سوال
کیا ایک ہم جنس پرست کا مسیحی ہونا ممکن ہے؟
جواب
" کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خُدا کی بادشاہی کے وارِث نہ ہوں گے؟ فریب نہ کھاؤ ۔ نہ حرام کار خُدا کی بادشاہی کے وارِث ہوں گے نہ بُت پرست نہ زِناکار نہ عیاش ۔ نہ لَونڈے باز۔نہ چور ۔ نہ لالچی نہ شرابی ۔ نہ گالِیاں بکنے والے نہ ظالم " (1 کرنتھیوں 6باب9-10آیات)۔ بہت سارے لوگوں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کو تمام گناہوں سے بد تر گناہ کے طور پر پیش کریں۔ اب جبکہ بائبلی رُو سے یہ بات ناقابلِ تردید ہے کہ ہم جنس پرستی انتہائی غیر اخلاقی اور غیر فطری عمل ہے (رومیوں 1باب26-27آیات) لیکن بائبل مُقدس ہم جنس پرستی کو کبھی بھی ایسے گناہ کے طور پر پیش نہیں کرتی جس سے توبہ کرنے پر خُدا کی طرف سے معافی نہ مل سکے۔ اور نہ ہی بائبل مُقدس یہ بیان کرتی ہےکہ مسیحی کبھی بھی ہم جنس پرستی کے گناہ کی وجہ سے کشمکش کا شکار نہیں ہونگے۔ اِس گناہ کی آزمائش مسیحیوں کے اندر بھی موجود ہو سکتی ہے۔
غالباً یہی بات اِس سوال کا اہم نکتہ ہے کہ کیا ایک مسیحی کا ہم جنس پرست ہونا ممکن ہے، یعنی کیا کسی مسیحی کی زندگی میں"ہم جنس پرستی " کی بدولت کشمکش یا جدوجہد پائی جا سکتی ہے۔ ایک مسیحی کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ ہم جنس پرستی کی آزمائش کا شکار ہو۔ بہت سارے ہم جنس پرست جو توبہ کر کے مسیحیت کو قبول کرتے ہیں اُن کی زندگیوں میں ہم جنس پرستی کے احساسات اور خواہشات ابھر کر اُنہیں مختلف طرح کی کشمکش کا شکار بناتی رہتی ہیں۔ بہت سارے ایسے لوگ جو "مخالف جنس پرست" ہوتے ہیں اُن کی زندگیوں میں بھی کبھی کبھار ہم جنس پرستی میں دلچسپی کی چنگاری سلگ اُٹھتی ہے۔ اب کسی شخص کی زندگی میں ایسی خواہشات اور آزمائشوں کا آنا یا پھر نہ آنا اِس بات کا تعین نہیں کرتا کہ کوئی شخص مسیحی ہے یا نہیں۔ بائبل بالکل واضح ہے کہ کوئی مسیحی گناہ سے پاک یا گناہ سےمبّرہ نہیں ہے(1 یوحنا 1باب 8، 10آیات)۔اگرچہ ہر ایک مسیحی کی زندگی میں گناہ/آزمائش کی صورت ہمیشہ ہی مختلف ہوتی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ ہر ایک مسیحی کو اکثر گناہ اور آزمائش کے ساتھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور تمام مسیحی ہی کسی نہ کسی مقام پر اپنی اُس کوشش یا جدوجہد میں ناکام بھی ہوتے ہیں(1 کرنتھیوں 10باب 13آیت)۔
جو چیز ایک مسیحی کی زندگی کو غیر مسیحی کی زندگی سے مختلف بناتی ہے وہ گناہ کے خلاف مسلسل طور پر جدوجہد ہے۔ مسیحی زندگی ایک ترقی پذیر سفر ہے جس میں مسیحی مسلسل طور پر "گناہ کے کاموں" پر غالب آتا چلا جاتا ہے (گلتیوں 5باب 19-21آیات)، اور وہ رُوح کے تابع زندگی گزارنے کے وسیلے سے رُوح القدس کو اپنی زندگی میں پھل پیدا کرنے دیتا ہے (گلتیوں 5باب 22-23آیات)۔ جی ہاں مسیحی گناہ کرتے ہیں، اور کبھی کبھار تو بہت ہی بڑے اور بُرے گناہ کرتے ہیں۔ بہرحال ایک حقیقی مسیحی ہمیشہ ہی اپنے گناہ پر پچھتائے گا ، ہمیشہ ہی خُدا کی طرف رجوع لائے گا اور ہمیشہ ہی گناہ کے خلاف اپنی جدوجہد کو پھر سے شروع کرے گا۔ لیکن بائبل مُقدس میں قطعی طور پر یہ بیان نہیں کیا گیا کہ ایسا شخص جو توبہ کئے بغیر مسلسل طور پر گناہ میں ملوث رہتا ہے وہ کسی طور پر مسیحی ہو سکتا ہے۔ 1 کرنتھیوں 6باب11آیت پر غور کیجئے، "اور بعض تم میں اَیسے ہی تھے بھی مگر تم خُداوندیِسُو ع مسیح کے نام سے اور ہمارے خُدا کے رُوح سے دُھل گئے اور پاک ہُوئے اور راست باز بھی ٹھہرے ۔"
