سوال
اگرخُدا جانتا تھا کہ آدم اور حوّا گناہ کریں گے تو پھر اُس نے اُنہیں تخلیق ہی کیوں کیا ؟
جواب
بائبل مُقدس بیان کرتی ہے کہ خُدا نے ہم سمیت سب چیزوں کو اپنے لیے تخلیق کیا ہے۔ اُس کی تخلیق میں اُسے جلال حاصل ہوتا ہے "کیونکہ اُسی کی طرف سے اور اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کے لئے سب چیزیں ہیں۔ اُس کی تمجید ابد تک ہوتی رہے ۔ آمین " (رومیوں 11باب36 آیت)۔
یہ دیکھنا انتہائی مشکل ہوگا کہ آدم اور حوّا کا گناہ میں گرنا کس طرح سے خُدا کو جلال دینے کے سبب بنا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ لوگ اِس بات سے حیران بھی ہوتے ہونگے کہ اگر خُدا وقت سے پہلے ہی ہر ایک اُس بات کو جانتا تھا جو انسان کرنے کو تھے تو پھر خُدا نے اُنہیں تخلیق ہی کیوں کیا۔
خُدا علیمِ کُل ہے (139 زبور 1-6آیات)، اور وہ مستقبل کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے (یسعیاہ 46باب10 آیت)۔ اِس لیے وہ حقیقت میں اِس بات کو جانتا تھا کہ آدم اور حوّا گناہ کریں گے۔ لیکن پھر بھی اُس نے اُنہیں تخلیق کیا اور اُنہیں آزاد مرضی عطا کی جس کو استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے گناہ کرنے کا انتخاب کیا۔
ہمیں اِس بات کو بڑی ہی احتیاط کے ساتھ اپنے ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ آدم اور حوّا کے گناہ میں گرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ خُدا نے خود گناہ کو تخلیق کیا ہے یا پھر خُدا نے اُنہیں گناہ کے ذریعے سے آزمایا ہے (یعقوب 1باب3آیت)۔ لیکن اِس کے باوجود انسان کا گناہ میں گرنا ایک اہم طریقے سے خُدا کے بنی نوع انسان کی تخلیق کے لیے موجود منصوبے کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔
اگر ہم کچھ ماہرینِ الہیات کی طرف سےکلامِ مُقدس کے "میٹا بیانیہ" (وسیع تر کہانی) پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل کی تاریخ کو تین اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : (1) فردوس ( پیدایش 1-2 ابواب)؛ (2) فردوس کا کھو جانا ( پیدایش 3باب-مکاشفہ 20 باب)؛ اور (3) فردوس کا دوبارہ حصول (مکاشفہ 21-22 ابواب)۔ اب اِس بیانیے کا بڑا حصہ فردوس کے کھو جانے سے فردوس کے دوبارہ حصول کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ اور اِس "میٹا بیانیے" کے مرکز میں صلیب ہے جس کا منصوبہ ابتدا ہی سے بنایا گیا تھا (مکاشفہ 2باب23 آیت)۔
کلامِ مُقدس کا احتیاط کے ساتھ مطالعہ کرنے سے ہم مندرجہ ذیل نتیجے پر پہنچتے ہیں:
1. انسان کے گناہ میں گرنے کو خُدا پہلے ہی سے جانتا تھا۔
2. یسوع مسیح کی مصلوبیت، خُدا کے چُنے ہوئے لوگوں کے لیے کفارہ اُس کی طرف سے پہلے ہی سے مقرر کر دیا گیا تھا۔
