سچا ایمان بذاتِ خود خُدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے اور ہم اپنے طور پر اپنے اندر ایمان پیدا نہیں کر سکتے ۔" کیونکہ تم کو اِیمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات مِلی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں ۔ خُدا کی بخشش ہے " (افسیوں 2باب8آیت) ۔" کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے " (یوحنا 6باب44آیت)۔ ہم خُدا کی قدرت کے لیے اُس کا شکر کرتے ہیں جو بچاتی ہے اور اُس کے فضل کے لیے اُسکا شکر کرتے ہیں جو نجات کو ہمارے لیے حقیقت کا روپ دیتا ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

جب ایمان رکھنےکا تقاضا کیا جاتا ہے تو پھر نجات اعمال کے وسیلے کیسے نہیں ہے؟کیا ایمان رکھنا بھی ایک کام نہیں ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries