سوال
بائبل تقدیر کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
جواب
یہ بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے اور ہم اِسے اُس بات سے شروع کریں گے جو بائبل نہیں سکھاتی۔ تقدیر کو عام طور پر انسانی قابو سے باہر واقعات کا پہلے سے طے شُدہ سلسلہ سمجھا جاتا ہے۔ تقدیر پر یقین کا ایک عام جواب مستعفی ہونا ہے –اگر ہم تقدیر نہیں بدل سکتے تو پھر کوشش کیوں کریں؟جو کچھ بھی ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا اور ہم اُس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اِسے "تقدیر پرستی " کہا جاتا ہے اور یہ بائبلی تصور نہیں ہے۔
تقدیر پرستی اسلامی تعلیمات کی ایک بہت بڑ ی بنیاد ہے جو اللہ کی حاکمیت کے سامنے مکمل تابعداری کا مطالبہ کرتی ہے۔ تقدیر پرستی کی ہندومت میں بھی بہت بڑے پیمانے پر تعلیم دی جاتی ہے؛ درحقیقت یہ زندگی کا ایک تقدیرپسندانہ نقطہ نظر ہے جو ہندوستان کے ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں موئیرائی /Moirai ، یا فیٹس/Fates کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ انسانوں کی زندگیوں پر تین دیویاں اختیار رکھتی ہیں ۔ اُن کے فیصلوں کو نہ تو منسوخ کیا جا سکتا ہے نہ اُن سے بچا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ دوسرے دیوتا بھی اِس سے بچ نہیں سکتے۔ ایک بار پھر تقدیر پرستی بائبلی نظریہ نہیں ہے۔
تقدیر اور حتمی منزل – ہماری آزاد مرضی
بائبل یہ تعلیم دیتی ہے کہ انسان کو اخلاقی انتخابات کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا گیا تھا اور وہ اپنے اِن انتخابات کے لیے ذمہ دار ہے۔ انسان کا گناہ میں گرنا کوئی پہلے سے طے شُدہ واقعہ نہیں تھا جس میں آدم اور حوّا کٹھ پتلی تماشہ کرنے والے مالک خُدا کے بے یارومددگار شکار تھے۔ اِس کے برعکس آدم اور اُس کی بیوی کے پاس (ساری برکات سے مسلسل طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے )خُدا کی تابعداری کرنے اور (سارے لعنت زدہ نتائج کے ساتھ) خُدا کی نا فرمانی کرنے کے انتخاب کی صلاحیت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے فیصلے کا نتیجہ کیا ہوگا اور اُنہیں اِس کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائےگا (پیدایش 3باب)۔
اپنے انتخابات کے لیے جوابدہ ہونے کا یہ موضوع پورے کام میں مسلسل طور پر جاری ہے۔" جو بدی بوتا ہے مصیبت کاٹے گااور اُس کے قہر کی لاٹھی ٹُوٹ جائے گی " (امثال 22باب8 آیت)۔ " ہر طرح کی محنت میں نفع ہے پر مُنہ کی باتوں میں محض مُحتاجی ہے " (امثال 14باب 23 آیت)۔ "کیونکہ نیکوکار کو حاکِموں سے خَوف نہیں بلکہ بدکار کو ہے ۔ پس اگر تُو حاکِم سے نِڈر رہنا چاہتا ہے تو نیکی کر ۔ اُس کی طرف سے تیری تعرِیف ہو گی " (رومیوں 13باب3 آیت)۔
