سوال
نظریہ ارتقاء کی چند خامیاں کونسی ہیں ؟
جواب
مسیحی اور غیر مسیحی یکساں طور پر اکثر سوال کرتے ہیں کہ آیا نظریہ ارتقاء بالکل درست ہے یا نہیں ۔ وہ لوگ جو اس نظریے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اُن کو ارتقاء کےکچھ حامیوں کی طرف سے " غیر سائنسی " یا " کم عقل " ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ارتقاء کے بارے میں عام طرزِفکر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ نظریہ تمام شبہات سے بالاتر ثابت ہو چکا ہے اور اس کی راہ میں کسی قسم کی سائنسی رکاوٹیں باقی نہیں ہیں ۔ درحقیقت اس نظریے میں بہت سی سائنسی خامیاں ہیں جو کہ اِس کے بارے میں متشکک رویہ اختیار کرنے کے لیے وجوہات فراہم کرتی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان سوالات میں سے کوئی بھی نظریہ ارتقاء کولازمی طور پر غلط ثابت نہیں کرتا لیکن یہ سوالات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نظریہ حتمی طور پردرست نہیں ہے ۔
ایسے بہت سے طریقہ کار ہیں جن میں نظریہ ارتقاء پر تنقید کی جا سکتی ہے لیکن اِن میں سے زیادہ تر تنقید انتہائی خاص ہے ۔ جینیاتی خصوصیات، ماحولیاتی نظام ، ارتقائی شجرہ نسب، انزائم کی خصوصیات اور دیگر حقائق کی بے شمار مثالیں ہیں جنہیں نظریہ ارتقاء کے ساتھ ہم آہنگ کرنا بہت مشکل ہے ۔ اِن کی تفصیلی وضاحت انتہائی تکنیکی ہو سکتی ہے جو اس طرح کے خلاصے کے دائرہ کار سے باہر ہے ۔ عام طور پر بات کی جائےتو یہ کہنا درست ہے کہ سائنس نے ابھی تک ایسے کوئی منطقی جوابات فراہم نہیں کئے جو اِس بات کی وضاحت کر سکیں کہ ارتقاء مالیکیولی ، جینیاتی یا یہاں تک کہ ماحولیاتی سطح پر مستقل اور معاون طریقے سے کیسے کام کرتا ہے ۔
نظریہ ارتقاء کی دیگر خامیوں کو تین بنیادی شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلی خامی " التواء شدہ توازن" اور نظریہ " تدریجیت " کے درمیان تضاد ہے۔ دوسری ، " ارتقائے صغیر" کو " ارتقائےکبیر" میں پیش کرنے کا مسئلہ ہے ۔ تیسرا وہ تباہ کُن طریقہ ہے جس میں اس نظریے کو فلسفیانہ وجوہات کی بناء پر غیر سائنسی طور پر غلط استعمال کیا گیا ہے ۔
پہلی " التواء شدہ توازن " اورتدریجیت " کے درمیان اختلاف ہے ۔ فطری ارتقاء کیسے رونما ہو سکتا ہے اس کے دو بنیادی امکانات ہیں ۔ نظریہ ارتقاء میں یہ خامی اس لیےواقع ہوتی ہے کیونکہ یہ دونوں نظریات باہمی طور پر اختصاصی ہیں اور مزید برآں اِن دونوں کے بارے میں معنی خیز ثبوت بھی موجود ہیں ۔نظریہ تدریجیت اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جاندار جینیاتی تبدیلیوں کے نسبتاً ایک باقاعدہ تجربے میں سے گزرتے ہیں جس کے نتیجے میں ابتدائی اشکال سے بعد کی اشکال میں کسی حد تک "لگا تار" تبدیلی ہوتی ہے ۔ یہ نظریہ ارتقاء سے اخذ کردہ اصل مفروضہ تھا ۔ دوسری جانب التواءشدہ توازن کا مطلب یہ ہے کہ جینیاتی تبدیلی کی شرح مختلف طرح کے اتفاقات سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔ لہذا جاندار تیز رفتار ارتقاء کی مختصر تبدیلی کے التواء کے ساتھ طویل ادوار تک استحکام کا تجربہ کریں گے ۔
