سوال
اپنے دِل کی حفاظت کرنے سے کیا مُراد ہے ؟
جواب
امثال 4باب23-26 آیات ایمانداروں کو ہدایت کرتی ہیں کہ "اپنے دِل کی خوب حفاظت کرکیونکہ زِندگی کا سرچشمہ وُہی ہے۔کج گو مُنہ تجھ سے الگ رہے۔ دروغ گو لب تجھ سے دُور ہوں۔تیری آنکھیں سامنے ہی نظر کریں اور تیری پلکیں سیدھی رہیں۔اپنے پاؤں کے راستہ کو ہموار بنااور تیری سب راہیں قائم رہیں۔نہ دہنے مُڑ نہ بائیں اور پاؤں کو بدی سے ہٹا لے۔" جب سلیمان دِل کی حفاظت کی بات کرتا ہے تو اِس کا مطلب واقعی ہی کسی شخص کی اندرونی ذات ہے یعنی خیالات، احساسات، خواہشات، مرضی اور وہ انتخاب جو اُس شخص کو ویسا بناتے ہیں جیسا کہ وہ ہے۔ بائبل ہمیں بتاتی ہےکہ ہمارے خیالات اکثر ہمیں وہ بناتے ہیں جو کچھ کہ ہم ہیں (امثال 23باب7 آیت؛ 27باب19 آیت)۔صرف انسان کا کلام اور اعمال ہی نہیں بلکہ اُس کا دِل ہی اِس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ حقیقت میں کون ہے۔ اِس لیے خُدا انسان کے دِل پر نگاہ کرتا ہے نہ کہ اُس کی ظاہری شکل و صورت پر (1 سموئیل 16باب7 آیت)۔
جس طرح ایسی بہت ساری بیماریاں اور عارضے ہیں جو جسمانی دِل کو متاثر کرتے ہیں اُسی طرح رُوحانی دِ ل کی بھی بہت سی بیماریاں ہیں جو ایک ایماندار کے اندر رُوحانی ترقی اور بڑھوتری کو بُری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ ایتھروسکلیروسس/Atherosclerosisدِل کی شریانوں کی دیواروں پر کولیسٹرول کے جمع ہو جانے کی وجہ سے شریانوں کے سخت ہو جانے کو کہا جاتا ہے۔ رُوحانی دِل بھی اِس طرح کی سختی کا شکار ہو سکتا ہے۔ رُوحانی طور پر دِل کی سختی اُس وقت ہوتی ہے جب ہمارا سامنا خُدا کی سچائی کے ساتھ ہوتا ہے اور ہم اُسے تسلیم کرنے یا قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
اگرچہ مصر پر اُس وقت یکے بعد دیگرے بہت ساری آفتیں آئیں جب فرعون نے اسرائیلوں کو غلامی سے آزاد کرنے سے انکار کر دیا، لیکن اُس نے اِس سچائی کے خلاف اپنے دِل کو سخت کر لیا تھا کہ خُدا اپنی قوم بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کرنا چاہتا ہے (خروج 7باب22 آیت؛ 8باب32 آیت؛ 9باب34 آیت)۔ 95 زبور 7-8 آیات کے اند داؤد بادشاہ نے اپنے لوگوں سے درخواست کی کہ خُدا کے خلاف بغاوت میں اپنے دِلوں کو اُس طرح سے نہ سخت کریں جیسے کہ اُنہوں نے بیابان میں کیا تھا۔ ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو دِل کو سخت کرتی ہیں اور ایک شخص کو خُدا کی ذات کا انکار کرنے کی طرف لے جاتی ہیں ۔ جس طرح کولیسٹرول خون کے بہاؤ کو روکتا ہے اُسی طرح یہ چیزیں ایک ایماندار کی زندگی میں خُدا کی اطاعت کے وسیلے ملنے والی سلامتی اور برکتوں کے آزاد بہاؤ کو روکتی ہیں۔ اِس لیے خُدا کے خلاف بغاوتی جذبے سے بچنا اور اُسکے کلام کی تابعداری کا جذبہ پیدا کرنا دِل کی حفاظت کرنے کا پہلا قدم ہے۔
دِل کے وَالوَ (Valves) خراب ہونے کی وجہ سے خون کی گردش بے ترتیب ہو جاتی ہےجس سے دِل کی بڑبڑاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ دِل کے وَالوَ دروازوں جیسے ہوتے ہیں اور خون کی گردش کے دوران خون کو واپس دِل میں آنے سے روکتے ہیں۔ رُوحانی دِل کی بُڑ بُڑاہٹ اُس وقت شروع ہوتی ہے جب ایماندار شکایت، چغل خوری، تنازعات اور جھگڑوں میں پڑ جاتے ہیں۔ ایمانداروں کو بہت دفعہ یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ شکایت کرنے اور بُڑبُڑانے سے گریز کریں (خروج 16باب3 آیت؛ یوحنا 6باب43 آیت؛ فلپیوں 2باب14 آیت)۔ اِس طرح کی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے ایماندار اپنی توجہ کو خُدا کے منصوبوں، مقاصد اور اُسکی طرف سے ملنے والی ماضی کی سبھی نعمتوں سے ہٹا کر دُنیا کی چیزوں پر مرکوز کر دیتے ہیں۔ خُدا ایسے رویے کو ایمان کی کمی کے طور پر دیکھتا ہے اور بغیر ایمان کے خُدا کو پسند آنا ممکن نہیں ہے (عبرانیوں 11باب6 آیت)۔ اِس کے برعکس مسیحیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر ایک چیز میں قناعت پسندی کا مظاہرہ کریں ، خُدا پر بھروسہ کریں کیونکہ خُدا مناسب وقت پر وہ چیزیں عطا کرتا ہے جو اُس کی طرف سے متعین کردہ مناسب وقت پر درکار ہوتی ہیں۔ شکایتی رویے سے بچنا اور اپنے دِل میں شکرگزاری اور خُدا پر اعتماد کرنے کا جذبہ پیدا کرنا دِل کی حفاظت کی طرف دوسرا قدم ہے۔
