سوال
کیا جماعتی/گروہی/اجتماعی دُعا اہم ہے؟ کیا جماعتی دُعا انفرادی/شخصی دُعا سے زیادہ پُر زور اور پُر اثر ہے؟
جواب
جماعتی یا اجتماعی دُعا کلیسیا کی زندگی کا ایک بہت اہم حصہ ہے جس میں ملکر پرستش کرنا، اپنے مسیحی عقائد پر عمل درآمد کرنا، خُدا وند کی میز پر اُس کے بدن اور خون کی قربانی کی رسم میں شرکت کرتا اور کلیسیائی رفاقت رکھنا شامل ہیں۔ ابتدائی کلیسیا رسولوں سے تعلیم پانے، رفاقت رکھنے ، روٹی توڑنے اور دُعا کرنے میں مشغول رہتی تھی (اعمال 2باب 42 آیت)۔ جب ہم دوسرے ایمانداروں کے ساتھ ملکر دُعا کرتے ہیں تو اِس کا بہت مثبت اثر ہو سکتا ہے ۔ اجتماعی دُعا میں جب ہم یکساں ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو ہماری یہ سرگرمی نہ صرف ہماری اصلاح کرتی ہے بلکہ ہمیں باہمی طور پر متحد بھی کرتی ہے۔ وہ پاک رُوح جو ہر ایک ایماندار میں بسا ہوا ہے ایمانداروں کی باہمی رفاقت اور اجتماعی دُعا کی بدولت ہمارے دِلوں کو خوشی اور خُداوند کی پرستش سے بھر دیتا ہےاور ہمیں ایک ایسے منفرد بندھن میں باندھتا ہے جو زندگی میں کہیں اور پر نہیں پایا جاتا ۔
وہ لوگ جو اپنی زندگیوں کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں جب اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ خُدا کے فضل کے تخت کے سامنے اُن کے لیے التجائیں اور دُعائیں کر رہے ہیں تو یہ بات اُن کے لیے بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی ہوتی ہے۔جب ہم دوسروں کے لیے شفاعت کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے اندر بھی دوسروں کے لیے محبت اور فکرمندی کو پیدا کرتی اور بڑھاتی ہے۔ اور اِس کے ساتھ ساتھ جماعتی دُعا اُس جماعت میں شامل تمام افراد کے دلوں کے عکس کو ظاہر کرے گی۔ ہمیں خُدا کے حضور میں حلیمی (یعقوب 4باب16 آیت)، سچائی، (145 زبور 18 آیت)، تابعداری (1 یوحنا 3باب 21-22 آیات)، شکر گزاری (فلپیوں 4باب 6 آیت) اور اعتماد (عبرانیوں 4باب 6 آیت) کے ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہاں پر ایک افسوس کی بات بھی ہے اور وہ یہ کہ جماعتی دُعا اُن لوگوں کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم ثابت ہو سکتی ہے جن کی دُعاؤں کے الفاظ خُدا کے لیے نہیں بلکہ دیگر لوگوں کو سُنانے کے لیے ہوتے ہیں۔ خُداوند یسوع ہمیں ایسے رویے کے حوالے سے خبردار کرتا ہے اور متی 6باب5-8 آیات میں ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ ہم اپنی دُعاؤں میں دکھاوا نہ کریں، لمبی لمبی دُعائیں نہ کریں یا اپنی دُعاؤں میں ریا کاری نہ کریں۔ اِس کے برعکس وہ ہمیں تلقین کرتا ہے کہ اپنی کوٹھری میں جا کر تنہائی میں دُعا کریں تاکہ ہم دُعا کو لیکر ریاکارانہ رویے سے بچ سکیں۔
کلامِ مُقدس کے اندر ہمیں کہیں پر بھی اِس طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اجتماعی دُعائیں انفرادی یا شخصی دُعاؤں سے زیادہ طاقتور ہیں اور اُن کے نتیجے میں خُدا کا ہاتھ جلدی حرکت میں آتا ہے۔ بہت سارے مسیحیوں کے لیے دُعا اصل میں خُدا سے مختلف چیزیں حاصل کرنے کا نام ہے اور ایسے میں اجتماعی دُعا ایک ایسا موقع بن جاتا ہے جس میں ہم عام طور پر اپنی ضروریات کی لمبی فہرست خُدا کے سامنے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ بائبلی دُعا کے بہرحال کئی ایک پہلو ہیں جس میں پاک، راستباز اور کامل خُدا کے ساتھ شعوری اور انتہائی قریبی تعلق استوار کرنا شامل ہے۔ ایسی رفاقت کہ پھر وہ خُدا اپنا کان اپنی مخلوق کی طرف جھکائے اور اُس کے نیتجے میں اُس کے پیروکاروں کی زندگیوں سے اُس کے لیے حمدو ستائش جاری ہو جائے (27زبور4 آیت؛ 63 زبور 1-3 آیات)، ایسی دُعا دل سے توبہ اور اپنی خطاؤں کا اعتراف کرنے کے قابل بناتی ہے(51 زبور؛ لوقا 18باب 9-14 آیات)، اور ہم اپنی درخواستیں منت اور شکر گزاری کے ساتھ خُدا کے سامنے پیش کرتے ہیں(فلپیوں 4باب 6 آیت؛ کلسیوں 1باب 12 آیت)، اور ہمارے اندر دوسروں کے لیے پُرخلوص شفاعتی التجائیں کرنے کی عادت جنم لیتی ہے(2 تھسلنیکیوں 1باب 11 آیت؛ 2 باب 16 آیت)۔