بائبل اکثر جب مقدر/تقدیر/حتمی منزل کی بات کرتی ہے تو یہ وہ انجام ہے جسے لوگ خود اپنے اوپر لاتے ہیں : "کیونکہ بہتیرے اَیسے ہیں جِن کا ذِکر مَیں نے تُم سے بارہا کِیا ہے اور اب بھی رو رو کر کہتا ہُوں کہ وہ اپنے چال چلن سے مسیح کی صلیب کے دُشمن ہیں۔اُن کا انجام ہلاکت ہے ۔ اُن کا خُدا پیٹ ہے ۔ وہ اپنی شرم کی باتوں پر فخر کرتے ہیں اور دُنیا کی چیزوں کے خیال میں رہتے ہیں " (فلپیوں 3باب 18-19 آیات)۔ " اُن کا یہ طرِیق اُن کی حماقت ہے" (49 زبور 13 آیت)۔ " جو کسی عَورت سے زِنا کرتا ہے وہ بے عقل ہے۔ وُہی اَیسا کرتا ہے جو اپنی جان کو ہلاک کرناچاہتا ہے " (امثال 6باب32 آیت)۔ "اور سمُندر نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دِیا اور مَوت اور عالَمِ ارواح نے اپنے اندر کے مُردوں کو دے دِیا اور اُن میں سے ہر ایک کے اَعمال کے مُوافق اُس کا اِنصاف کِیا گیا " (مکاشفہ 20باب13 آیت)۔
ہم اِس لیے گناہ کرتے ہیں کیونکہ ہم اِس کا انتخاب کرتے ہیں۔ اِس کے لیے ہم "تقدیر، قسمت ، طے شُدہ مقدر یا پھر خُدا کو الزام نہیں دے سکتے۔ یعقوب 1باب13-14 آیات بیان کرتی ہیں کہ " جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خُدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خُدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔ہاں ۔ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ "
یہ دلچسپ بات ہے کہ بہت سارے لوگ جو گناہ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں وہ گنا ہ کے منفی نتائج کی وجہ سے ناراض ہوتے ہیں۔"آدمی کی حماقت اُسے گُمراہ کرتی ہے اور اُس کا دِل خُداوند سے بیزار ہوتا ہے " (امثال 19 باب3آیت)۔ یہ بہت زیادہ بصیرت افروز آیت ہے۔ جب کوئی شخص احمقانہ طو ر پر اپنی زندگی تباہ کر لیتا ہے تو پھر بھی وہ خُدا یا شاید "قسمت" پر الزام لگانے پر اصرار کرسکتا ہے۔ اور یوں وہ اپنی حماقت پر قائم رہتا ہے۔
کلامِ مُقدس یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہم ایمان رکھنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کلامِ مُقدس میں بار بار ایمان لانے کے حکم کا مطلب یہ ہے کہ اِس معاملے میں ہمارے پاس ایک انتخاب ہے۔"بے اِعتقاد نہ ہو بلکہ اِعتقاد رکھ " (یوحنا 20باب27 آیت؛ مزید دیکھئے اعمال 16باب31 آیت؛ 19 باب 4 آیت)۔
تقدیر اور حتمی منزل – خُدا کی حاکمیت
کہیں ہمارے ذہن میں یہ غلط خیال نہ آ جائے کہ ہم اپنی قسمت کے خود مختار مالک ہیں ۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ صرف خُدا ہی خود مختار ہے۔ اُس کے خودمختار اختیار کو "دستگیری" کہا جاتا ہے۔ اُس نے ہمیں آزاد مرضی عطا کرنے کا انتخاب کیا ، اور اُس نے ایک اخلاقی کائنات کو تخلیق کیا جس میں علتِ و اثر کا قانون ایک حقیقت ہے۔ لیکن خُدا خود ہی واحد خُدا ہے اور کائنات کے اندر "حادثات" نہیں ہوتے۔
ایک حکیمِ کُل اور قادرِ مطلق خُدا کے پاس لازمی طور پر کوئی منصوبہ ہے، لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ بائبل ایک الٰہی منصوبے کی بات کرتی ہے۔ خُدا کے منصوبے کا تعلق چونکہ خُدا کے ساتھ ہے اِس لیے یہ منصوبہ پاک، پُرحکمت اور فائدہ مند ہے۔ خُدا کی دستگیری اُس کی تخلیق کے تعلق سے اُس کے اصل منصوبے کی تکمیل کے لیے کام کر رہی ہے۔
خُدا یسعیاہ 48باب3 آیت میں کہتا ہے کہ " مَیں نے قدِیم سے ہونے والی باتوں کی خبر دی ہے ۔ ہاں وہ میرے مُنہ سے نکلیں۔ مَیں نے اُن کو ظاہِر کِیا۔ مَیں ناگہان اُن کو عمل میں لایا اور وہ وقُوع میں آئیں " جس چیز کا خُدا اعلان کرتا ہے وہ اُسے کرتا بھی ہے (اور وہ کسی چیز کے ہونے کے وقت سے صدیوں پہلے اُس کا اعلان کر سکتا ہے!)
