سوال
اِس کا کیا مطلب ہے کہ ہم عجیب و غریب طریقے سے بنے ہیں (139 زبور 14 باب)؟
جواب
139زبور 14آیت بیان کرتی ہے"مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیب و غریب طور سے بنا ہوں ۔ تیرے کام حیرت انگیز ہیں۔ میرا دل اِسے خوب جانتا ہے"۔ اِس آیت کا سیاق و سباق ہمارے بدنوں کی ناقابلِ یقین فطرت، نوعیت اور ساخت کو بیان کرتا ہے۔ انسانی جسم دُنیا میں سب سےزیادہ پیچیدہ اور منفرد چیز ہے اور یہ پیچیدگی اور انوکھا پن انسانی بدن کو تخلیق کرنے والےخالق کی حکمت و دانش مندی کی وسعت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ انسانی جسم کا ہر پہلوحتیٰ کہ خوردبین میں نظر آنے والا ننھا ترین خُلیہ بھی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ عجیب و غریب طور پر بنایا گیا ہے ۔
انجینئر اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ قطع ِعَمودی (cross-section)کی بیرونی سطح پر مضبوط مواد ڈال کر اور اندرونی حصہ میں ہلکا اور خفیف مواد بھر کر مضبوط ساخت کا حامل کم وزنی شہتیر کیسے تیار کیا جاتا ہے۔ ایسا اِس لئے کیا جاتا ہے کیونکہ ٹیڑھے پن اور تناؤ سے نمٹنے کےلیے سب سے زیادہ دباؤ ڈھانچے کی بیرونی سطح پر پڑتا ہے۔ انسانی ہڈی کا قطعِ عمودی ظاہر کرتا ہے کہ ہڈی کا باہر والا حصہ انتہائی سخت اور مضبوط ہے جبکہ اندر ونی حصہ خون کے مختلف طرح کے خلیوں کی فیکٹری کے طور پر کام کرتا ہے۔ جب آپ جدید ترین کیمرے کی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ یا کم روشنی میں کام کرنے کے قابل کیسے ہوتا ہے اور کیسے وہ ایک وسیع حصے پر خود کار طریقے سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو آپ اس بات سے حیران ہوں گے کہ کیمرہ انسانی آنکھ کے طریقہ کار کی نقل ہے ۔ اور آنکھوں کے دو ڈھیلے/دیدے(eyeballs) ہونے کی وجہ سے ہم اور بھی زیادہ گہری بصری مہارت رکھ پاتے ہیں جو ہمیں یہ فیصلہ کرنے کے قابل بناتی ہے کہ کوئی چیز ہم سے کتنی دُور ہے۔
انسانی دماغ بھی حیرت انگیز عضو ہے جو عجیب و غریب طور پر بنا ہے۔ انسانی دماغ سیکھنے اور دلیل دینے ، اور جسم کے بہت سے خود کار افعال کو مہارت سے سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسا کہ دل کی دھڑکن کی شرح، فشارِ خون ، سانس لینے ، چلنے پھرنے ، کھڑے ہونے اور بیٹھنے کے لئے توازن کو برقرار رکھنا ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کام پر توجہ مرکوز کرنے کے دوران بھی یہ افعال غیر ارادی طور چلتے رہتے ہیں ۔ کمپیوٹر عام اعداد شمار میں انسانی دماغ کو پچھاڑ سکتے ہیں لیکن جب منطقی افعال کی سرانجام دہی کی بات آتی ہے تو کمپیوٹر ابھی بہت پیچھے ہیں ۔ انسانی دماغ حالات کے مطابق ڈھلنے کی حیرت انگیز قابلیت رکھتا ہے۔ ایک تجربے میں جب لوگوں نے ایسی عینکیں لگائیں جس سے زمین اُلٹی نظر آتی تھی تو اُن کے دماغوں نے اُس معلومات کو فوراً سمجھنا شروع کر دیا جو اُنہیں" سیدھے منظر" کے طور پر دُنیا کو سمجھنے کے لئے دی جارہی تھی۔ دوسری جانب جب کچھ لوگوں کی آنکھوں پر کافی وقت کےلیے پٹی باندھ دی گئی تو دماغ کا " نظر والا حصہ " جلد ہی دوسرے کاموں کے لئے استعمال ہونا شروع ہو گیا۔ جب لوگ ریل گاڑی کی پٹڑی کے قریب کسی گھر میں جاتے ہیں تو اُن کا دماغ ٹرین کے شور کو جلد ہی نظر انداز کر دیتا ہےاور اس طرح وہ لوگ غیر ارادی طور پر شور پر زیادہ دھیان نہیں دیتے ۔
