سوال
کیا بائبل کہتی ہے کہ آپ اپنے دِل کی بات مانیں؟
جواب
"اپنے دل کی مانیں" اِس کے لیے فلموں، ناولوں، نعروں، شماروں اور میمز میں بہت سے بیانات پائے جاتے ہیں۔ "خود پر بھروسہ کریں" اور "اپنے جذبات کی پیروی کریں" اِسی سے متعلقہ نصیحتیں ہیں ۔" ایک نتیجہ خیز رائے یہ ہے کہ "آپ کا دل کبھی آپ کو گمراہ نہیں کرے گا"۔ مسئلہ یہ ہے کہ اِن میں سے کسی بھی ذومعنی فقرے کو بائبلی حمایت حاصل نہیں ہے۔
اپنے دلوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے ہمیں اپنے دِلوں کو خُدا کے تابع کرنا چاہیے : "سارے دِل سے خُداوند پر توکُّل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنُمائی کرے گا"(امثال 3باب 5-6آیات )۔ یہ حوالہ واضح حکم دیتا ہے کہ ہمیں اپنے آپ پر بھروسہ نہیں کرنا ہے ۔ اور یہ خداوند کی پیروی کرنے کا انتخاب کرنے والوں کے لیے رہنمائی کا وعدہ دیتا ہے ۔
کوئی بھی چیز اُسی وقت صحیح سمت میں رہنمائی کر سکتی ہے جب اُس کی بنیاد آفاقی سچائی پر ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رہنمائی کے لیے جس سے بھی رجوع کیا جائے اُسے حتمی سچائی کی بنیاد پر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے نہ کہ نسبتی ،جذباتی استخراج کی بنیاد پر۔ بائبل سکھاتی ہے کہ انسان کو خدا کی پیروی کرنی چاہیے ۔ خُدا فرماتا ہے کہ" مُبارک ہے وہ آدمی جو خُداوند پر توکُّل کرتا ہے اور جِس کی اُمّیدگاہ خُداوند ہے"(یرمیاہ 17باب 7آیت )۔ خدا ہر چیز کا کامل علم رکھتا ہے (1 یوحنا 3باب 20آیت ) ایک ایسی خاصیت جسے اکثر علیم ِ کُل ہونا کہا جاتا ہے۔ خدا کا علم کسی بھی لحاظ سے محدود نہیں ہے۔ خُدا اُن تمام واقعات سے باخبر ہے جو کبھی رونما ہوئے ہیں، جو فی الحال رُونما ہو رہے ہیں اورجو آئندہ کبھی ہوں گے (یسعیاہ 46باب 9-10آیات)۔ خدا کا علم عام واقعات سے بالاتر ہے اور انسانی خیالات اور اِرادوں تک کا احاطہ کرتا ہے (یوحنا 2باب 25آیت ؛ اعمال 1باب 24آیت )۔ تاہم یہ محض اُس کا علم نہیں ہے جو خدا کی رہنمائی کو پوری طرح سے ایک قابل اعتماد ذریعہ بناتا ہے۔ خدا ہر امکان، ہر ممکنہ نتیجے، واقعات کے کسی بھی تسلسل کے ہر تصوراتی انجام سے بھی واقف ہے (متی 11باب 21آیت )۔ خدا کی بھلائی کے ساتھ مربوط اِس صلاحیت کی بناء پر ہی خُدا اِس قابل ہے کہ وہ لوگوں کو کچھ بھی کرنے کے لیے ممکنہ طور پر بہترین رہنمائی فراہم کرے ۔
خُدا نئی پیدایش کے تجربے سے خالی دل کے بارے میں یوں فرماتا ہے کہ "دِل سب چیزوں سے زِیادہ حیلہ باز اور لاعِلاج ہے۔ اُس کو کَون دریافت کر سکتا ہے؟"(یرمیاہ 17باب 9آیت)۔ یہ حوالہ دو وجوہات کو واضح کرتا ہے کہ فیصلہ لیتے وقت کسی انسان کو اپنے آپ کو اپنے دل کی پیروی کا پابند کیوں نہیں کرنا چاہیے ۔ پہلی بات کہ انسانی دل کے موروثی گناہ سے آلودہ ہونے کے باعث تمام مخلوقات میں اس سے زیادہ حیلے باز کوئی چیز نہیں ہے ۔ اگر ہم اپنے دل کی پیروی کرتے ہیں تو ہم ایک ناقابل اعتماد رہنما کی پیروی کرتے ہیں۔
درحقیقت ہم اپنے دل کی پُر فریب فطرت سے انجان ہیں۔ جیسے نبی پوچھتا ہے کہ اسے " کَون دریافت کر سکتا ہے؟"۔ جب ہم حکمت کے لیے خود پر بھروسہ کرتے ہیں تو ہم صحیح اور غلط کےدرمیان فرق کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ 1977 کا مشہور گانا "You Light Up My Life/تم میری زندگی کو روشن کرو" اِن ناخوش الفاظ پر مشتمل ہےکہ "یہ غلط نہیں ہو سکتا / جب یہ بالکل صحیح محسوس ہو "۔ "احساسات" کی بنیاد پر صحیح اور غلط کا تعین کرنا زندگی کا ایک خطرناک (اور غیر بائبلی) طریقہ ہے۔
دوسری بات ، یرمیاہ 17باب 9آیت سکھاتی ہے کہ دل سخت بیمار ہے۔ دل کو ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ انسان کو نئے دل کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص مسیح پر ایمان لاتا ہے تو اُسے ایک نیا مخلوق بنایا جاتا ہے (2 کرنتھیوں 5باب 17آیت )۔ یسوع دل کو ٹھیک نہیں کرتا؛ بلکہ وہ اِسے ایک نئےدِل کے ساتھ بدل دیتا ہے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسیح پر ایمان لانے کے بعد ہم اپنے دِلوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بطور ایماندار ہماری اپنی خواہشات کی بجائے خدا کی مرضی کی پیروی کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بائبل سکھاتی ہے کہ"جسم رُوح کے خِلاف خواہش کرتا ہے اور رُوح جسم کے خِلاف اور یہ ایک دُوسرے کے مُخالِف ہیں تاکہ جو تُم چاہتے ہو وہ نہ کرو۔" (گلتیوں 5باب 17آیت )۔
ہمارے پاس ایک ایسا علیم ِ کُل اور مہربان خدا وند ہے جو ہمیں حکمت دینے کا وعدہ کرتا ہے (یعقوب 1باب 5آیت )؛ ہمارے پاس اُس کا الہامی اور لا خطا کلام موجود ہے جوہمارے لیے قلمبند کیا گیا ہے (2 تیمتھیس 3باب 16آیت )۔ دل کی غیر حقیقی خواہشات کا تعاقب کرنے کے لئے ہم خدا اور اُس کے ابدی وعدوں سے کیوں منہ موڑیں گے؟
English
کیا بائبل کہتی ہے کہ آپ اپنے دِل کی بات مانیں؟