settings icon
share icon
سوال

اگر آپ بار بار ایک ہی گناہ کرتے رہیں تو کیا خُدا مسلسل طور پر آپکو معاف کرتا رہے گا؟

جواب


اِس سوال کا بہترین جواب دینے کے لیے ہم کلامِ مُقدس کے دو بہت ہی طاقتور حوالہ جات کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ پہلا حوالہ زبور کی کتاب میں پایا جاتا ہے : "جیسے پُورب پچھم سے دُور ہے ویسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دِیں" (103 زبور 12آیت)۔ شیطان ایک بہت ہی موثر چال جو ہمارے خلاف چلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ خُدا کے اِس خاص وعدے کے باوجود ہمیں اِس بات پر یقین کرنے کے لیے قائل کرلیتا ہے کہ ہمارے گناہ دراصل حقیقی طور پر معاف نہیں ہوئے ۔ اگر ہم نے واقعی ہی سچائی کے ساتھ خُداوند یسوع مسیح کو اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبول کر لیا ہےلیکن اِس کے باوجود ہمارے دل و دماغ میں ایسے احساسات و خیالات جنم لے رہے ہیں کہ شاید ہماری خطائیں مٹائی گئی ہیں یا نہیں تو عین ممکن ہے کہ یہ احساسات شیطانی اثرات کی بدولت آرہے ہوں۔ بدارواح اور ابلیس کی تاثیروں کو اِس بات سے انتہائی نفرت ہے کہ ہم اُن کے شکنجے سے چھوٹ جائیں، اِس لیے وہ ہماری نجات کی حقیقت کے تعلق سے ہمارے دِل و دماغ کے اندر شکوک کے بیچ کو بوتی رہتی ہیں۔

ابلیس کے حیلوں ، بہانوں اور چالوں کے ہتھیاروں کے اندر شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ وہ ماضی کے ہمارے جرائم اور غلطیوں کو ہمیں یاد دلاتا رہتا ہےاور وہ اُن سب کو یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ حقیقت میں خُدا ہمیں ممکنہ طور پر نہ تو معاف کر سکا اور نہ ہی ہمیں بحال کر سکا۔ ابلیس کے حملے ہمیں کچھ ایسے حقیقی چیلنجوں سے دوچار کر دیتے ہیں کہ ہمارے لیے خُدا کے وعدوں میں اطمینان حاصل کرنا اور اُس کی محبت پر اعتقاد کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ زبور ہمیں بتاتا ہے کہ خُدا نہ صرف ہمارے گناہوں کو معاف کرتا ہے بلکہ وہ اُنہیں مکمل طور پر اپنی حضوری سے دور کر دیتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی زبردست اور گہری بات ہے۔ بلا شک یہ انسانی نقطہ نظر سے سمجھنے کے لیے ایک بہت ہی مشکل تصور ہے، یہی وجہ ہے کہ معافی کو سادگی کے ساتھ قبول کرنے کے برعکس ہمارے لیے اپنی معافی کو لیکر حیران و پریشان ہونا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اِ س معاملے کو سلجھانے کی کلید اِس بات میں ہے کہ ہم بڑی سادگی کے ساتھ اپنے سارے شکوک اور ندامت کے احساسات کو ترک کر دیں اور خُدا کی طرف سے معاف کئے جانے کے وعدوں میں اطمینان حاصل کریں۔

ایک اور حوالہ 1 یوحنا 1 باب 9آیت ہے جس میں مرقوم ہے کہ " اگر اپنے گناہوں کا اِقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادِل ہے۔" یہ کیسا خوبصورت وعدہ ہے! جب خُدا کے فرزند اُس کی حضوری میں توبہ کر کے معافی کے طلبگار ہوتے ہوئے آتے ہیں تو وہ اُن کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ خُدا کا فضل اِس قدر عظیم ہے کہ وہ ایک گناہگار کے سب گناہ دھو کر اُسے خُدا کا فرزند بنا دیتا ہے۔ اگر ہم کبھی ٹھوکر کھائیں بھی تو ہمیں معاف کیا جائے گا۔