نظریہ تدریجیت فوسل ریکارڈ سے متصادم معلوم ہوتا ہے ۔ جاندار اچانک ظاہر ہوتے ہیں اور طویل ادوار کے دوران محض مختصر تبدیلی کا مظاہر ہ کرتے ہیں ۔ گذشتہ صدی کے دوران فوسل ریکارڈ کو بہت زیادہ وسعت دی گئی ہے اور جتنے زیادہ فوسل ملتے ہیں نظریہ تدریجیت اتنا ہی زیادہ غلط معلوم ہوتا ہے ۔ یہ فوسل ریکارڈ میں نظریہ بتدریجیت کی سر عام تردید ہی تھی جس نے نظریہ التواء شدہ توازن کو تحریک دی تھی ۔
فوسل ریکارڈ التواء شدہ توازن کی حمایت کرتے معلوم ہو سکتے ہیں لیکن ایک بار پھر یہاں بھی بڑے مسائل ہیں ۔ التواء شدہ توازن کا بنیادی مفروصہ یہ ہے کہ ایک جیسی آبادی سے تعلق رکھنے والے تمام جانداروں میں سے بہت کم جاندار ایک ہی وقت میں کئی مفید جینیاتی تبدیلیوں کا تجربہ کریں گے ۔ کوئی بھی شخص اسے فوراً جان سکتا ہے کہ یہ کیسی غیر متوقع بات ہے ۔ پھر یہ چند اراکین اصل آبادی سے مکمل طور علیحدہ ہو جاتے ہیں تاکہ اُن کے نئے جین اگلی نسل کو منتقل کئے جا سکیں ( ایک اور غیر متوقع واقعہ)۔ زندگی کے وسیع تنوع کے پیشِ نظر اس قسم کا حیرت انگیز اتفاق ہر وقت ہوتا رہے گا۔
اگرچہ التواء شدہ توازن کی خلاف ِ قیا س نوعیت اپنے بارے میں آپ بات کرتی ہے سائنسی تحقیقات نے اُن فوائد پر جو یہ عطا کرے گا شک کا اظہا رکیا ہے ۔ کچھ اراکین کا بڑی آبادی سے الگ ہو جانے کا نتیجہ داخلی تولید ہے ۔ اس کے اثرات تو لیدی صلاحیت میں کمی ، نقصان دہ جینیاتی خرابیوں اور دیگر نقائص کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ ایسے واقعات جنہیں " بہترین کی بقاء" کے تصور کو فروغ دینا چاہیے اس کے برعکس جانداروں کو معذور کر دیتے ہیں ۔
کچھ لوگوں کی طرف سے اِس دعوے کے باوجود کہ التواء شدہ توازن نظریہ تدریجیت کی زیادہ بہتر شکل نہیں ہے ۔ یہ لوگ ارتقا ء کے پیچھے میکانزم اور اُس کے برتاؤ کے بارے میں بہت مختلف مفروضات رکھتے ہیں ۔ نہ تو اس بات کی کوئی تسلی بخش وضاحت ہے کہ زندگی اس متنوع اور متوازن حالت میں کس طرح وجود میں آئی تھی جیسی یہ اب ہے اور اِس بارے میں بھی کوئی مناسب امکانات نہیں ہیں کہ ارتقاء کیسے عمل کر سکتا ہے ۔
دوسری خامی " ارتقائےصغیر" کو " ارتقائے کیبر" کی صورت میں وسعت دینے کا مسئلہ ہے ۔ لیبارٹری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جاندار مطابقت کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یعنی زندہ چیزیں اپنے ماحول سے بہتر طور پر ہم آہنگ ہونے کےلیے اپنے اندر جینیاتی تبدیلی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ تاہم انہی تحقیقات نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اس طرح کی تبدیلیاں محض ایک مخصوص حد تک ہو سکتیں ہیں اور ان جانداروں میں بنیادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں " ارتقائے صغیر" کہلاتی ہیں ۔ " ارتقائے صغیر " کے نتیجے میں کچھ شدید تبدیلیاں ہو سکتی ہیں جیسی کہ کتوں میں پائی جاتی ہیں ۔ تمام کتے ایک ہی نسل کے ہیں مگر کوئی بھی شخص یہ مشاہد ہ کر سکتا ہے کہ ان میں کتنی تبدیلیاں پائی جاتی ہیں ۔ لیکن یہاں تک کہ کسی انتہائی جارحانہ افزائش نسل نے بھی کبھی کسی کتے کو کسی اور جاندار میں تبدیل نہیں کیا ۔ افزائش نسل کے ذریعے سے ایک کتا کتنا بڑا ، چھوٹا، ہوشیار، یا بالوں والا ہو سکتا ہے اس کی ایک حد ہے ۔ تجرباتی طور پر اس تجویز کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ کوئی نسل اپنی جینیاتی حدود تجاوز کر کے تبدیل ہو سکتی اور کسی اور جاندار کا روپ دھار سکتی ہے ۔
طویل المیعاد ارتقاء تاہم " ارتقائے کبیر" کا تقاضا کرتا ہے جو اُن بڑی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا حوالہ دیتا ہے ۔ ارتقائے صغیر ایک بھیڑیے کو ایک چھوٹے قد کے کتے یا ایک بڑے قد کے کتے میں بدل دیتا ہے ۔ ارتقائے کبیر کسی مچھلی کو ایک گائے یا بطخ میں بدل دے گا ۔ یہ ارتقائے صغیر اور ارتقائے کبیر کے مابین وسعت اور اثر کے لحاظ سے ایک بہت بڑا فرق ہے ۔ نظریہ ارتقاء میں اس خامی سے مراد یہ ہے کہ تجربہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کی اس صلاحیت کی حمایت نہیں کرتا ہے کہ یہ ایک نسل کو دوسری نسل میں تبدیل کر دیتی ہیں ۔
آخر میں نظریہ ارتقاء کے اطلاق میں بھی خامی ہے ۔ یہ خامی یقیناً سائنسی مفروضے میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ اس نظریے کو کیسے غلط انداز میں غیر سائنسی مقاصد کےلیے غلط طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ حیاتیاتی زندگی کے بارے میں بہت سے سوالات ابھی باقی ہیں جن کا نظریہ ارتقاء نے جواب نہیں دیا ۔ تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جو اس نظریے کو حیاتیاتی وضاحت سے مابعد الطبیعاتی وضاحت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب بھی کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نظریہ ارتقاء مذہب ، رُوحانیت یا خدا کو غلط ثابت کرتا ہے تو وہ اس نظریے کو اُس کی حدود سے باہر لے جا رہا ہوتا ہے۔ درست یا غیر درست طور پر نظریہ ارتقا ء کو خدا کی ذات پر اعتراض کرنے والوں نے ایک مذہب مخالف علامت کے طور پر اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔
مجموعی طور پر نظریہ ارتقاء پر سوال اٹھانے کی کئی ٹھوس سائنسی وجوہات ہیں ۔ سائنسدانوں کی طرف سے ان خامیوں کا حل نکا لا جا سکتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ وہ باہمی طور پر اس نظریے کو ختم ہی کر دیں ۔ ہم نہیں جانتے کہ اِن میں سے کون سی بات واقع ہو گی مگر اتنا جانتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء حل ہونے سے کوسوں دُور ہے اور ذی شعور لوگ سائنسی لحا ظ سے اس پر سوال اُٹھا سکتے ہیں ۔
English
نظریہ ارتقاء کی چند خامیاں کونسی ہیں ؟