خُدا کے منصوبے کے خلاف لڑنا بالکل بیکار ہے۔ " کوئی حِکمت کوئی فہم اور کوئی مشوَرت نہیں جو خُداوند کے مُقابِل ٹھہر سکے " (امثال 21باب30 آیت)۔ یہی وجہ ہے کہ بابل کا بُرج کبھی بھی مکمل نہیں ہوا تھا (پیدایش 11باب1-9 آیات)، یہی وجہ تھی کہ دانی ایل کےمخالفین کو شیروں کے آگے پھینکا گیا تھا (دانی ایل 6باب24 آیت)، اِسی وجہ سے یوناہ نے مچھلی کے پیٹ میں وقت گزارا تھا (یوناہ 1باب17 آیت)، اور یہی وجہ ہے کہ جب مَیں گناہ کرتا ہوں تواُس کے مشکل نتائج کا سامنا کرتا ہوں۔
یہاں تک کہ جسے ہم عام طور پر "موقع" یا "قسمت" کہیں گے وہ بھی خُدا کے اختیار میں ہے ۔"قُرعہ گود میں ڈالا جاتا ہے پر اُس کا سارا اِنتظام خُداوند کی طرف سے ہے " (امثال 16باب33 آیت)۔ دوسرے الفاظ میں اِس پوری دُنیا کو چلانے کے لیے خُدا اِس کے نظام میں مداخلت اور شمولیت کرتا ہے، وہ ہاتھ باندھ کر دیکھتا نہیں رہتا۔
دُنیا کے اندر جو کچھ بھی ہوتا ہے اُسے خُدا کے مقصد کے مطابق کام کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ بُرائی موجود ہے، لیکن اُسے خُدا کی دستگیری کو ناکام بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ خُدا گناہگاروں کو بھی اپنےمقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔" بادشاہ کا دِل خُداوند کے ہاتھ میں ہے۔وہ اُس کو پانی کے نالوں کی مانِندجِدھر چاہتا ہے پھیرتا ہے " (امثال 21باب1 آیت)۔ خُدا نے مصریوں (خروج 12باب36 آیت) اور شاہِ ارتخششتا(عزرا 7باب27 آیت) کے دِل میں اپنامقصد ڈالنے کے لیے کام کیا۔ حتیٰ کہ جب انسان کا ارادہ خالص بُرائی کا ہو تو بھی خُدا اُس سے اپنی مرضی پوری کروا سکتا ہے جیسا کہ خُداوند یسوع کو مصلوب کرنے والوں کے معاملے میں (اعمال 2باب23 آیت؛ 4باب27-28 آیات)۔
خُدا کے منصوبے میں اُس پر بھروسہ کرنے والوں کے لیے اجر بھی شامل ہے اور وہ اپنے فرزندوں کو جلالی بنانے کا وعدہ کرتا ہے ۔" بلکہ ہم خُدا کی وہ پوشِیدہ حِکمت بھید کے طَور پر بیان کرتے ہیں جو خُدا نے جہان کے شرُوع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مُقرّر کی تھی۔جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خُداوند کو مصلُوب نہ کرتے۔بلکہ جیسا لِکھا ہے وَیسا ہی ہُؤا کہ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنِیں نہ آدمی کے دِل میں آئیں۔ وہ سب خُدا نے اپنے مُحبّت رکھنے والوں کے لئے تیّار کر دِیں " (1 کرنتھیوں 2باب7-9 آیات)۔ اِس حوالے کے اندر لفظ "مقرر کیا" پر غور کریں – یہ خُداوند سے ہماری محبت کی بنیاد پر ایک تقرر ی ہے۔
تقدیر اور حتمی منزل – ایک انفرادی منصوبہ
خُدا کی خودمختاری ہماری انفرادی زندگیوں کے لیے ایک منصوبے تک بھی پہنچتی ہے۔ اِس کی مثال خُدا کی طرف سے یرمیاہ نبی کے پیدا ہونے سے پہلے اُسکی بلاہٹ میں ملتی ہے۔ " تب خُداوند کا کلام مجھ پر نازِل ہُؤا اور اُس نے فرمایا۔اِس سے پیشتر کہ مَیں نے تجھے بطن میں خلق کِیا۔ مَیں تجھے جانتا تھا اور تیری وِلادت سے پہلے مَیں نے تجھے مخصوص کِیا اور قَوموں کے لئے تجھے نبی ٹھہرایا " (یرمیاہ 1باب4-5 آیات)۔