ہم متی 18 باب 21-22آیات میں پڑھتے ہیں کہ " اُس وقت پطر س نے پاس آ کر اُس سے کہا اَے خداوند اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو مَیں کتنی دفعہ اُسے معاف کروں؟ کیا سات بار تک؟یسو ع نے اُس سے کہا مَیں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔"پطرس یقینی طور پر سوچ رہا تھا کہ سات دفعہ معاف کرنے کا تصور رکھ کر وہ کافی زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اپنے خلاف کسی جرم کا ارتکاب کرنے والے سے برابری کی سطح پر انتقام لینے کی بجائے پطرس ایسے شخص کو سات بار چھوٹ دینے کی تجویز پیش کر رہا تھا۔ لیکن اُس کے تصور کے مطابق آٹھویں دفعہ معافی اور فضل ختم ہو جانا تھا۔ لیکن خُداوند یسوع مسیح پطرس کی طرف سے فضل کے اصولوں کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کرتا ہے کہ اُن لوگوں کے لیے معافی کی کوئی حد بندی نہیں ہے جو سچے دل سے اُس کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہ صرف خُدا کے لامحدود فضل کی بدولت ہی ممکن ہے جو ہمارے لیے خُداوند یسوع مسیح کے بہائے گئے خون کے وسیلے سے میسر ہوا ہے۔ کیونکہ مسیح کی معاف کرنے والی قوت کی بدولت ہم اگر گناہ میں گر جائیں تو جب بھی ہم خُداوند کے پاس حلیمی کے ساتھ معافی کے متلاشیوں کے طور پر آئیں تو وہ ہمارے گناہوں کو دھو کر ہمیں پاک اور صاف کرتا ہے۔

اِس کے ساتھ ہی ہمیں اِس بات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تصور قطعی طور پر بائبلی نہیں ہے کہ کوئی بھی شخص عادتاً مسلسل طور پر اپنی زندگی میں گناہ کرتا رہے اور ایماندار بھی کہلائے (1یوحنا 3باب8-9آیات)۔ اِسی لیے پولس رسول ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ " تم اپنے آپ کو آزماؤ کہ اِیمان پر ہو یا نہیں ۔ اپنے آپ کو جانچو ۔ کیا تم اپنی بابت یہ نہیں جانتے کہ یسو ع مسیح تم میں ہے؟ ورنہ تم نامقبول ہو" (2 کرنتھیوں 13باب 5 آیت)۔مسیحی ہوتے ہوئے ہم لازمی طور پر ٹھوکر کھا سکتے ہیں لیکن ہم مسلسل طور پر ایسی گناہ آلود زندگی نہیں گزارتے جو ایسے گناہوں سے بھری ہوئی ہو جن سے ہم نے کبھی توبہ نہیں کی۔ ہم سب کے اندر کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ہم نا چاہتے ہوئے بھی اکثر گناہ میں گر جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پولس رسول بھی اِس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتا ہے اُسے نہیں کر پاتا اور جسم کی کمزوری کے باعث جو کچھ نہیں کرنا چاہتا وہ اکثراُس سے ہو جاتا ہے (رومیوں 7 باب 15آیت)۔ پولس رسول کی طرف ایک سچے ایماندار کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ وہ گناہ سے نفرت کرے، اُس سے توبہ کرے اور اُس گناہ پر غالب آنے کے لیے خُدا سے الٰہی فضل مانگے (رومیوں 7 باب 24-25آیات)۔ اگرچہ خُدا کے اُس فضل کی بدولت جو ہمارے لیے کافی ہے ہمیں گرنا تو نہیں چاہیے، لیکن بہت دفعہ ہم اپنی محدود قوت پر انحصار کرنے کی وجہ سے گر جاتے ہیں۔ جب کبھی ہمارا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے اور پطرس کی طرح ہم اپنے الفاظ اور زندگی کے کاموں کی وجہ سے اپنے خُداوند کا انکار کر دیتے ہیں تو بھی ہمارے پاس توبہ کرنے اور اُن گناہوں کی معافی حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔

شیطان کی ایک اور چال یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے دِلوں میں یہ سوچ ڈال دے کہ ہمارے لیے کوئی اُمید نہیں ہے، ایسا کوئی امکان نہیں ہے کہ ہم معاف کئے جائیں، شفا پائیں اور بحال کئے جائیں۔ وہ ہمیں گناہ اور اُس کی ندامت میں اِس قدر الجھانا چاہتا ہے کہ ہم یہ محسوس کریں کہ ہم اب خُدا کی معافی کے مستحق نہیں رہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کب خُدا کے فضل کے مستحق تھے؟خُدا نے بنایِ عالم سے پیشتر ہم سے محبت کی، ہمیں معاف کیا اور ہمیں مسیح خُداوند میں چن لیا (افسیوں 1باب 4-6آیات)، اور یہ سب اُس نے کسی ایسے کام کی وجہ سے نہیں کیا جو ہم نے کیا تھا بلکہ اِس لیے کہ "ہم جو پہلے سے مسیح کی اُمید میں تھےاُس کے جلال کی ستائش کا باعث ہوں" (افسیوں 1باب 12آیت)۔ ہمیں ہمیشہ ہی اِس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اِس کائنات میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں پر اگر ہم چلے جائیں تو خُدا کا فضل ہم تک نہ پہنچ سکے اور ایسی کوئی گہرائی نہیں جس میں اگر ہم گر جائیں تو خُدا ہمیں وہاں سے کھینچ نہ نکالے۔ اُس کا فضل ہمارے تمام طرح کے گناہوں سے بڑا ہے۔ چاہے ہم خُدا کے فضل اور اپنے گناہوں کے تعلق سے ابھی شک کا شکار ہونے لگے ہیں یا پہلے سے ہی اپنے گناہ میں ڈوبے غوطے کھا رہے ہیں ، پھر بھی ہم ایسی حالت میں خُدا کے فضل کو حاصل کر سکتے ہیں۔

فضل خُدا کی طرف سے بخشش (تحفہ ) ہے (افسیوں 2باب8آیت)۔ جب ہم گناہ کرتے ہیں تو رُوح القدس ہمیں مجرم ٹھہراتا ہے جس سے ہمارے اندر خُدا پرستی کا غم پیدا ہوتا ہے (2 کرنتھیوں 7 باب 10-11آیات)۔ وہ ہماری رُوحوں کو ایسے قصور وار نہیں ٹھہرائے گا گویا ہمارے لیے کوئی اُمید ہی نہ ہو، کیونکہ وہ سب جو مسیح میں ہیں اُن پر سزا کا کوئی حکم نہیں ہے (رومیوں 8باب1آیت)۔ جب رُوح ہمیں مجرم ٹھہراتا ہے تو اِس کے پیچھے دراصل خُدا کے ہمارے لیے پیار اور فضل کی تحریک ہوتی ہے۔ لیکن خُدا کا فضل گناہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہے۔ (رومیوں 6باب 1-2آیات)، اور کسی کو بھی اِس کا غلط استعمال کرنے کی جرات نہیں کرنی چاہیے، مطلب یہ ہے کہ گناہ کو ہمیشہ ہی "گناہ" کہنا چاہیے اور گناہ کو کبھی بھی کوئی ایسی چیز تصور نہیں کرنا چاہیے جو بے ضرر اور غیر موثر ہوتی ہے۔ وہ ایماندار جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کی اُن پر بڑی محبت کے ساتھ اُن کے گناہوں کو ظاہر کرنا چاہیے اور اُن کی رہنمائی کی جانی چاہیے کہ وہ اپنی آزادی کی حدبندیوں کو جانیں ، اور غیر ایمانداروں کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ اُنہیں توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں گناہ کے علاج پر بھی زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں "فضل پر فضل" دیا گیا ہے (یوحنا 1 باب 16آیت)۔فضل ہی اِس چیز کی وضاحت کرتا ہے کہ ہم کس طرح زندگی گزارتے ہیں، کس طرح بچائے جاتے ہیں، کسی طرح پاک ٹھہرائے جاتے ہیں، اور کس طرح محفوظ رکھے اور جلالی حالت میں پہنچائے جاتے ہیں۔ آئیے جب بھی ہم سے گناہ سرزد ہو جائے تو اُن کا خُدا کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے اور اُن سے توبہ کرتے ہوئے خُدا کے فضل کو حاصل کریں۔ جب خُداوند یسوع مسیح ہمیں خُدا کی حضوری میں پاک اور مکمل ہونے کی پیشکش کرتا ہے تو پھر اُس صورت میں ہم گناہ آلود زندگی کیونکر گزاریں؟

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

اگر آپ بار بار ایک ہی گناہ کرتے رہیں تو کیا خُدا مسلسل طور پر آپکو معاف کرتا رہے گا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries