settings icon
share icon
سوال

گناہ کے لیے جہنم میں ابدی سزا کس طرح جائز ہے ؟

جواب


بہت سے لوگ جہنم کی ابدی سزا کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا اُن کے لیے بے چینی کا باعث بنتا ہے ۔ مگر یہ بے چینی اکثر اِن تین باتوں کی ادھوری سمجھ کا نتیجہ ہے :خدا کی فطرت ؛ انسان کی فطرت اور گناہ کی فطرت ۔ گناہ آلودہ ہونے اور اپنی اصل فطرت سے گرنے کے باعث ہم انسانوں کےلیےممکن نہیں کہ ہم خُدا کی فطرت کے تصور کو مکمل طور پر سمجھ سکیں ۔ ہم خدا کو ایک مہربان اور رحمدل ہستی کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اس رجحان کے پیشِ نظر ہم خدا کی دوسری خصوصیات کو یا تو نظرانداز کرتے ہیں یا پھر اُنہیں بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ یقیناً خدا مہربان، رحمدل اور محبت کرنے والا ہے مگر سب سے بڑھ کر وہ مقدس اور پاک خدا ہے ۔ وہ اتنا پاک ہے کہ گناہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ ایسا خُدا ہے جس کا قہر شریروں اور نافرمانوں کے خلاف بھڑکتا ہے (یسعیاہ 5باب 25آیت؛ ہوسیع 8باب 5آیت ؛ زکریاہ 10باب 3 آیت)۔ وہ صرف محبت کرنے والا خُدا نہیں بلکہ و ہ بذات خود محبت ہے لیکن بائبل ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ ہر قسم کی بُرائی سے نفرت کرتا ہے (امثال 6باب 16- 19 آیات)۔ اور اگرچہ وہ رحیم ہےلیکن اُس کی رحمت کی ایک مخصوص حد ہے۔ "جب تک خُداوند مِل سکتا ہے اُس کے طالب ہو۔ جب تک وہ نزدیک ہے اُسے پکارو۔ شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو اور وہ خُداوند کی طرف پھِرے اور وہ اُس پر رحم کرے گا اور ہمارے خُدا کی طرف کیونکہ وہ کثرت سے مُعاف کرے گا" (یسعیاہ 55 باب 6-7آیات)۔

بنی نوع انسان گناہ کے باعث بگاڑ کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ گناہ ہمیشہ ہی براہ راست طور پر خُدا کے خلاف ہوتا ہے۔ جب داؤد بادشاہ نے بت سبع کے ساتھ حرامکاری اور اُوریاہ کو قتل کروانے کے باعث گناہ کیا تو داؤد نے اس گناہ کے ردّعمل میں ایک دلچسپ دُعا کی "مَیں نے فقط تیرا ہی گناہ کیا ہے اور وہ کام کیا ہے جو تیری نظر میں بُرا ہے تاکہ تُو اپنی باتوں میں راست ٹھہرے اور اپنی عدالت میں بے عیب رہے" (51 زبور 4آیت)۔اب چونکہ داؤد نے بت سبع اور اُوریاہ کے خِلاف گناہ کیا تھاتو پھر وہ فقط خُدا کے خِلاف گناہ کرنے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟ داؤد سمجھ گیا تھا کہ سب گناہ بالآخر خُدا کے خِلاف ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ خُدا ایک ابدی اور لامحدود ذات ہے (90 زبور 2آیت) اس وجہ سے تمام گناہ ابدی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ہمارے گناہوں نے خُدا کی پاک، کامل اور لامحدود ذات کو ناراض کیا ہے۔ اگرچہ ہمارے محدود ذہنوں کے مطابق ہمارا گناہ وقت کے تعلق سے محدود ہے لیکن خدا جو وقت کی قید سے آزاد اور گناہ سے نفرت کرتا ہے اُس کے نزدیک گناہ مسلسل جاری رہتا ہے ۔ہمارا گناہ ہمیشہ اُس کے سامنے رہتا ہے اِس لئے ضرور ی ہے کہ اُس کے مقدس انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کےلیے ہمارے گناہ کی سزا بھی ابدی ہو ۔

