سوال
کیا خُدا سے مایوس ہونا غلط ہے ؟
جواب
مایوسی دراصل بے صبری اور فکرمندی کا وہ احساس ہے جسے ہم اُس وقت محسوس کرتے ہیں جب ہمیں لگتا ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو رہیں یا جس وقت ہمارا سامنا بظاہر ناقابلِ تسخیر مشکلات کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایسے میں بعض اوقات ہماری ساری بے صبری اور غیر اطمینانی کا مرکز خُدا کی ذات ہوتی ہے –ہم خُدا کی ذات سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ خُدا کی ذات، اُس کے طریقوں اور ہمارے ساتھ اُس کی طرف سے جس سلوک کی اجازت دی جاتی ہے اُس کے ساتھ مایوس ہونا اکثر کسی بھی مسیحی کے لیے ٹھوکر کا باعث ہو سکتا ہے۔ خُدا تو بڑی آسانی کے ساتھ ہمارے مسائل کو حل کر سکتا تھا – پس اُس نے ایسا کیا کیوں نہیں؟خُدا جانتا ہے کہ میری فلاں فلاں ضرورت ہے – ایسے میں خُدا کہاں پر ہے؟شاید ہی کوئی ایسا مسیحی ہو جو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر کسی نہ کسی وجہ سے خُدا کی ذات سے مایوس نہ ہوا ہو۔
یہاں پر مرتھا کا معاملہ دیکھا جا سکتا ہے (لوقا 10باب38-42آیات)۔ خُداوند یسوع مرتھا کے گھر گیا تھا اور اُسکی کوشش تھی کہ وہ خُداوند کی بہت ہی اچھے کھانے کے ساتھ تواضع کرے۔ کلامِ مُقدس بیان کرتا ہے کہ " مر تھا خِدمت کرتے کرتے گھبرا گئی "، جبکہ اُسکی بہن مریم "یسُو ع کے پاؤں کے پاس بیٹھ کر اُس کا کلام سُن رہی تھی۔ "مرتھا نے محسوس کیا کہ اُسے کھانا پکانے کے کام میں کچھ مدد چاہیے لیکن مریم چونکہ اُس کی کوئی مدد نہیں کر رہی تھی اِس لیے اُس کی مایوسی کا احساس اُبل پڑا۔ وہ خُداوند یسوع کے پاس آئی اور کہا "اَے خُداوند!کیا تجھے خیال نہیں کہ میری بہن نے خِدمت کرنے کو مجھے اکیلا چھوڑ دِیا ہے؟ پس اُسے فرما کہ میری مدد کرے۔ " یہاں پر غور کریں کہ مرتھا خُداوند یسوع اور مریم دونوں کی طرف سے مایوس تھی، وہ مریم سے مایوس تھی کہ وہ اُس کی مدد نہیں کر رہی تھی اور خُداوند یسوع سے اِس لیے مایوس ہوئی کہ اُس نے مریم کو "سستی" کرنے کی اجازت دی تھی۔ خُداوند یسوع نے مرتھا اور اُس کے خاندان کو تسلی دی اور کہا کہ "مرتھا ! مرتھا ! تُو تو بہت سی چیزوں کی فِکر و تردُّد میں ہے۔لیکن ایک چیز ضرور ہے اور مریم نے وہ اچّھا حصّہ چُن لِیا ہے جو اُس سے چھینا نہ جائے گا۔ "پس خُداوند نے اِس موقع کو اِس بات کی تعلیم دینے کے لیے استعمال کیا کہ"خاموش ہو جاؤ اور جان لو کہ مَیں خُدا ہُوں " (46 زبور 10آیت)، اور یہ وہ سبق ہے جسے ہم ہمیشہ اپنی مایوسی کے وقت میں بھول جاتے ہیں۔
اِسی طرح کی ایک اور بہت ہی مشہور کہانی یوناہ کی ہے۔ اُسے بھی خُدا کی طرف سے مایوس ہونے کا خاص تجربہ تھا۔ یوناہ نے خُدا کی طرف سے پیغام سُنا لیکن اُسے جو کچھ بتایا گیا وہ اُسے پسند نہیں آیا تھا (یوناہ 1باب1-3آیت الف)۔ اُس نے نا چاہتے ہوئے بھی خُدا کے اُس پیغام کی منادی نینوہ کے لوگوں کے سامنے کی، لیکن اُسے دِلی طور پر اِس بات کا یقین تھا کہ وہ اُس کے پیغام پر کان نہیں دھریں گے اور پھر اُسے خُدا کی طرف سے اُن کی تباہی دیکھ کر بہت زیادہ تسکین ملے گی۔ اِس بات نے یوناہ کو طیش دلا دی کہ نینوہ والوں نے اُس کی منادی پر کان دھر لیا اور حلیمی اختیار کرتے ہوئے توبہ کر لی (یوناہ 3باب 5-10آیات)۔ یوناہ اِس بات کی وجہ سے بہت زیادہ مایوس ہوا۔ اُ س کے ذہن میں موجود عدل و انصاف کے احساس کا خُدا کے رحم کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ اِس معاملے میں مزید خرابی اُس وقت پیدا ہوئی جب وہ بیل بھی سوکھ گئی جس کے سائے میں یوناہ بیٹھا ہوا تھا، اور اب یوناہ سورج کی براہِ راست تپش کے نیچے بے یارومددگار پڑا ہوا تھا۔ یوناہ کی مایوسی اِس حد تک بڑھ گئی تھی کہ وہ مر جانا چاہتا تھا (یوناہ 4باب9آیت)۔ خُدا کو اپنے اُس ناراض نبی کو یہ بتانا پڑا کہ اُس کی سوچ غلط اور خُدا کے منصوبے کے خلاف تھی: یوناہ کو ایک معمولی بیل کی فکر اُس پورے شہر کے لوگوں سے زیادہ تھی۔ مایوسی ہماری واضح طور پر دیکھنے کی قابلیت کو دھندلا دیتی ہے اور ہمارے رحم کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔
کیا خُدا سے مایوس ہونا غلط ہے؟جی ہاں، یہ غلط ہے۔ مایوسی ہماری گناہ آلود فطرت کی پیداوار ہے۔ خُدا کی ذات سے مایوس ہونا اِس بات کا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ہم خُدا پر اعتقاد نہیں رکھتے اور ہم اصل میں خُدا کی ذات کا درست فہم بھی نہیں رکھتے۔ اگر خُدا کامل ہے – اور بائبل بیان کرتی ہے کہ وہ کامل ہے (18 زبور 30آیت) –پھر اُس کی نیت ،مقرر کردہ وقت، طریقے اور اُن کے نتائج بھی کامل ہیں۔ جب ہم اپنے ذہنوں کو خُدا کی ذات پر مرکوز کرتے ہیں اور اُس پر بھروسہ کرتے ہیں تو اُس صورت میں ہماری زندگیوں میں اطمینان و سکون ہی ہوگا نہ کہ مایوسی (یسعیاہ 26باب3آیت)
خُدا سے مایوسی ہماری اپنی ہٹ دھرمی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ جب ہمارے اپنے مقاصد و خواہشات خُدا کے مقاصد کے ساتھ متصادم ہوتے ہیں، تو اُس صورت میں ہم فطری طور پر مایوس ہی ہونگے۔ خُدا کے خلاف لڑنا کبھی بھی درست بات نہیں ہے۔ ترسس کے ساؤل نے اپنا سبق بڑی مشق سے سیکھا، اور یسوع کو اُسے یاد دلانا پڑا کہ "پینے کی آر پر لات مارنا تیرے لئے مشکل ہے " (اعمال 26باب 14آیت)۔ اپنے ہٹ دھرمی کے منصوبوں پر اصرار کرنے کی بجائے عاجزی کے ساتھ خُدا سے کی گئی ایک سادہ سی دُعا ہمیں بہت زیادہ سکون اور اطمینان بخش سکتی ہے۔
خُدا زمینی باپوں کو بتاتا ہے کہ "اپنے فرزندوں کو دِق نہ کرو تاکہ وہ بے دِل نہ ہو جائیں۔ " (کلسیوں 3 باب 14آیت)۔ اِس سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خُدا بھی لازمی طور پر اپنے زمینی فرزندوں کو دِق نہیں کرنا چاہتا ۔ جب ہم خُدا سے مایوس ہوتے ہیں تو یہ دراصل ہماری طرف سے خُدا کی ذات کے ادراک کی کمی ہوتی ہے ، نہ کہ خُدا کی طرف سے کوئی کمی ہوتی ہے۔ خُدا کی طرف مایوسی کے احساسات سے نپٹنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو خُدا کی مرضی ، اُس کی طرف سے مقرر کردہ وقت اور اُس کی بھلائی کے تابع کر دیں۔ "اپنی ساری فِکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فِکرہے۔" (1پطرس 5باب7آیت)
English
کیا خُدا سے مایوس ہونا غلط ہے ؟