داؤد نے بھی اِس بات کا اندازہ لگایا کہ خُدا نے اُس کے لیے ایک منصوبہ بنایا تھا۔" تیری آنکھوں نے میرے بے ترتِیب مادّے کو دیکھا اور جو ایّام میرے لئے مقرّر تھے وہ سب تیری کِتاب میں لکھے تھے۔ جبکہ ایک بھی وجُود میں نہ آیا تھا " (139 زبور 16 آیت) اِس علم کی بنیاد پر داؤد نے بہت سارے مختلف حالات کے اندر خُدا کی پاک مرضی کو جاننے کی کوشش کی جیسے کہ 1 سموئیل 23باب9-12آیات)۔
تقدیر اور حتمی منزل– سب کچھ یکجا کرنا
اعمال 9باب میں ہم دیکھتے ہیں یسوع ایک بہت ہی دلچسپ بیان کے ساتھ ترسس کے ساؤل پر ظاہر ہوتا ہے :" اُس نے کہا مَیں یِسُو ع ہُوں جسے تُو ستاتا ہے۔]"پَینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مشکِل ہے "اعمال 26باب14 آیت[ " (5 آیت)۔ ظاہر ہے کہ یسوع کے پاس ساؤل کے لیے ایک منصوبہ تھا اور ساؤل (تکلیف کے ساتھ ) اُس کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا۔ خُدا کے منصوبے کے خلاف اپنی آزادی کا استعمال تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
بعد میں خُداوند یسوع ساؤل سے کہتا ہے کہ حننیاہ نامی شخص اُس سے ملنے کے لیے آ رہا ہے اور پھر یسوع حننیاہ کو ساؤل کے پاس جانے کا حکم دیتا ہے (11-12 آیات)۔ ظاہر ہے کہ خُداوند یسوع کے پاس حننیاہ کے لیے پہلے سے طے شُدہ منصوبہ تھا۔ اب حننیاہ ساؤل کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا (13-14 آیات)۔ وہ یوناہ کی طرح کر سکتا تھا اور کسی اور طرف دوڑ سکتا تھا۔ اگر اُس کا یہ انتخاب ہوتا تو خُدا کے پاس اُسے واپس لانے کے لیے کوئی "مچھلی" بھی تیار ہوتی۔خوش قسمتی سے حننیاہ نے خُدا کی فرمانبرداری کی(17 آیت)۔ خُدا کے منصوبے پر عمل کرنےکے لیے اپنی آزادی کا استعمال کرنا برکت کا باعث ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بائبل ہمیں سکھاتی ہے کہ خُدا ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے ہمیں اپنی فرمانبرداری یا نا فرمانی کرنے کی آزادی دے رکھی ہے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو خُدا صرف دُعا کے جواب میں کرتا ہے (یعقوب 4باب2 آیت)۔
خُدا تابعداری کرنے والوں کو برکت دیتا ہے اور جو اُس کی نافرمانی کرتے ہیں اُن کے حوالے سے وہ صبر کرتاہے، حتیٰ کہ بظاہر بہت زیادہ ڈھیل کی حد تک۔ اُس کے پاس ہماری زندگیوں کے لیے ایک منصوبہ ہے جس میں ہماری خوشی اور اُس کا جلال دونوں اِس دُنیا اور آنے والی دُنیا میں شامل ہوتے ہیں۔ جو لوگ خُداوند یسوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کرتے ہیں اُنہوں نے خُدا کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے (یوحنا 14باب6 آیت)۔ اِس کے بعد سے ہم قدم بہ قدم خُدا کی طرف سے طے کردہ بہترین حالت کی طرف جانے کی خاطرخُدا کی مرضی کے پورے ہونے کے لیے دُعا کرتے ہوئے (متی 6 باب10 آیت) اور گناہ کی طرف جانے سے گریز کرتے ہوئے (32 زبور 1-11 آیات؛ 119 زبور 59 آیت؛ عبرانیوں 12باب1-2 آیات) اُسکی پیروی کرتے ہیں۔
English
بائبل تقدیر کے بارے میں کیا کہتی ہے؟