سوال
اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا قُدوس قُدوس قُدوس ہے ؟
جواب
بائبل میں یہ جزوِ جملہ" قُدوس قُدوس قُدوس " دو جگہوں پر ملتا ہے ، ایک بار پرانے عہدنامے میں ( یسعیاہ 6باب 3آیت) اور دوسری بارنئے عہد نامے میں ( مکاشفہ 4باب 8آیت)۔ دونوں بار یہ جملہ آسمانی مخلوق کی طرف سے بولا یا گایا گیا ہے اور دونوں ہی بار یہ ایک ایسے شخص کی رویا میں ظاہر ہوتا ہے جسے خدا کے تخت کے سامنے لے جایا گیا تھا ۔ پہلی دفعہ یہ واقعہ یسعیاہ نبی اور دوسری دفعہ یوحنا رسول کی طرف سے بیان کیا جاتا ہے ۔ خدا کی قدوسیت کے تین بار دہر ائے جانے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے ہمارے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کی قدوسیت/ پاکیزگی کا اصل مطلب کیا ہے ۔
خدا کی صفات میں سے اُس کی قدوسیت/پاکیزگی کی وضاحت کرنا سب سےزیادہ مشکل ہے، جزوی طور پر اس لیے کہ یہ خدا کی اُن بنیادی صفات میں سے ایک ہے جو انسان کی فطرت کا حصہ نہیں ۔ ہم خدا کی شبیہ پر پیدا کئے گئے ہیں اور اُس کی بہت سی صفات جیسا کہ محبت ، رحم، وفاداری ، وغیرہ بہت کم درجے تک ہم انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ لیکن خدا کی کچھ صفات جیسے کہ ہمہ جائی ، علیمِ کُل،قادرِ مطلق اور پاکیزگی تخلیق شدہ مخلوقات میں کبھی پائی نہیں جا سکتیں ۔ اسی طرح سے پاکیز گی ایک ایسی خوبی ہے جو موروثی طور پر ہماری فطرت کا حصہ نہیں ہو سکتی ؛ ہم صرف مسیح کی رفاقت میں پاک ٹھہرائے جاتے ہیں ۔اس لحاظ سے یہ ایسی پاکیزگی ہے جو ہم سے منسوب کی جاتی ہے ۔ ہم صرف اور صرف مسیح میں "ہو کر خُدا کی راست بازی " بنتے ہیں ( 2کرنتھیوں 5باب 21آیت)۔ یہ خدا کی پاکیزگی ہی ہے جو اُسے باقی تمام مخلوقات سے الگ اور مختلف بناتی ہے ۔ خدا کی قدوسیت اُس کے کمال یا اُسکی لاخطا پاکی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ؛یہ اُس کی ذات کی" منفرد حیثیت"،اُس کی برتری کا جوہر ہے ۔ خدا کی قدوسیت اُس کے جلال کے بھید کاظہور ہے اور جب ہم اُس کی عظمت کا کچھ فہم پاتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اُسکی ذات کو اور ہی حیران کن بنا دیتا ہے۔
یسعیاہ 6باب میں بیان کردہ رویا میں یسعیاہ نبی خدا کی پاکیز گی کا پہلا گواہ تھا ۔ اگرچہ یسعیاہ خدا کا نبی اور راستباز آدمی تھا مگر خدا کی قدوسیت/پاکیزگی کی رویا کے ردّعمل میں اُسے اپنی ناپاکی اور زندگی کی مایوسی کا احساس ہوتا ہے ۔ (یسعیاہ 6باب 5آیت)۔ یہاں تک کہ خدا کی حضور ی میں موجود وہ فرشتے جو " قُدوس قُدوس قُدوس " پکار رہے تھے اُنہوں نے بھی اپنے چہروں اور پیروں کو اپنے پروں سے ڈھانپا ہو ا تھا ۔ بلاشبہ چہرے اور پیروں کو ڈھانپنا اُس عزت و تعظیم کو ظاہر کرتا ہے جو خدا کی موجودگی کا نتیجہ تھی ( خروج 3باب 4-5آیات)۔ اُس قدوس کی موجود میں اپنی اہمیت سے واقف سرافیم خود کو ممکنہ حد تک چھپائے ہوئے کھڑے تھے ۔ اگر پاک اور مقدس فرشتے یہواہ کی موجودگی میں ایسی عزت و تعظیم کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ہمیں جو ناپاک اور گناہ آلودہ مخلوق ہیں اُس کے قریب جاتے ہوئے کیسا بڑا خوف ماننا چاہیے ! فرشتوں کی طرف سے خدا کی عزت و تعظیم کا مظاہر ہ کرنا ہمیں ہماری اُس دیدہ دلیری کی یاد دلانے کا باعث ہونا چاہیے جو ہم اُس کی پاکیز گی /قدوسیت کی سمجھ سے خالی ہونے کی وجہ سے اکثر لاپرواہی اور بے ادبی سے اُس کے حضور میں داخل ہونے کی صورت میں کرتے ہیں ۔
