سوال
عقیدہِ تقدیر پرستی کیا ہے؟عقیدہِ جبریت کیا ہے؟
جواب
اِس تصور کے مطابق ہر ایک واقعے کا کوئی ایک سبب ہوتا ہے، اور یہ بھی کہ کائنات کی ہر ایک چیز کے وجود کا انحصار اصولِ سببیت پر ہے۔ عقیدہِ جبریت در اصل نظریہ تقدیر پرستی کیساتھ ہی جڑا ہوا ہے، کیونکہ نظریہ جبریت کا ما ننا ہے کہ انسان کے اعمال سمیت تمام واقعات کسی اور چیز کے سبب سے ہیں ۔ نظریہ جبریت کو عام طور پر آزاد مرضی کےمتضاد سمجھا جاتا ہے ۔
تقدیر پرستی : اصل میں یہ عقیدہ ہے کہ " جو کچھ ہونا ہے وہ ہوکے ہی رہے گا" کیونکہ ماضی ، حال اور مستقبل کے واقعات پہلے ہی خدا یا کسی اور بااختیار طاقت جیسے کہ " تقدیر " کی طرف سے طے ہو چکے ہیں ۔ مذہبی لحاظ سے نظریہ تقدیر پرستی اور کلیسیا کے اندر پائی جانے والی بائبلی عقیدے Predestination کی تعلیم کی وجہ سے اکثر لوگ تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اُردو زبان میں دونوں کے معنی ہی تقدیر یا مقدر کئے جاتے ہیں۔ Predestination کے معنی دراصل یہ ہیں کہ ایک خاص عقیدے کے تحت خُدا لوگوں کو بنایِ عالم سے پہلے ہی چن لیتا ہے کہ آیا وہ فردوس میں جائیں گے یا پھر جہنم میں۔ اِس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ بائبل بنایِ عالم سے پہلے چُنے جانے کی تعلیم دیتی ہے مگر وہ آزاد مرضی کو خارج نہیں کرتی ؛ لہذا بائبل دُنیاوی عقیدہِ تقدیر پرستی کے بارے میں نہیں سکھاتی ۔
آزادی مرضی: کچھ منتخب کرنے یا بذات خود فیصلہ لینے کی آزادی جو انسان کو میسر ہے ؛ آزاد مرضی کے نظریے پر یقین رکھنے والے یہ مانتے ہیں کہ ایک ہی طرح کی صورتحال میں انسان اکثر اپنی مرضی کے مطابق اپنے پہلے کام یا عمل سے مختلف طرح سے عمل کرتا ہے۔ فلسفی دعویٰ کرتے ہیں کہ آزاد مرضی کا عقیدہ نظریہ جبریت اور نظریہ تقدیر پرستی سے عدم مطابقت رکھتا ہے ۔
غیر متعینیت /لاقدریت: یہ نظریہ کہتا ہے کہ ایسے کئی ایک واقعات ہوتے ہیں جن کے پیچھے کوئی بھی سبب نہیں ہوتا۔ آزاد مرضی کے نظریے کے بہت سارے ماننے والے کہتے ہیں کہ لوگوں کی طرف سے مختلف چیزوں کے چناؤ یا انتخاب کے عوامل کسی بھی طرح کے جسمانی یا نفسیاتی اسباب سے آزاد ہوتے ہیں۔
تقدیر پرستی کا الہیاتی نظریہ یا جبریت کا الہیاتی نظریہ قادرِ مطلق خدا اور آزاد مرضی کے مابین منطقی تضاد کو پیش کرنے کی ایک کوشش ہے جہاں آزاد مرضی کو مختلف متبادل میں سے انتخاب کرنے کی صلاحیت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے ۔ مقصد کے اعتبار سے یہ نظریہ اس معمہ کی طرح ہی ہے کہ " کیا قادرِ مطلق خدا ایک ایسی بھاری چٹان بنا سکتا ہے جس کو اُٹھانا اُس کے اپنے لیے ہی مشکل ہو؟"
تقدیر پرستی کے الہیاتی نظریے کے متعلق بیانات درج ذیل ہیں : خدا قادرِ مطلق ہے ۔ چونکہ خدا قادرِ مطلق ہے لہذا اُس کا علم ِ سابق لا خطا ہے ۔ اگر خدا کو پہلے ہی معلوم ہے کہ کل آپ ایک مخصوص کام ( باغیچےکی گھاس کی کٹائی ) میں مشغول ہوں گے تو یقینا ً آپ لازماً اس کام ( باغیچےکی گھاس کی کٹائی) کوسرانجام دیں گے ۔
لہذا تقدیر پرستی کے الہیاتی نظریے کےمطابق آزاد مرضی ممکن نہیں ہے کیونکہ آپ کے پاس اس عمل (باغیچے کی گھاس کی کٹائی)کو سرانجام دینے کا کچھ بھی متبادل نہیں ہے ۔ اگر آپ باغیچے کی گھاس کی کٹائی نہیں کرتے تو خدا قادرِ مطلق نہیں ہے ۔ لیکن اگر آپ باغیچے کی گھاس کی کٹائی کرتے ہیں تو اُس صورت میں چونکہ اپ کے پاس اِس کام کے متبادل کچھ اور کرنے کی قابلیت نہیں ہے اِس لیے اپ کے پاس آزادمرضی نہیں ہے ۔