اِس بات کو جہنم میں موجود شخص کے علاوہ کوئی اور بہتر طور پر سمجھ نہیں سکتا ۔ اِس کی بہترین مثال امیر شخص اور لعزر کی کہانی ہے۔ دونوں مر جاتے ہیں اور امیر شخص جہنم میں جبکہ لعزر فردوس میں چلا جاتا ہے (لوقا 16باب)۔ بے شک امیر شخص اِ س بات سے باخبر تھا کہ اُس نے گناہ صرف اپنی زمینی زندگی کے دوران کئے تھے۔ لیکن جہنم میں عذاب میں مبتلا ہو کر وہ یہ سوال نہیں پوچھتا کہ "یہاں میری سزا کب ختم ہو گی ؟" جہنم میں یہ سوال کبھی نہیں پوچھا جائے گا ۔ وہ یہ نہیں کہتاکہ "کیا مَیں واقعی اِس سزا کا حقدار ہوں ؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ یہ کچھ زیادہ ہی شدید ہے؟ یہ تو حد سے زیادہ ہے؟" وہ صرف یہ کہتا ہے کہ کسی شخص کو اُس کے بھائیوں کے پاس جو ابھی زندہ ہیں بھیجا جائے تاکہ انہیں جہنم کے اندر اپنے بھائی کی قسمت کے بارے میں خبردار کیا جائے ۔

امیر شخص کی طرح جہنم میں موجود ہر گنہگار کو مکمل احساس ہو تا ہے کہ وہ اِسی چیز کا حقدار ہے۔ ہر گنہگارکو اِ س کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ اور مطلع کیا گیا ہے ۔ اُس کے پاس ایک حساس ضمیر ہے جو جہنم میں خود اُس کو ملامت کرتے ہوئے اُس کی ایذا رسانی کا سامان کرتا ہے۔ ایک شخص جو اپنے گناہ سے پوری طرح واقف ہے اُس کا ضمیراُسکی شدید ملامت کرتا رہے گا اور اُسے ایک لمحے کےلیے بھی راحت نصیب نہ ہو گی یہی جہنم میں اذیت کا تجربہ ہے ۔ یہ احساسِ گناہ ،شرمندگی اور انسان کی اپنی ذات کے بارے میں نہ ختم ہونے والی نفرت کو جنم دے گا ۔ امیر شخص جانتا تھا کہ زمینی زندگی میں کئے گئے گناہوں کی ابدی سزا درست اور جائز ہے ۔ یہی وجہ ہے اُس نے جہنم کی سزا کے بارے میں کبھی احتجاج یا کوئی سوال نہیں کیا ۔

ابدی عذاب، ابدی جہنم اور ابدی سزا کے حقائق خوفناک اور پریشان کُن ہیں۔ لیکن یہ اچھا ہے کیونکہ ہمیں جہنم کے بارے میں جان اور سوچ کر واقعی ہی خوفزدہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ یہ احساس ہیبت ناک ہو سکتاہے لیکن ہمارے پاس خوشخبر ی بھی ہے ۔ خُدا ہم سے پیار کرتا ہے (یوحنا 3 باب 16آیت) اور چاہتا ہے کہ ہم جہنم سے محفوظ رہیں (2پطرس 3باب 9آیت )۔ لیکن چونکہ خُدا راست اور نیک ہے وہ ہمارے گناہوں کو سزا کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔ اس لیے کسی نہ کسی شخص کو ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کرنی ہو گی مگر مشکل یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کی قیمت خود ادا نہیں کر سکتا ۔ لہذا خدا نے اپنی عظیم رحمت اور محبت میں ہمارے گناہوں کی قیمت خود ہی ادا کر دی ہے ۔ اُس نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کو بھیجا تاکہ وہ صلیب پر ہماری خاطر قربان ہو کر ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کرے۔ کیونکہ یسوع لامحدود مجسم خُدا ہے جو ہمارے لامحدود گناہوں کی قیمت ادا کرتاہےتاکہ ہمیں جہنم میں ہمیشہ کے لئے اِس کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے اِس لیے یسوع کی موت ایک لامحدود موت تھی (2کرنتھیوں 5باب 21آیت )۔ اگر ہم اپنے گناہوں کا اقرار کریں اور مسیح کی قربانی کی بنیاد پر خُدا سے معافی مانگتے ہوئے مسیح پر ایمان لائیں تو ہم نجات پاتے ہیں،ہمارے گناہ معاف کئےجاتے ہیں، ہمیں پاک کیا جاتا اور ہم سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ ہم آسمان پر ایک ابدی گھر کے وارث ہوں گے۔ خُدا ہم سے اِتنا پیار کرتا ہے کہ اُس نے خود ہماری نجات کے لئے انتظام کر دیا ہے لیکن اگر ہم اُس کے ابدی زندگی کے تحفے کو ردّ کرتے ہیں تو ہمیں اِس فیصلے کے ابدی نتائج کو بھگتنا پڑے گا ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

گناہ کے لیے جہنم میں ابدی سزا کس طرح جائز ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries