سوال
کیا کوئی مسیحی اپنی نجات خُدا کو واپس کر سکتا ہے؟
جواب
اِس سوال کا مختصر ترین جواب ہے "نہیں" ایک سچا مسیحی اپنی نجات خُدا کو واپس نہیں کر سکتا۔ پھر بھی یہ بات کافی عجیب ہے کہ بہت سارے ایسے لوگ جو اِس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ایک مسیحی کسی بھی صورت اپنی نجات کو "کھو نہیں سکتا"، وہ یہ مانتے ہیں کہ ایک ایماندار اپنی نجات خُدا کو واپس کر سکتا ہے۔ جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں وہ ہمیں رومیوں 8 باب 38-39آیات پر لے جائیں گے اور کہیں گے کہ ہاں اگرچہ کوئی بھی چیز ہمیں خُدا کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتی لیکن ہم خود خُدا کی محبت سے جُدا ہونے کا انتخاب کر سکتے ہیں، اپنی آزاد مرضی کی بدولت ہم اپنے آپ کو خُدا سے جُدا کر سکتے ہیں۔ یہ بات نہ صرف غیر بائبلی ہے بلکہ یہ ہر طرح کے منطق کے بھی منافی ہے۔
اِس بات کو سمجھنے کے لیے کہ ہم کیوں اپنی نجات خُدا کو واپس نہیں کر سکتے ہمیں تین چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے: خُدا کی فطرت، انسان کی فطرت اور ہماری نجات کی نوعیت۔ خُدا اپنی فطرت کے لحاظ سے ایک نجات دہندہ ہے۔ صرف زبور کی کتاب کے اندر ہی تیرہ دفعہ خُدا کو انسان کا نجات دہندہ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ خُدا اکیلا ہی ہمارا نجات دہندہ ہے، نہ تو کوئی اور ہمیں بچا سکتا ہے اور نہ ہی ہم خُود اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ "مَیں ہی یہوواہ ہوں اور میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں" (یسعیاہ 43 باب 11آیت)۔ کلامِ مُقدس کے اندر کہیں پر بھی خُدا کو ایسے نجات دہندہ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا جو کسی بھی چیز کے لیے اُن لوگوں پر انحصار کرتا ہے جن کو وہ بچاتا ہے۔ یوحنا 1 باب 13آیت واضح کرتی ہے کہ وہ جن کا تعلق خُدا کے ساتھ ہے وہ اپنی مرضی یا ارادہ سے نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ خُدا کی مرضی سے پیدا ہوئے ہیں۔ خُدا اپنی مرضی سے اور اپنی قدرت سے بچاتا ہے۔ اُس کی مرضی کبھی بھی ناکام نہیں ہوتی اور اُس کی قوت اور قدرت کسی بھی لحاظ سے محدود نہیں ہے (دانی ایل 4 باب 35آیت)۔
خُدا کی طرف سے انسان کی نجات کا منصوبہ یسوع مسیح کے وسیلے سے اپنی تکمیل کو پہنچا جو کہ خود مجسم خُدا ہے جو اِس زمین پر "کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے کے لیے آیا" (لوقا 19باب 10آیت)۔ یسوع نے اِس بات کو بڑا واضح کیا ہے کہ ہم نے اُسے نہیں چُنا بلکہ اُس نے ہمیں چنا اور مقرر کیا ہےتاکہ ہمیں "جائیں اور پھل لائیں" (یوحنا 15 باب 16آیت)۔ نجات یسوع مسیح پر ایمان کے وسیلے سے خُدا کی طرف سے ملنے والی بخشش (تحفہ ) ہے اور یہ اُن کو دیا جاتا ہے جنہیں اُس نے بنایِ عالم سے پہلے ہی چُن لیا ہے اور نجات کو حاصل کرنے کے لیے مقرر کیا ہے اور جن پر رُوح القدس کے وسیلے سے نجات کے لیے مُہر کر دی گئی ہے(افسیوں 1 باب 11-14آیات)۔ پس یہ چیز اِس امکان کو خارج کر دیتی ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی مرضی سے خُدا کی طرف سے اُسے نجات دینے کے منصوبے کو ناکام بنا سکتا ہے۔ خُدا ازل سے کسی شخص کے نجات پانے کا چناؤ اِس لیے نہیں کرے گا کہ وہ شخص جسے وہ نجات دے وہ اُس نجات کو واپس لوٹا کر اُس کے منصوبے کو تباہ و برباد کر دے۔ خُدا کی حاکمیت اور اُس کا علیمِ کُل ہونا ایسی کسی بھی صورتحال کو مکمل طور پر ناممکن بنا دیتا ہے۔
انسان کی فطرت پر غور کیا جائے تو وہ گناہ میں گرنے کی بدولت مکمل طور پر بگاڑ کی حالت میں ہے اور وہ کسی بھی طرح سےاُس وقت تک خُدا کی طرف رجوع کرنے کی خود سےنہ کوئی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی کر سکتا ہے جب تک کہ رُوح القدس کی طرف سے اُس کے دل کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ وہ خُدا کے کلام کو بالکل بھی سمجھ نہیں سکتا۔ وہ شخص جو نئے سرے سے پیدا شُدہ نہیں ہے وہ ناراست، بیکار اور دھوکاباز ہے۔ اُس کا منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہوا ہے۔ اُس کے قدم خون بہانے کے لیے تیز رو ہیں، وہ سلامتی کی راہ سے واقف نہیں اور اُس کی آنکھوں میں خُدا کا خوف نہیں ہے۔ (رومیوں 3 باب 10-18آیات)۔ ایسا کوئی بھی انسان اپنے آپ کو بچانے یعنی نجات دینے کی قابلیت نہیں رکھتا، حتیٰ کہ وہ تو اپنے لیے نجات کی ضرورت کو بھی دیکھ نہیں سکتا۔ صرف اُسی صورت میں اُس کا دل و دماغ خُدا کے حوالے سے تبدیل ہوتا ہے جب وہ رُوح القدس کے وسیلے سے نیا مخلوق بن جاتا ہے۔ اِس کے بعد وہ سچائی کو دیکھتا ہےا ور رُوحانی چیزوں یا باتوں کو سمجھتا ہے (1 کرنتھیوں 2 باب 14آیت؛ 2 کرنتھیوں 5 باب 17 آیت)۔
ایک مسیحی وہ ہے جسے اُس کے گناہوں سے خلاصی دے دی گئی ہے اور اُسے نجات کی راہ پر گامزن کر دیا گیا ہے۔ وہ ایک نیا مخلوق ہے اور اُس کے دل کو خُدا کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اُس کی پرانی فطرت جا چکی ہے بلکہ مر چکی ہے۔ اب اُس کی نئی فطرت خود کو واپس کرنے کی خواہشمند نہیں ہوگی اور پرانی فطرت میں تبدیل نہیں ہونا چاہے گی۔ اُس کی فطرت اور ذات نہیں چاہے گی کہ وہ اپنے گناہ کی وجہ سے ابدیت تک کے لیے جہنم میں ڈالی جائے، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی شخص اپنے دل کے آپریشن میں نیا دل لگوانے کے بعد یہ نہیں چاہے گا کہ اُس کا نیا دل پھر سے نکال لیا جائے اور اُسے پھر سے وہی پرانا بیماریوں کا شکاردل لگا دیا جائے ۔ کسی مسیحی کی طرف سے نجات کو واپس کرنے کا تصور غیر بائبلی ہے اور اِس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
English
کیا کوئی مسیحی اپنی نجات خُدا کو واپس کر سکتا ہے؟