سوال
کیا انسان واقعی ہی آزاد مرضی رکھتے ہیں؟
جواب
اگر "آزاد مرضی" سے مراد یہ ہے کہ خُدا نے انسان کو ایسے انتخابات یا چناؤ کرنے کا اختیار دیا ہے جو حقیقی طور پر اُس کی حتمی یا آخری منزل پر اثر انداز ہوتے ہیں تو یقیناً انسان آزاد مرضی رکھتے ہیں۔ دُنیا کی موجودہ گناہ آلودہ حالت براہ راست طور پر آدم اور حوا کی آزاد مرضی کا نتیجہ ہے۔ خُدا نے انسان کو اپنی صورت و شبیہ پر تخلیق کیا ہے اور اِس میں آزاد مرضی سے انتخاب کرنے کی قابلیت بھی شامل ہے۔
تاہم آزاد مرضی کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ انسان جو چاہے کر سکتا ہے۔ ہماری مرضی اور انتخاب ہماری فطرت کے لحاظ سے محدود ہیں ۔ مثال کے طور پر کوئی شخص نہر کو پار کرنے کےلیے ایک پُل کا انتخاب کر بھی سکتا ہے اور نہیں بھی کر سکتا۔ لیکن دوسری جانب وہ ا ُڑ کر نہر کو پار کرنے کا چناؤ نہیں کر سکتا کیونکہ اُس کی فطرت اُسے اُڑنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ اِسی طرح کوئی شخص اپنی مرضی سےاپنے آپ کو راستباز نہیں بنا سکتا کیونکہ اُس کی گناہ آلودہ فطرت اُسے گناہ کوترک کرنے سےروکتی ہے (رومیوں 3باب 23 آیت )۔ لہذا انسانی فطرت کے پیش ِ نظر آزاد مرضی محدود اور پابند ہے۔
تاہم یہ حد بندی ہماری جوابدہی کو کم نہیں کرتی۔ بائبل واضح طور پر سکھاتی ہے کہ ہم نہ صرف اپنی مرضی سے انتخاب کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں بلکہ ہم عقلمندی سے انتخاب کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ پرانے عہد نامے میں خُدا نے ایک قوم (اسرائیل) کو چُنا لیکن اس کے باوجود لوگوں پر فرض تھا کہ وہ خدا کی فرمانبرداری کرنے کا فیصلہ کریں ۔ اسرائیل سے باہرکے لوگ بھی خُدا پر ایمان لانے اور اُس کی فرمانبرداری کرنے کی آزاد مرضی رکھتے تھے (مثال کے طور پر روت اور راحب)۔
نئے عہد نامے نے گنہگاروں کو "توبہ "کرنے اور "ایمان" لانے کا حکم دیا ہے (متی 3باب 2آیت ؛ 4باب 17آیت ؛ اعمال3باب 19آیت؛ 1یوحنا3باب 23آیت)۔ توبہ کی ہر بلاہٹ کا جواب دینا آزاد مرضی پر مبنی ہے ۔ ایمان لانے کے بارے میں دیا جانے والا حکم یہ واضح کرتا ہے کہ سُننے والا حکم کی فرمانبرداری کرنے میں اپنی مرضی کر سکتا ہے۔
کچھ غیر ایمانداروں کی پریشانی کی نشاندہی کرتے ہوئے یسوع فرماتا ہے کہ " تم زندگی پانے کے لئے میرے پاس آنا نہیں چاہتے" (یوحنا 5باب 40آیت )۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر وہ چاہتے تو زندگی پانے اُس کے پاس آسکتے تھے مگر اُن کا مسئلہ یہ تھا کہ اُنہوں نے یسوع کے پاس آنے کا انتخاب نہیں کیا۔ "آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹے گا" (گلتیوں 6باب 7آیت ) اور غیر نجات یافتہ لوگوں کےلیے " کچھ عُذر باقی نہیں" (رومیوں1باب 20-21آیات)۔
لیکن ایک انسان جو گناہ آلودہ فطرت کے تابع ہے وہ نیکی کا انتخاب کیسے کر سکتا ؟ یہ صرف خُدا کی قدرت اور فضل سے ہی ممکن ہے کہ نجات کو منتخب کرنے کے لحاظ سے انسان کی آزاد مرضی حقیقی طور پر "آزاد" ہو (یوحنا 15باب 16آیت )۔ یہ رُوح القدس ہی ہے جو کسی شخص کے نئے سرے سے پیدا ہونے کے لئے اُس شخص کی آزاد مرضی کے وسیلہ سے کام کرتا ہے(یوحنا 1باب 12-13آیات) اور اُسے نئی فطرت "جو خُدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے" عطا کرتا ہے (افسیوں 4باب 24 آیت)۔ نجات خُدا کی طرف سے ہے۔لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمارے مقاصد، خواہشات اور اعمال ہماری آزاد انہ مرضی پر مبنی ہے اور ہم اُن کے لیے ذمہ دار ہیں۔
English
کیا انسان واقعی ہی آزاد مرضی رکھتے ہیں؟