پس دُعا دراصل خُدا کے ساتھ اِس بات کے لیے تعاون کرنا ہے کہ ہم اِس زمین پر اور اپنی زندگیوں میں اُس کے منصوبے کو پورا ہونے دیں نہ کہ اُس سے اپنی مرضی منوانے کی کوشش کریں۔ جس وقت ہم اپنی خواہشات کو اُس کی تابعداری کرنے کی خاطر مسترد کر دیتے ہیں جو ہر طرح کے حالات سے ہم سے بہت زیادہ اور بہتر طور پر واقف ہے، اور ہمارے مانگنے سے بھی پہلے ہماری ضروریات کو جانتا ہے (متی 6باب 8 آیت)تو اُس وقت ہماری دُعا اور دُعائیہ زندگی بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ جب بھی کوئی دُعا خُدا کی پاک مرضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُسکی تابعداری میں اُس کے حضور پیش کی جاتی ہے تو پھر وہ دُعا چاہے ایک شخص نے کی ہو یا پھر ہزاروں نے ، اُس دُعا کا جواب ہمیشہ ہی مثبت طریقے سے ملتا ہے۔
یہ تصور کہ جماعتی دُعا انفرادی اور شخصی دُعا سے زیادہ پُر اثر یا پُر زور ہے اور خُدا کے ہاتھ کو جلد حرکت میں لاتی ہے در اصل متی 18 باب 19- 20 آیات کی غلط تفسیر کی بدولت لوگوں کے ذہن میں آتا ہے جہاں پر مرقوم ہے کہ "پھر مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے دو شخص زمین پرکسی بات کے لئے جسے وہ چاہتے ہوں اِتفاق کریں تو وہ میرے باپ کی طرف سے جو آسمان پر ہے اُن کے لئے ہو جائے گی۔کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اِکٹھے ہیں وہاں مَیں اُن کے بیچ میں ہُوں۔" یہ آیت ایک بہت بڑے حوالے میں سے لی گئی ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ اگر کلیسیا کے اندر کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اُس کے حوالے سے کس طرح سے یا کس ترتیب سے چیزوں کو کرنا ہے۔ اگر کوئی اِس کی تفسیر اِس طرح سے کرے کہ یوں ملکر دُعا کرنا خُدا کی طرف سے ایمانداروں کے ہاتھوں میں ایک بینک کے ایسے چیک کو تھما دینا ہے جس پر ابھی رقم بھرنی باقی ہے اور ایماندار جس بات پر بھی اتفاق کر کے اُس سے مانگیں گے وہ اُنہیں مل جائے گی چاہے وہ کیسی گناہ آلود یا احمقانہ ہی کیوں نہ ہو تویہ تفسیرنہ صرف کلیسیائی اصول و ضوابط کے سیاق و سباق کے خلاف ہوگی، بلکہ یہ باقی کے کلام ، بالخصوص خُدا کی حاکمیت کی بھی نفی کرے گی۔
مزید برآں یہ ایمان رکھنا کہ جب "دو یا تین جمع " ہو کر دُعا کرتے ہیں اور اُس کی صورت میں کوئی جادوئی طاقت پیدا ہوتی ہے اور ہماری دُعا کو زیادہ پُر زور اور پُر اثر بناتی ہےبائبل کی تعلیمات کی روشنی میں ایک غلط تصور ہے جس کی بائبل کا کوئی حوالہ پشت پناہی نہیں کرتا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب دو یا تین لوگ ملکر دُعا کرتے ہیں تو خداوند یسوع اُن کے درمیان میں حاضر ہوتا ہے، لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب ایک ایماندار دُعا کر رہا ہوتا ہے تو بھی یسوع اُس کے پاس اُسی طرح حاضر اور موجود ہوتا ہے، اور اگر وہ اکیلا شخص دوسروں سے ہزاروں میل دور کے فاصلے پر ہو تو بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اجتماعی دُعا اہم ہے کیونکہ یہ ہم سب میں اتحاد کو پیدا کرتی ہے (یوحنا 17باب 22-23 آیات)، یہ ایمانداروں کے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کےلیے بھی بہت اہم ہے (1 تھسلنیکیوں 5باب 11 آیت) اور یہ محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لیے ایک دوسرے کا لحاظ رکھنے میں مدد کرتی ہے (عبرانیوں 10باب 24 آیت)۔
English
کیا جماعتی/گروہی/اجتماعی دُعا اہم ہے؟ کیا جماعتی دُعا انفرادی/شخصی دُعا سے زیادہ پُر زور اور پُر اثر ہے؟