جب مختصرکاری/ نقاشی (miniaturization) کی بات کریں تو اس درجے پر بھی انسانی جسم عجیب و غریب طور پر بنا ہے۔ مثال کے طور پر پورے انسانی جسم میں نئے خلیوں کی بناوٹ کےلیے ضروری معلومات ہر تفصیل کے ساتھ ڈبل ہیلکس ڈی۔این۔اے (double-helix DNA)میں سٹور ہوتی ہےجو انسانی جسم کے کروڑوں خلیوں کے ہر نیوکلِیس میں دھاگہ نما لڑی کی صورت میں ہوتا ہے انسان کی طرف سے تیار کردہ تاروں اور آپٹیکل کیبلز کی بے ڈھنگی ساخت کے مقابلہ میں ہمارے اعصابی نظام اور معلومات کا نظام حیرت انگیز طور پر پیچیدہ اور جامع ہے۔ ہر خلیہ جسے کبھی ایک " عام خلیہ" کہا جا تا تھا ایک چھوٹی سی فیکٹری ہے جس کو اب تک بھی انسان مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا ۔ جیسے جیسے مائیکروسکوپ زیادہ سے زیادہ طاقتور بنتی جاتی ہیں اُسی طرح انسانی خلیے کے ناقابل یقین پہلو اور عوامل سامنے آرہے ہیں ۔
انسانی پیدایش کےعمل میں دورانِ حمل اُس اکیلے فرٹیلائزد خلیے پر غور کریں۔ کیونکہ عورت کے رحم میں اِس اکیلے خلیے سے مختلف اقسام کے تمام ٹشوز، اعضاء اور جسمانی نظام تیار ہوتے ہیں جوبالکل صحیح وقت پر باہمی طور پر مل کر کام کرتے ہیں ۔ اِس کی ایک مثال نئے پیدا ہونے والے بچے کے دل کے دو وینٹیکلز (دل کے خون وصول کرنے والے خانوں) کے درمیان پائی جانے والی جھلی (septum) میں موجود سوراخ ہے۔ یہ سوراخ پیدائش کے عمل کے دوران بالکل درست وقت پر خود بخود بند ہو جاتا ہے تاکہ بچے کا خون اُس کے پھیپھڑوں کی مدد سے آکسیجن حاصل کر سکے۔ لیکن ایسا اُس وقت نہیں ہوتا جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور اپنی ناف کے ذریعے سے آکسیجن حاصل کرتا ہے۔
اِس کے علاوہ جسم کا قوت مدافعت کا نظام بہت سے خطرناک جراثیموں سے لڑنے اور خود کو چھوٹے درجے (یہاں تک کہ ڈی۔این۔اے کے خراب حصوں کی درستگی /بحالی ) سے لے کر انتہائی بڑے درجے پر (ہڈیوں اور بڑے حادثات کی صورت میں)اعضاء کو بحال کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ یقیناً ایسی بیماریاں ہیں جو بالاآخر جب ہم بوڑھے ہوتے ہیں تو وہ ہمارے جسموں پر غالب آجاتی ہیں لیکن دوسری جانب ہمیں اِس بات کا کچھ اندازہ نہیں ہے کہ ہمارے جسم کے مدافعتی نظام نے زندگی بھر ہمیں کتنی دفعہ یقینی موت سے بچایا ہے۔
انسانی جسم کے افعال بھی ناقابلِ یقین ہیں۔ بڑی اور بھاری اشیاء کو سنبھالنے اور نازک اشیاء کو بغیر توڑے سلیقے کے ساتھ احتیاط سے استعمال کرنے کی قابلیت بھی حیرت انگیز ہے۔ ہم تیر کے ساتھ دور سے اپنے ہدف کو بار بار کامیابی سے نشانہ بنا سکتے ہیں، کمپوٹر کی بورڈ کے بٹن دیکھے بغیر تیزی سے ٹائپنگ کر سکتے ہیں، رینگ سکتے ہیں، چل سکتے ہیں، بھاگ سکتے ہیں، گھوم سکتے ہیں، چڑھائی چڑھ سکتے ہیں، تیر سکتے ہیں، قلا بازی لگا سکتے ہیں اور اُچھل سکتے ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ کسی لائٹ /بلب کے پیچ کھولنے، دانت صاف کرنے اور جوتوں کے تسمے باندھنےجیسے عام کام بغیر سوچے سمجھے کر سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ "عام" کام ہیں مگر انسان کو ایسی مشین کے طور پر تشکیل دیا گیا جو وسیع پیمانے پر اِس طرح کے بہت سے کام اور حرکات کر سکتا ہے ۔
نظامِ انہضام اور اُس سے متعلقہ اعضاء کے افعال، دل کی طویل عمر، پٹھوں کی بناوٹ اور اُن کے افعال، خون کی شریانیں، گردوں کے ذریعہ خون کی صفائی، اندرونی اور وسطی کان کی پیچیدگی، چکھنے اور سونگنے کی حس اور اِسی طرح کی دیگر بہت سی چیزیں جنہیں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں – ہر ایک چیز حیرت انگیز ہے اور ان کی نقل کرنا انسان کی قابلیت سے باہر ہے۔ واقعی ہم عجیب و غریب طور سے بنے ہیں۔ ہم اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے وسیلہ سے اپنے خالق کو جاننے کے لئے کتنے شگر گزار ہیں اور نہ صرف اُس کےعلم پر بلکہ اُس کی محبت پر بھی حیران ہیں (139زبور 17- 24آیات)۔
English
اِس کا کیا مطلب ہے کہ ہم عجیب و غریب طریقے سے بنے ہیں (139 زبور 14 باب)؟