کونجسِٹیو ہارٹ فیلئردِل کی دیواروں کے اندر پائی جانے والی اُس کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم کے اندر خون کو پمپ کرنا دِل کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ یہ بیماری بہت زیادہ اعصابی تناؤ (ہائی بلڈ پریشر)، مایو کارڈیل انفارکشننر(دِل کے دورے) اور دِل کے غیر معمولی بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اِس بیماری کے رُوحانی مترادف غصہ، آزمائش میں پڑنا اور غرور ہے ۔ غصہ جسم پررُوحانی اور جسمانی طور پر ویسا ہی اثر کرتا ہے جیسا کہ زہر کا اثر ہوتا ہے، اور ایمانداروں کو اپنے اعمال اور الفاظ کے ذریعےسے دوسروں کو دُکھ پہنچانے کی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ افسیوں 4باب31-32 آیات ہمیں ہدایت کرتی ہیں کہ " ہر طرح کی تلخ مزاجی اور قہر اور غُصّہ اور شور و غُل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تم سے دُور کی جائیں۔اور ایک دُوسرے پر مہربان اور نرم دِل ہو اور جس طرح خُدا نے مسیح میں تمہارے قصور مُعاف کئے ہیں تم بھی ایک دُوسرے کے قصور معاف کرو۔ "
ہر ایک مسیحی شیطانی قوتوں کے ساتھ ایک مستقل اور شدید قسم کی جنگ کی حالت میں ہے۔ ہم میں سے بہت سارے بیرونی رُوحانی جنگ لڑنے کے لیے اِس قدر زیادہ ارادہ رکھتے ہیں کہ ہم اِس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہماری زیادہ تر جنگ بیرونی قوتوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے ذہن اور خیالات کے ساتھ ہوتی ہے ۔ یعقوب 1باب14-16 آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ " ہاں ۔ ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔پھر خواہش حامِلہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے اور گُناہ جب بڑھ چکا تو مَوت پَیدا کرتا ہے۔اَے میرے پیارے بھائیو ! فرِیب نہ کھانا۔ " گناہ ہمیشہ ہی ذہن کے اندر شروع ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے کہ گناہ عملی طور پر کیا جائے انسان کے اندر جنم لینے والی خواہش حاملہ ہوتی ہےا ور گناہ کو عملی طور پر پیدا کرتی ہے۔ اِس لیے دفاع کی پہلی لائن یہ ہونی چاہیے کہ ایماندار غلط خیالات پرغور تک کرنے سے انکار کر دے۔ پولس رسول ہمیں کہتا ہے کہ ہم ہر ایک خیال کو قید کر کے مسیح کا فرمانبردار بنائیں (2 کرنتھیوں 10باب3-5 آیات)۔
امثال 16باب18 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہلاکت سے پہلے تکبر اور زوال سے پہلے خود بینی ہے۔ امثال 16باب5 آیت بیان کرتی ہے کہ " ہر ایک سے جس کے دِل میں غرُور ہے خُداوند کو نفرت ہے۔یقیناً وہ بے سزا نہ چُھوٹے گا۔ "شیطان کا بھی سب سے پہلا عظیم گناہ تکبر ہی تھا، جب اُس نے سوچا کہ وہ خُدا کی مانند ہو سکتا ہےا ور اُس نے آسمان کے ایک تہائی فرشتوں کو بھی خُدا کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا (حزقی ایل 28باب17 آیت)۔ اِسی وجہ سے شیطان کو آسمان پر سے نکال پھینکا گیا تھا۔ شیطان نے بھی باغِ عدن کے اندر حوّا کو آزمایا اور اُس کی اَنا کو جگایا اور اُس کے دِل میں یہ بات ڈالی کہ وہ اور آدم خُدا کی مانند بن سکتے ہیں ۔ اُس نے اُن سے کہا کہ " تُم ہرگِز نہ مَرو گے۔بلکہ خُدا جانتا ہے کہ جس دِن تم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تم خُدا کی مانِند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔ " حوّا خُدا کی مانند عقلمند بننا چاہتی تھی اِس لیے اُس نے نیک و بد کے درخت کا پھل کھانے کے شیطانی مشورے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لہذا تکبرہی سے انسان بھی گناہ میں گرا۔ شیطان نہیں چاہتا تھا کہ انسان خُدا کی پرستش کرے بلکہ وہ چاہتا تھا کہ انسان خود ہی اپنا خُدا بن جائے –اپنے لیے حقیقت، معنی اور اخلاقیات کا تعین کرے۔ یہ چیز شیطانی فلسفے، جادو، لادین انسانیت پرستی اور نئے دور کے پُراسرار فلسفوں کی بنیاد ہے۔
غصے،تکبر اور آزمائش سے بچنا بھی دِل کی حفاظت کے اہم عناصر ہیں۔ پولس رسول ہمیں ہدایت دیتا ہے کہ " غرض اَے بھائیو! جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندِیدہ ہیں اور جتنی باتیں دِلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعرِیف کی باتیں ہیں اُن پر غور کِیا کرو "(فلپیوں 4باب8 آیت)۔ اِن چیزوں پر قائم رہنے سے ہمارے دِلوں کے اردگرد محافظت کی باڑ بنانے میں مدد ملے گی۔
English
اپنے دِل کی حفاظت کرنے سے کیا مُراد ہے ؟