1 کرنتھیوں 6باب9-10آیات ایسے گناہوں کی فہرست پیش کرتی ہیں جن میں اگر کوئی شخص مسلسل طور پر ملوث رہتا ہے اور اُنہیں ترک کر کے توبہ نہیں کرتا تو وہ شخص نجات یافتہ نہیں ہوسکتا –یعنی وہ سچا مسیحی نہیں ہو سکتا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اِس ساری فہرست میں سے ہم جنس پرستی کو نکال لیا جاتا ہے اور اِسی پر بات کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ہم جنس پرستی کی آزمائش سے نبرد آزما نظر آتا ہے تو اُسے غیر نجات یافتہ تصور کر لیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص حقیقت میں ہم جنس پرستی کے عمل میں شامل ہوتا ہے تو اُس شخص کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ لازمی طور پر غیر نجات یافتہ ہے۔ بہرحال اِسی طرح کے نظریات یا مفروضے اُن گناہوں میں ملوث لوگوں کےحوالے سے نہیں لگائے جاتے جن کا ذکراِسی فہرست کے اندر موجود ہے جیسے کہ حرامکاری (فورنیکیشن: شادی سے پہلے جنسی گناہ)، بُت پرستی، زنا، چوری، لالچ، شراب نوشی، دھوکا دہی، گالم گلوچ وغیرہ۔ اگر ایسے گناہوں میں ملوث لوگوں کے بارے میں تصورات قائم کئے بھی جائیں تو اِس شدت کے ساتھ نہیں کئے جاتے جس شدت کے ساتھ ہم جنس پرستی کے بارے میں لوگ سوچتے ہیں۔ اگر حرامکاری (شادی سے پہلے جنسی گناہ) میں ملوث لوگوں کو "غیر تابعدار مسیح" کیا جاتا ہے اور ہم جنس پرستی میں ملوث لوگوں کو غیر مسیحی یا غیر نجات یافتہ خیال کیا جاتا ہے تو ایسے تصورات میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔
اگر تو یہ جزو جملہ "ہم جنس پرست مسیحی" اُن لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ہم جنس پرستی کے گناہ کی آزمائش اور خواہشات کے ساتھ مسلسل طور پر جدوجہد کر رہے ہیں تو پھر یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایسے لوگ مسیحی ہوتے ہیں یا مسیحی کہلاسکتے ہیں۔ جی ہاں ایسا ممکن ہے کہ ایک مسیحی کو ہم جنس پرستی کے گناہ کی آزمائش کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بہرحال ایسے شخص کے لیے یہ اصطلاح یعنی "ہم جنس پرست مسیحی" نہیں استعمال کی جا سکتی کیونکہ وہ ہم جنس پرستی کی خواہشات اور گناہ کے خلاف جدوجہد کر رہا ہےا ور وہ ہم جنس پرست نہیں بننا چاہتا۔ ایسا شخص "ہم جنس پرست مسیحی" نہیں ہے بلکہ ایمان کی راہ میں جانفشانی اور جدوجہد کا شکار مسیحی ہے بالکل اُن لوگوں کی طرح جو حرامکاری، جھوٹ بولنےاور چوری کی عادت کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر "ہم جنس پرست" کی اصطلاح کسی ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بڑی سرگرمی کے ساتھ عملاً مسلسل طور پر ہم جنس پرستی کے عمل میں ملوث ہے اور توبہ نہیں کرتا بلکہ ہم جنس پرستی اُس کی زندگی کا حصہ ہے تو پھر ایسا شخص کسی بھی طور پر ایک سچا مسیحی نہیں ہو سکتا۔
English
کیا ایک ہم جنس پرست کا مسیحی ہونا ممکن ہے؟