یہاں تقدیر پرستی کے الہیاتی نظریے سے متضاد دلیل پیش کی جاتی ہے : خدا قادرِ مطلق ہے ۔ چونکہ وہ قادرِ مطلق ہے لہذا وہ لاخطا بھی ہے ۔اگرخدا اپنے لاخطا علمِ سابق کی بناء پر یہ جانتا ہے کہ آپ کل باغیچے کی گھاس کی کٹائی کریں گے تو آپ کسی پابندی یا انتخاب کی کمی کی بجائے آزاد مرضی سے ایسا کرنے کا فیصلہ کریں گے ۔ آپ اب بھی گھاس کاٹنے یا نہ کاٹنے کی آزاد مرضی رکھتے ہیں اور خدا محض آپ کے فیصلہ لینے سے پہلے ہی اس بارے میں جانتا ہے ۔ جس طرح آپ باغیچے کی گھاس کاٹنے کے پابند نہیں ہے اسی طرح آپ ٹینس کھیلنے یا کھانا پکانے کے بھی پابند نہیں ہیں ۔ اگر آپ اپنا ارادہ بدلنے کو ہیں تو خدا اسے بھی جانتاہوگا پس آپ تمام معاملات میں آزاد مرضی کے مالک ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر خدا مستقبل کو نہ دیکھنے کا فیصلہ کرتا ہے تو آپ اب بھی ( اپنی مرضی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ) یہی فیصلہ کریں گے ۔ مستقبل کے بارے میں خدا کا غیر فعال علم آپ کی آزادمرضی پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔
نظریہ تقدیر پرستی ، اتفاق ( یا خوش قسمتی ) اور خدا کی طرف سے چناؤ کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے ۔
نظریہ تقدیر پرستی سکھاتا ہے کہ کائنات میں ایک اندھی ، غیر شخصی قوت موجود ہے جس پر کسی کا کچھ اختیار نہیں- یہاں تک کہ خدا کا بھی- اور یہ کہ تمام واقعات اس اندھی اور بے مقصد طاقت کے تحت رونما ہوتے ہیں ۔
اتفاق (یا خوش قسمتی ) ایک متغیر قوت ہے جو ممکنہ طور پر " خوش کُن " باتوں کے رونما ہونے کا سبب بنتی ہے اور اس میں خدا کی طرف سے کسی طرح کا عمل دخل نہیں ہوتا ۔ اتفاق کے ماتحت دنیا میں خدا صرف اتنا جان سکتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا ۔ ہر بات صرف اتفاق پر انحصار کرتی ہے ۔ اگر اتفاق کے حامیوں سے یہ پوچھا جائے کہ چیزیں کیوں اور کیسے انجام پاتی ہیں تواُن کے پاس کندھے اُچکانے اور یہ کہنے کے سوا کوئی جواب نہیں کہ "یہ سب بس ایسے ہی ہوتا ہے ۔"
خدا کی طرف سے چناؤ کا نظریہ (predestination) ایک بائبلی عقیدہ ہے جس کا کہنا ہے کہ خدا کا اپنا ایک خاص مقصد ہے اور وہ تمام چیزوں کو اپنی مرضی اور مقصد کے مطابق استعمال کر رہا ہے (افسیوں 1باب 11آیت؛ دانی ایل 4باب 35آیت؛ یسعیاہ 14باب 24آیت؛ 46باب 10آیت)۔ یہ نظریہ سکھاتا ہے کہ خدا اُن باتوں کو نہ تو سرانجام دیتا ہے اور نہ رونما ہونے کی اجازت دیتا ہے جو اُس کے مقصد کو پورا نہیں کرتیں (33زبور 11 آیت)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا دنیا کا حاکمِ کُل ہے جو تمام باتوں کو اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے ۔
جو لوگ "کے سرا، سرا (que sera sera)" یا " جو ہونا ہے وہ ہوکے ہی رہے گا" پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے ہیں وہ اتنے ہی غلط ہیں جتنے اتفا ق کے نظریے کے ماننے والے غلط ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ واقعات یقینی طور پر رونما ہوتے ہیں لیکن ایسا صرف اور صرف خدا کی خود مختار ی سے ہوتا ہے جو اپنے فرمانوں کو پورا کرتا ہے ۔
بائبل کے سنجیدہ طالب علم اس بات پر یقین نہیں رکھتے ہیں کہ چیزیں " محض اتفاق" سے ہوتی ہیں ۔ مسیحی لوگ نظریہ تقدیرپرستی اور بے دینی پر مبنی نظریہ جبریت کو مسترد کرتے ہیں ۔ اس کے برعکس اُن کا ایمان ہے کہ ایک حکیمِ کُل ،قدوس ، نیک اور خود مختار خدا زندگی کے ہر معاملے پر اختیار رکھتا ہے ( متی 10باب 29-30آیات)۔ وہ شخص جو واقعی یہ نہیں چاہتا ہے کہ خدا اُس پر اختیار رکھے یا جو خدا کی خود مختاری کی حقیقت کو حقیر جانتا ہے وہ خدا سے محبت نہیں رکھتا اور نہیں چاہتا ہے کہ خدا اُس کی زندگی میں آئے ۔ لیکن خدا خود مختار ہے اور وہ خود اپنی ذات کا انکار نہیں کر سکتا ۔
English
عقیدہِ تقدیر پرستی کیا ہے؟عقیدہِ جبریت کیا ہے؟