سوال
انسانی رُوح کیا ہے؟
جواب
رُوح انسانی ذات کا غیر مادی/غیر جسمانی حصہ ہے ۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ انسانی رُوح قادرِ مطلق خدا کا وہ دَم ہے جو کہ اُس نے تخلیق کے عمل کی ابتدا میں انسان میں پھونکا تھا:"اور خُداوند خُدا نے زمین کی مٹّی سے اِنسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زِندگی کا دَم پھونکا تو اِنسان جیتی جان ہوا" ( پیدایش 2باب 7آیت)۔ یہ انسانی رُوح ہی ہے جو ہمیں ہماری ذات کا شعور اورکسی حد تک دیگر ایسی نمایاں خصوصیات بخشتی ہے جو " خدا کی ذات" میں پائی جاتی ہیں ۔ انسانی رُوح ہماری عقل ، احساسات ، خوف ، جذبات اور تخلیقی خوبی پر مشتمل ہے ۔ یہ رُوح ہی ہے جو ہمیں جاننے اور سمجھنے کی انوکھی صلاحیت مہیا کرتی ہے (ایوب 32باب 8، 18آیات)۔
رُوح اور دَم کے الفاظ عبرانی لفظ نیشامہ اور یونانی لفظ نیما کے ترجمے ہیں ۔ ان الفاظ کا مطلب " تیز ہوا، دھماکا یا الہام " ہے ۔ نیشامہ زندگی کا وہ ماخذ ہے جو بنی نو انسان کو زندگی بخشتا ہے ( ایوب 33باب 4آیت)۔ یہ نا قابلِ احساس اور اندیکھی انسانی رُوح ہی ہے جو انسان کی ذہنی اور جذباتی موجودگی پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ پولس رسول کہتا ہے کہ " رُوح سب باتیں بلکہ خُدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے "( 1کرنتھیوں 2باب 11آیت)۔ موت کے وقت "رُوح خُدا کے پاس جس نے اُسے دِیا تھا "چلی جاتی ہے ( واعظ 12باب 7آیت؛ اور ایوب 34باب 14-15آیات؛ 104زبور 29-30آیات بھی دیکھیں )۔
ہر انسان کے اندر ایک رُوح ہوتی ہے اور یہ جانوروں کی " رُوح " یا زندگی سے مختلف ہوتی ہے ۔ خدا نے انسان کو جانوروں سے مختلف بنایا ہے ۔ اس لیے کہ خدا نے ہمیں " اپنی صورت اور اپنی شبیہ" پر بنایا ہے ( پیدایش 1باب 26-27آیات)۔ لہذا انسان سوچنے ، محسوس کرنے ، محبت کرنے ، تشکیل دینے، تخلیق کرنے اور موسیقی، مزاح اور فن سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اور یہ انسانی رُوح ہی کے باعث ہے کہ ہم " آزاد مرضی" رکھتے ہیں جو کہ زمین پر موجود دوسری مخلوقات کے پاس نہیں ہے ۔
گناہ میں پڑنے کے باعث انسانی رُوح کو شدید نقصان پہنچا تھا ۔ جب آدم نے گناہ کیا تھا تو خدا کے ساتھ رفاقت رکھنے کی اس کی صلاحیت ختم ہو گئی تھی؛ اُس دن وہ جسمانی طور پر تو نہیں مگر رُوحانی طور پر مرگیا تھا ۔ تب ہی سے انسانی رُوح زوال/گناہ میں پڑنے کے اثرات کو برداشت کر رہی ہے ۔ نجات سے پہلے ہر شخص رُوحانی طور پر " مردہ" ہوتا ہے ( افسیوں 2باب 1-5آیات؛ کلسیوں 2باب 13آیت)۔ مسیح کے ساتھ رفاقت ہماری رُوحوں کو زندہ کرتی اور ہمیں دن بدن نیا بناتی جاتی ہے ( 2کرنتھیوں 4باب 16آیت)۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح پہلے انسان میں خدا کی طرف سے انسانی رُوح پھونکی گئی تھی اسی طرح یوحنا 20باب 22آیت میں پہلے شاگردوں میں رُوح القدس پھونکا گیا تھا :"اور یہ کہہ کر اُن پر پھونکا اور اُن سے کہا رُوح القدس لو" ( اعمال 2باب 38آیت)۔ جیسے آدم خدا کے دم سے جیتی جان ہوا تھا ویسے مسیح میں " نئی مخلوق" کی حیثیت سے ہمیں بھی " خدا کے دم" یعنی کہ رُوح القدس کے وسیلہ سے رُوحانی طور پر زندہ کیا جاتا ہے ( 2کرنتھیوں 5 باب 17آیت؛ یوحنا 3باب 3آیت؛ رومیوں 6باب 4آیت)۔مسیح یسوع کو قبول کرنے کے وقت خدا کا رُوح ہماری رُوح کے ساتھ کچھ اس طرح سے ایک ہو جاتا ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے ۔ یوحنا رسول فرماتا ہے "چونکہ اُس نے اپنے رُوح میں سے ہمیں دِیا ہے اِس سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اُس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں " (1یوحنا 4باب 13آیت)۔
جب ہم اپنے زندگیوں میں خدا کے رُوح کی رہنمائی مانگتے ہیں تو "رُوح خود ہماری رُوح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خُدا کے فرزند ہیں" (رومیوں 8باب 16آیت)۔ خدا کے بچّوں کی حیثیت سے اب ہم اپنی نہیں بلکہ خدا کی رُوح کی رہنما ئی میں چلتے ہیں جو ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی طرف لے کر جاتا ہے ۔
English
انسانی رُوح کیا ہے؟