سوال
کیا آدم اور حوؔا کا گناہ حقیقت میں ممنوعہ پھل کھانے کے بارے میں ہی تھا؟
جواب
"ممنوعہ پھل" یہ جزو جملہ باغ ِ عدن میں آدم اور حوؔا کی کہانی کا حوالہ دیتا ہے۔ خدا کی طرف سے انہیں نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا (پیدایش 2باب 9آیت؛ 3باب 2آیت)۔ بائبل یہ نہیں بتاتی کہ یہ کس قسم کا پھل تھا۔ روایتی طور پر اس کی سیب کے پھل کے طور پر شناخت کی جاتی ہے لیکن یہ بات یقینی طور پر جانناناممکن ہے کہ یہ کس قسم کا پھل تھا۔ پیدایش کی کتاب کے متن کا ہر اشارہ ایک حقیقی درخت کے حقیقی پھل کی طرف ہے ۔
اِس حوالے میں کلیدی جُزو پھل نہیں بلکہ اُسے کھانے سے منع کیا جانا ہے ۔ اپنی ہدایات میں خدا نے آدم اور حوؔا کو صرف ایک چیز سے منع کیا تھا ۔یہ درحقیقت ایک الگ بات ہے کہ آیا پھل کے اندر کوئی رُوحانی خوبی تھی یا نہیں ۔گناہ پھل کھانے میں نہیں تھا بلکہ خدا کی نا فرمانی کرنے میں تھا ۔ پھل کھانے ( نا فرمانی کے عمل ) سے آدم اور حوؔا نے بُرائی کا ذاتی علم حاصل کیا تھا ۔ وہ اچھائی کے بارے میں پہلے ہی جانتے تھےلیکن اب اُن کے پاس نا فرمانی کی بُرائی اور اس کے ساتھ جُڑے احساس جُرم اور شرمندگی کا متقابل تجربہ بھی تھا ۔ شیطان کا جھوٹ یہ تھا کہ اچھائی اور بُرائی کو جاننے سے وہ خدا کی مانند ہو جائیں گے (پیدایش 3باب 5آیت)۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ پہلے ہی خدا کی صورت اور شبیہ پر بنائے گئے تھے اور خُدا کی بھلی اور پاک مرضی کی برکت کے حامل تھے ۔
آج ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ جب خدا کسی بات سے منع کرتا ہے تواُسکا ایسا حکم ہماری بھلائی کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ اُس کی نا فرمانی کرنا ، اپنی مرضی کے راستے پر چلنا یا اپنے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ ہمارے لیے کیا فائدہ مند ہے اور کیا نہیں ہمیشہ ہماری تباہی کا باعث بنے گا ۔ ہمارا آسمانی باپ جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے وہ جانتا ہے کہ ہمارے لیے سب سے بہتر کیا ہے اور جب وہ کسی بات سے منع کرتا ہے تو ہمیں اُس کی بات سننی چاہیے ۔ جب ہم اُس کی کامل اور پاک مرضی کی بجائے اپنی مرضی کے مطابق چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو چیزیں ہمارے لیے کبھی اچھی نہیں ہوتیں ۔ آدم اور حوؔا نے یہ افسوس ناک دریافت ممنوعہ پھل کھانے کے بعد کی تھی اور تب ہی سے انسانیت اُن کے اس فیصلے کے نتائج بھگت رہی ہے ( رومیوں 5باب 12آیت)۔
English
کیا آدم اور حوؔا کا گناہ حقیقت میں ممنوعہ پھل کھانے کے بارے میں ہی تھا؟