مکاشفہ 4باب میں بیان کردہ خدا کے تخت کے بارے میں یوحنا کی رویا یسعیاہ کی رویاسے کافی ملتی جلتی ہے۔ ایک بار پھر تخت کے چوگرد موجود جاندار اُس قدوس کی عزت و جلال میں " قُد وس ۔ قُدوس ۔ قُدوس ۔ خُداوند خُدا قادرِ مطلق " پکار رہے تھے ( مکاشفہ 4باب 8آیت)۔ یوحنا ان جانداروں کے بارے میں مزید بیان کرتا ہے جو خدا کے تخت کے چوگرد کھڑے مسلسل طور پر اُس کے نام کی عزت اور جلال اور تعظیم بیان کر رہے تھے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خدا کے تخت کی رویامیں یوحنا کا رد عمل یسعیاہ کے ردعمل سے بالکل مختلف ہے ۔ یہاں پر ایسا کوئی بیان نہیں کہ یوحنا خوف کے باعث گر جاتا ہے اور اُسے اپنی گناہ آلودہ حالت کا احساس ہو تا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یوحنا نے اپنی رویا کے شروع میں ہی جی اُٹھے یسوع کا سامنا کر لیا تھا (مکاشفہ 1باب 17آیت)۔ مسیح یسوع اُس پر ہاتھ رکھتا ہے اور اُس سے کہتا ہے کہ خوف نہ کر ۔ اگر مسیح کا ہاتھ اور صلیب پر ہمارے گناہوں کے کفارہ ادا کرنے کی بدولت اُس کی راستبازی ہم پر ہے تو یوحنا کی طرح ہم بھی فضل کے تخت کے پاس جانے کی دلیری کر سکتے ہیں ( 2کرنتھیوں 5باب 21 آیت) ۔
لیکن" قُدوس قُدوس قُدوس " کےبیان کو تین بار کیوں دہرایا جاتا ہے؟ (لفظ قُدوس کو تین بار دہرانے کےعمل کو بیان کرنے کے لیے (ٹرائی ہیگیون) trihagion کی اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے )۔کسی نام یا اظہار کا تین بار دہرانا یہودیوں میں ایک عام بات تھی ۔ یرمیاہ 7باب 4آیت میں یرمیا نبی کہتا ہے کہ "جھوٹی باتوں پر بھروسا نہ کرو اور یوں نہ کہتے جاؤ کہ یہ ہے خُدا وند کی ہیکل، خُداوند کی ہیکل، خُداوند کی ہیکل" اور یوں وہ یہودی لوگوں کے اپنے عبادتی نظام پر بڑے اعتمادکی نشاندہی کرتا ہے جبکہ وہ نظام ریاکاری اور بد عنوانی پر مبنی تھا ۔ یرمیاہ 22باب 29آیت، حزقی ایل 21باب 27آیت اور 1سموئیل 18باب 23آیت دراصل اِسی طرح تین بار دُہرائے جانے والے بیانات پر مشتمل حوالہ جات ہیں۔ لہذا تخت کے ارد گرد موجود فرشتے جب ایک دوسرے سے یا بلند آواز میں " قُدوس قُدوس قُدوس" پکارتے ہیں وہ قوت اور جذبے کے ساتھ خدا کی اعلیٰ پاکیزگی کی سچائی کا اظہار کر رہےہوتے ہیں ۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو خدا کی حیرت انگیز اور عظیم قدرت کا اظہار کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ ٹرائی ہیگیون trihagion خدا کی تثلیثی فطرت یعنی قادرِ مطلق خدا کی ذات میں تین اقنوم کا اظہار بھی کرتا ہے جو پاکیزگی اور عظمت میں برابر ہیں ۔ یسوع مسیح وہ پاک ذات ہے جس کے بد ن کی قبر میں " سڑنے " کی نوبت نہیں آئی تھی بلکہ جو خدا کے دہنے ہاتھ بیٹھنے کےلیے مردوں میں زندہ کیا گیا ( اعمال 2باب 26آیت: 13باب 33-35آیات)۔ یسوع " مُقدس اور راستباز " ہے ( اعمال 3باب 14آیت) جس کی صلیبی موت ہمیں پاک خدا کے تخت کے سامنےدلیری سے کھڑے ہونے کے قابل بناتی ہے ۔ تثلیث کا تیسرا اقنوم رُوح القدس ہے جس کا نام قادرِ مطلق خدا کی ذات میں پاکیزگی کی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے ۔
خدا کے تخت کے چوگرد" قُدوس قُدوس قُدوس " پکارنے والے فرشتوں کے بارے میں دو رویائیں یہ واضح نشاندہی کرتی ہیں کہ دونوں عہد ناموں میں خدا یکساں ہے ۔ ہم اکثر پرانے عہد نامے کے خدا کو غضب کے خدا کے طور پر اور نئے عہد نامے کے خدا کو محبت کے خدا کے طور پر دیکھتے ہیں ۔ لیکن یسعیاہ اور یوحنا ہمارے سامنے مقدس، عظیم اور پُرجلال خدا کی ایک مربوط تصویر پیش کرتے ہیں جو لاتبدیل خدا ہے ( ملاکی 3باب 6آیت) اور جو آج ، کل بلکہ ابدتک یکساں ہے ( عبرانیوں 13با ب 8آیت)۔ یعقوب 1باب 17آیت بیان کرتی ہے کہ خدا کی ذات میں "نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردِش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔" جس طرح خدا ابدی ہے اُسی طرح اُس کی قدوسیت /پاکیزگی بھی ابدی ہے ۔
English
اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا قُدوس قُدوس قُدوس ہے ؟