سوال
ہم بدسلوکی کرنے والے والدین کی عزت کس طرح کر سکتے ہیں؟
جواب
اگر خُدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہوتا کہ اگر تمہارے ماں باپ اچھے ، مہربان اور تم سے پیار کرنے والے ہیں تو اُن کی عزت کرو تو شاید ایسا کرنا بہت زیادہ آسان ہوتا۔ لیکن خروج 20باب12آیت میں پیش کردہ حکم یہ ہے کہ " تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزّت کرنا۔"افسیوں 6باب1آیت کہتی ہے کہ اُن کے "تابع" رہو۔ دُنیا میں ایسے بہت سارے دُکھ اُٹھانے والے اور جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار لوگ ہیں جن کے لیے اِن احکام کو بالکل اِسی طرح ماننا ناممکن ہے۔ کیا ہمیں بدسلوکی کرنے والے ماں باپ کی بھی عزت کرنی چاہیے؟ اِس حوالے سے ہم کہاں پر لکیر کھینچ سکتے ہیں۔
بد سلوکی کی کئی ایک شکلیں ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بچّے کی پرورش اِس انداز سے کی گئی ہو کہ اُسے اچھے کپڑے، کھانا اور ضرورت کی سبھی چیزیں تو دی گئی ہوں سوائے اُس کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت یعنی والدین کی طرف سے حقیقی پیار اور پسندیدگی کے۔ ممکن ہے کہ اُس کو کبھی جسمانی طور پر کوئی تکلیف نہ پہنچائی گئی ہو، لیکن جیسے جیسے سال گزرتے جاتے ہیں تو اُس کی رُوح اُس کے اندر اِسی طرح مرجھاتی جاتی ہے جیسے روشنی کے بغیر کوئی پودا مرجھاجاتا ہے، ایسا بچّہ محبت کے بالکل معمولی سے اظہار کے لیے بھی ترستا رہتا ہے۔ پھر بالآخر وہ نوجوانی میں قدم رکھتا ہے، ظاہراً ہر ایک چیز بالکل معمول کے مطابق ہی لگتی ہے، لیکن وہ اپنے والدین کی سر مُہری کی وجہ سے اندرونی طور پر اپاہج ہو چکا ہوتا ہے۔
ایک بار پھر چاہے کسی بچّے کو جسمانی طور پر کوئی نقصان تونہ پہنچایا جائےلیکن اُسے بار بار یہی بتایا جائے کہ وہ بالکل بیکار اور اِس دھرتی پر بوجھ ہے تو اُس کی رُوح اُس کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی شکستگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اُس پر آوازیں کسَی جاتی ہیں، اُسے ٹھٹھوں میں اُڑایا جاتا ہے اور پھر بالآخر وہ خود سے کچھ بھی کرنے کی کوششوں کو ترک کر دیتا ہے۔ کیونکہ بہت چھوٹے بچّے فطری طور پر اُن سب باتوں کا یقین کرتے ہیں جو اُن کے والدین اُن کے بارے میں کہتے ہیں۔ اِس طرح کے سلوک کا شکار کوئی بچّہ آہستہ آہستہ اپنے آپ میں گم سُم ہوتا چلا جاتا ہےا ور پھر ایک نظر نہ آنے والی دیوار کے پیچھے چُھپ جاتا ہے اور ایک جیتا جاگتا انسان ہونے کی بجائے محض ایک بے نام سا وجود بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے بچّوں کے ساتھ اُن کی پرورش کے دوران کوئی جسمانی ظلم و ستم تو نہیں ہوا ہوتا لیکن والدین کا ایسا رویہ اُنکی رُوحوں کو اپاہج بنا دیتا ہے۔ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو اُنہیں دوسرے لوگوں کے ساتھ دوستی کے رشتے استوار کرنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ مناسب تعلق استوار نہیں کر سکتے۔
پس بچّوں کا استحصال ایک نامعلوم طریقے سے بھی ہو سکتا ہے۔ بچّوں کا بہت ہی واضح استحصال وہ ہے جس میں اُنہیں مسلسل طور پر نظر انداز کیا جائے، اُنہیں مارا جائے، اور بعض اوقات اُن کے ساتھ جنسی بد سلوکی کی جائے۔ اِس طرح کی بدسلوکی سے بچّوں کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ عمر بھر اُن کے ساتھ رہتا ہے۔ ابھی بڑا سوال یہ ہے کہ :اپنے بچّوں کے ساتھ ایسی بدسلوکی اور ظلم کرنے والے والدین کے تعلق سے ہم خُدا کے اِس حکم کی تعمیل کس طرح سے کریں ؟
وہ لوگ جنہوں نے خُداوند یسوع مسیح کو اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبو ل کیا ہے اُن کا حقیقی باپ آسمان پر ہے جو ہمیشہ ہی اُن کی بھلائی چاہتا ہےاور کبھی بھی اُنہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا (یرمیاہ 29باب11آیت)۔ وہ "یتیموں کا باپ" ہے (168 زبور 5آیت)۔ خُدا ہر ایک چیز حتیٰ کے خوفناک اور گھناؤنے کاموں کو بھی اُن لوگوں کے لیے بھلائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گا جو اُس سے پیار کرتے ہیں (رومیوں 8باب28 آیت)۔ جب ہم اپنی مرضی کو مکمل طور پر اُس کے تابع کر دیں گے تو ہم اپنی زندگی میں اُس کے کاموں کو دیکھیں گے۔ وہ لوگ جن کو محبت اور اعتبار کرنے کا تجربہ نہیں ہے اُنہیں شاید خُدا پر مکمل بھروسہ کرنا نا ممکن معلوم ہو۔ ایسی صورتحال کے شکار کسی شخص کو چاہیے کہ یہ کہتے ہوئے خُدا کی طرف ایک چھوٹا سا قدم بڑھائے کہ "خُداوند مَیں تجھ سے محبت کرنا اور تجھ پر اعتقاد کرنا سیکھنا چاہتا ہوں – میری مدد فرما۔"یسوع "حلیم اور دِل کا فروتن" ہے۔ (متی 11باب 29 آیت)پس ہم بڑے اعتماد کے ساتھ اُس کی حضوری میں جا سکتے اور اپنے سارے مسائل اُس کے سامنےاِس یقین کے ساتھ رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری سُنے گا اور ہمیں جواب بھی دے گا۔ (1 یوحنا 5باب14-15آیات)۔ جب کوئی خُدا کا فرزند اُس پر اعتقاد رکھے گا تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ اُسے اپنے دل میں رُوح القدس کام کرتا ہوا محسوس ہوگا۔ خُدا اُس سنگین دِل کو لے لے گا جو بچپن میں کی گئی بدسلوکی اور استحصال کی وجہ سے سخت ہو گیا تھا اور اُس کی جگہ گوشتین دِل عطا کرے گا (حزقی ایل 36باب26آیت)
وہ شخص جس کے ساتھ بُرا سلوک کیا گیا ہے اُس کے لیے اگلا قدم دوسروں کو معاف کرنے کے لیے رضا مند ہونا ہے۔ یہ بات بھی بالکل نا ممکن محسوس ہوگی، خصوصی طور پر اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنی زندگی میں بُرے ترین استحصال کا سامنا کیا ہو۔ تلخی اور کڑواہٹ اُن کی رُوح کی گہرائیوں میں اُتر چکی ہوتی ہے اور وہ لوہے کی مانند بھاری ہونے کی بدولت اُس میں ڈوبے رہتے ہیں، لیکن ایسا کوئی کام نہیں جو رُوح القدس نہیں کر سکتا، ایسی کوئی چیز نہیں جسے رُوح نرم نہیں کر سکتا اور جس کی وہ صفائی نہیں کر سکتا۔ خُدا کے لیے سب کچھ کرنا ممکن ہے (مرقس 10باب27آیت)۔ ہمار اخُداوند ہمارے دُکھ درد کو سمجھتا ہے؛ " وہ کمزوری کے سبب سے مصلوب کِیا گیالیکن خُدا کی قُدرت کے سبب سے زِندہ ہے" (2 کرنتھیوں 13باب4آیت)۔
خُدا کے سامنے مکمل طور پر سب کچھ ایمانداری کے ساتھ رکھ دینے میں کسی طرح کا کوئی خوف محسوس نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنے ماں باپ کے بد کردار اور بُرے رویوں کو معاف کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تو خُدا سے اِس کے بار ےمیں بات کیجئے۔ یہ سچ ہے کہ معاف نہ کرنا گناہ ہے، لیکن اُسی صورت میں جب ہم جان بوجھ کر کسی کو معاف نہیں کرتے۔ یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے دِل کو پتھر کی طرح سخت کر لیتے ہیں اور اپنے دِل میں یہ عہد کر لیتے ہیں کہ ہم اُن لوگوں کو کبھی معاف کرنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے جنہوں نے ہمیں بہت بُری طرح سے دُکھ پہنچایا تھا۔ خدا کا ایک ایسا فرزند جو اپنے آسمانی باپ کے پاس اُن چیزوں کے حوالے سے مدد کے لیے آتا ہے جن کے متعلق وہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتا، تو اُسے سامنے سے ایک غصیلے، دھمکانے والے اور سزا دینے کے لیے تیار خُدا کا سامنا نہیں ہوگا بلکہ ایک ایسے باپ کا سامنا ہوگا جس کا دِل اُس کے لیے محبت ، ہمدردی، رحم سے بھرا ہوا ہے اور جو اُس کی مدد کرنے کا خواہشمند ہے۔
پس بدسلوکی کرنے والے والدین کی عزت کرنا حقیقی زندگی میں کیسا لگتا ہے؟یہاں پر کچھ عملی مشورے پیش کئے جاتے ہیں: خُدا کے فضل کی مدد سے معاف کرنے کے لیے تیار رہیں۔ معاف کرنے کے لیے رضا مندی کا رویہ خُدا کے نام کو بھی عزت اور جلال دیتا ہےا ور والدین کو بھی عزت دیتا ۔ اپنا استحصال کرنے والوں کے لیے دُعا کریں۔ اِس طرح کی توقعات کو ختم کر دیں کہ آپ کے والدین ویسے والدین بنیں گے جیسے آپ چاہتے ہیں؛ اپنی ہر طرح کی مایوسی اور دُکھ کو اپنے بدسلوکی کرنے والے والدین کی ذات کی قبولیت کے ساتھ بدل ڈالیں۔ جو کام آپ کے والدین نے اچھے کئے اُن کی بناء پر اپنے والدین کے لیے اپنے دِل میں ہمدردی کو جنم لینے دیں۔ اور اُن کی طرف سے محبت کو ظاہر کرنے والی چھوٹی ترین کوشش کے لیے بھی شکرگزاری کا اظہار کریں۔ اپنے والدین کے بارے میں تحقیر آمیز تنقیدی باتیں کرنے سے پرہیز کریں۔ اگر استحصال کرنے والے والدین کے ساتھ رابطہ رکھنا ممکن ہے تو خاص حدود میں رہتے ہوئے اُن کے ساتھ رابطہ رکھیں اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جس میں آپ کو یا آپکے والدین کو گناہ آلود آزمائش کا سامنا کرنا پڑے۔
معاف کرنے اور عزت کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ مستقل طور پر اپنے والدین کے حتمی اختیار کے ماتحت ہی زندگی گزاریں۔ بائبل ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کی عزت کریں لیکن بائبل ہمیں یہ نہیں کہتی کہ ہم مسائل کے شکار خاندان کی جیل میں قید رہیں۔ وہ خاندان جن میں تباہ کن گناہ ہوتے ہیں وہ بچّوں کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور وہ بچّے جو ایسے گھروں سے آزاد ہو کر بھاگ جاتے ہیں اُنہیں خُدا کے خاندان –یعنی کسی حقیقی مسیحی خاندان کے اندر پنا ہ لینے کی ضرورت ہوتی ہے (متی 10باب35-38آیات)۔ مسائل کے شکار خاندانوں میں خود انحصاری، نشہ بازی، تشدد اور حفاظتی حدود کی کمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ یہ خصوصیات کسی بھی بچّے کے گلے میں چکی کے پاٹ کی مانند ہوتی ہیں جو اُنہیں گناہ آلود راستوں کی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ کسی طرح کی بدسلوکی یا استحصال پیدا کرنے والے حالات سے اپنے آپ کو دور کرنا ایسا ہی ہے جیسے کی نشے کی لت پر غالب آنا ہے؛ جب کوئی شخصی سنجیدگی اور پرہیز گاری اختیار کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسے لوگوں کے ساتھ اپنا میل جول نہیں رکھ سکتا جو نشہ بازی میں ملوث ہوتے ہیں (امثال 13باب20آیت)۔
مزید برآں جب کبھی ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنے پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کے ساتھ جسمانی طور پر بد سلوکی کرتے ہیں یا اُن کا جنسی استحصال کرتے ہیں تو ایسے میں بڑے بچّوں کا کام ہے کہ وہ چھوٹے بچّوں کی حفاظت پورے طور پر کریں۔ ایسے میں استحصال کرنے والے والدین سےاُس وقت تک دوری بنا کر رکھنے میں قطعی طور پر کوئی بُرائی نہیں ہے جب تک یہ دوری بنانے کا مقصد انتقام لینا نہ ہو۔ آپ ایک خاص فاصلے پر رہتے ہوئے بھی اپنے والدین کی عزت کر سکتے ہیں۔ یہ بہت دُکھ کی بات ہے کہ کچھ والدین اپنے بچّوں کی قدر نہیں کرتے جس کی وجہ سے اُن کا رشتہ قائم نہیں رہ پاتا۔ ایک ٹوٹے ہوئے رشتے کی خلیج کسی دُکھ سے نہیں بلکہ مسیح کی ذات سے پُر کی جانی چاہیے۔
جب آپ مسیح کے ساتھ اپنے رشتے پر اپنی ساری توجہ مرکوز کر دیں گے تو اُس صورت میں آپ حقیقی شفا اور بحالی کا تجربہ کریں گے۔ نجات کے بغیر کسی بھی انسان کے لیے کوئی اُمید نہیں ہے لیکن مسیح میں ہم سب نیا مخلوق بنتے ہیں جو ہر اُس کام کو کرنے کے قابل ہے جسے کرنے کے لیے یسوع نے اُسے بلایا ہے (2 کرنتھیوں 5باب 17آیت)۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بدسلوکی اور استحصال کرنے والے والدین اپنے رویے اور گناہوں پر پچھتائیں، پس ایسے میں یہ رشتہ نئے سرے سے مسیح کی کثرت سے ملنے والی محبت اور اُسکے فضل کی بنیاد پر دوبارہ تعمیر ہو سکتا ہے۔ آپ کو ایسا نور بننے کی ضرورت ہے جو آپ کے بے راہ روی کے شکار اور غیر نجات یافتہ والدین کی رہنمائی توبہ اور نجات کی طرف کرے (1 کرنتھیوں 9باب19آیت)۔
بالکل اُسی طرح جیسے یسوع نے ہم سے اُس وقت محبت رکھی جب ہم گناہگار ہی تھے، ہم بھی اپنے بدسلوکی کرنے والے والدین کی عزت کر سکتے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ خُدا کا فضل اور اپنی ہمدردی بانٹنا جو اُس کے مستحق نہیں تاکہ خُدا کے نام کو جلال ملے اور خُدا کی تابعداری کرنے والا برکت اور اجر پائے (متی 5باب44-48آیات؛ 1 یوحنا 4باب18-21آیات) یاد رکھیں کہ " سب کے ساتھ میل مِلاپ رکھنے اور اُس پاکیزگی کے طالب رہو جس کے بغیر کوئی خُداوند کو نہ دیکھے گا" (عبرانیوں 12باب14آیت)۔
English
ہم بدسلوکی کرنے والے والدین کی عزت کس طرح کر سکتے ہیں؟