3. ایک دن سب لوگ خُدا کے نام اور اُس کے مقاصد کو جلال دیں گے۔ (86 زبور 9 آیت)، "تاکہ زمانوں کے پُورے ہونے کا اَیسا اِنتِظام ہو کہ مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہو جائے ۔ خواہ وہ آسمان کی ہوں خواہ زمین کی " (افسیوں 1باب10 آیت)۔
خُدا کا مقصد ایک ایسی دُنیا کو تخلیق کرنا تھا جس میں اُس کا جلال پوری طرح سے ظاہر ہو سکے۔ خُد اکا جلال ہی اِس ساری تخلیق کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ درحقیقت یہ خُدا کی طرف سے کئے گئے ہر ایک کام کا اہم مقصد ہے۔ اِس کائنات کو خُدا کے جلال کو ظاہر کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا تھا (91 زبور 1 آیت) اور جو خُدا کو جلال دینے میں ناکام رہتے ہیں اُن کے لیے خُدا کا غضب ظاہر ہوتا ہے (رومیوں 1باب18-25 آیات)۔ اور جو دُنیا سب سے بہترین طریقے سے خُدا کے فضل کو ظاہر کرتی ہے وہ یہ ہماری دُنیا ہے –ایک ایسی دُنیا جسے گناہ میں گرنے دیا گیا، اور ایک ایسی دُنیا جسے کفارے کے وسیلے سے بچا لیا گیا، ایک ایسی دُنیا جسے اُس کے اصل کمال کے ساتھ بحال کیا جائے گا۔
خُدا کا غضب اور خُدا کا رحم اُس کے جلال کی دولت کو ظاہر کرتے ہیں، لیکن ہم اِن میں سے کسی ایک کو بھی بنی نوع انسان کے گناہ میں گرنے کے عمل کے بغیر نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہمیں کبھی بھی فضل کی ضرورت ہی نہ پڑتی تو ہم کبھی بھی فضل کو جان نہ پاتے۔ اِس لیے خُدا کا پورا منصوبہ –بشمول انسان کا گناہ میں گرنا، انسان کا چُنا جانا، خلاصی ، اور انسان کے کفارے کا ادا کیا جانا ، خُدا کے نام کو جلال دینے کےمقصد کو پورا کرتا ہے۔ جب انسان گناہ میں گر گیا تو اُس کے فوراً بعد انسان کو فوری طور پر مار نہ دینے کے ذریعے سے خُدا کا رحم ظاہر ہوا۔ خُدا کا فضل آدم اور حوّا کو اپنی برہنگی کو ڈھانپنے کے لیے عطا کئے جانے والے اُن چمڑے کے کُرتوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے (پیدایش 3باب21آیت)۔ خُدا کے صبر اور اُس کی برداشت کو اُس وقت دیکھا جا سکا ہے جب انسان گناہ میں گہرے سے گہرا گرتا چلا گیا۔ ، خُدا کے عدل و انصاف اور اُس کے غضب کو اُس وقت دیکھا جا سکتا ہے جب اُس نے اِس زمین پر ایک طوفان کو بھیجا، اور خُدا کے رحم اور فضل کو اُس وقت دیکھا جا سکتا ہے جب اُس نے نوح اور اُس کے گھرانے کو بچا لیا۔ خُدا کے پاک غضب اور اُس کے کامل انصاف کو مستقبل میں اُس وقت دیکھا جائے گا جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شیطان کے ساتھ نپٹے گا (مکاشفہ 20باب7-10 آیات)۔
خُدا کا جلال اُس کی محبت میں بھی ظاہر ہوتا ہے (1 یوحنا 4باب16آیت)۔ خُدا کی محبت کے لیے ہمارا علم اِس دُنیا کے اندر مسیح کی ذات اور اُس کے صلیب پر مکمل کئے ہوئے کام کے وسیلے سے آتا ہے۔ "جو مُحبّت خُدا کو ہم سے ہے وہ اِس سے ظاہر ہُوئی کہ خُدا نے اپنے اِکلَوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُس کے سبب سے زِندہ رہیں " (1 یوحنا 4باب9 آیت)۔ اگر خُدا نے آدم اور حوّا کو اُن کے گناہ میں گر جانے کے علم کی بنیاد پر پیدا ہی نہ کیا ہوتا – یا پھر اگر خُدا نے اُنہیں مشینوں کی مانند آٹو میٹک طریقے سے چلنے والا بنایا ہوتا جن کی کوئی مرضی نہیں ہوتی – تو اُس صورت میں ہم نے کبھی بھی یہ نہ جانا ہوتا کہ حقیقی محبت کیا ہے۔
خُدا کے جلال کا حتمی مظاہرہ صلیب پر دیکھا گیا تھا جہاں اُس کا غضب، اُس کا انصاف اور اُس کا رحم باہمی طور پر مل گئے تھے۔ تمام گناہ کی راست عدالت صلیب پر کی گئی تھی، اور اُس کے بیٹے کے اِن الفاظ "اَے باپ اِن کو معاف کر " کے اندر خُدا کے فضل کو دیکھا جا سکتا ہے (لوقا 23باب34 آیت)۔ خُدا کی محبت اور اُس کا فضل اُن سب لوگوں میں ظاہر ہوتا ہے جنہیں اُس نے نجات بخشی ہے(یوحنا 3باب16آیت؛ افسیوں 2باب8-10 آیات)۔ اور آخر میں خُدا اُس وقت جلال پائے گا جب اُس کے چُنے ہوئے سارے لوگ فرشتوں کے ساتھ ملکر ساری ابدیت اُس کی پرستش اور عبادت کریں گے اور گناہگار خُدا کی راست عدالت کی بدولت اپنے گناہوں کی ابدی سزا پاتے ہوئے اُس کے نام کے جلال کا باعث ہونگے (فلپیوں 2 باب 11 آیت)۔ اگر آدم اور حوّا گناہ میں نہ گرتے تو ہم کبھی بھی خُدا کے انصاف، فضل، رحم اور اُس کی محبت کو نہ جان پاتے۔
کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ خُدا کی طرف سے انسان کے گناہ میں گرنے کا پہلے سےموجود علم اور اُس کی طرف سے انسان کے گناہ میں گرنے کی تقرری انسان کی آزاد مرضی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر خُدا نے انسان کو اُس کے گناہ میں گرنے کے مکمل علم کے ساتھ تخلیق کیا تھا تو اُس صورت میں اُس گناہ کا ذمہ دار انسان خود کیسے ہے؟ اِس سوال کا بہترین جواب ویسٹ منسڑ اقرار الایمان میں دیکھا جا سکتا ہے:
"خُدا ابدیت سے اپنی نہایت پُر حکمت اور قدوس مرضی سے آزادانہ اور لا تبدیل طور پر وقوع پذیر ہونے والی سب چیزوں کو مقرر کرتا ہے۔ لیکن نہ تو خُدا گناہ کا موجد ہے اور نہ وہ مخلوقات کی آزاد مرضی کو کچھ ضرر پہنچاتا ہے اور نہ ہی وہ ثانوی اسباب کی آزادی کے امکان کو چھینتا ہے بلکہ اُسے قائم کرتا ہے۔" (WFC, III, 1)۔
دوسرے الفاظ میں خُدا نے مستقبل کے تمام واقعات کا ہونا اِس طرح سے مقرر کیا کہ ہماری آزادی اور دیگر چیزوں(جیسے کہ فطرت کے اصولوں ) کا وقوع پذیر ہونا محفوظ رہ سکے۔ عالمِ الہیات اِسے "اتفاقِ یکدلی/مرضی و منظوری" کہتے ہیں ۔ خُدا کی حاکمانہ مرضی اتفاقیہ طور پر ہونے والے ہمارے انتخابات میں ایسے پوری ہوتی ہے کہ ہماری آزاد مرضی ہمیشہ ہی خُدا کی مرضی کو پورا کر رہی ہوتی ہے ("آزاد" سے مُراد یہ ہے کہ ہماری انتخاباب پر بیرونی چیزیں اثر انداز نہ ہوں)۔ یہ انتخابات اور مرضیوں کا بہت ہی پیچیدہ تعامل ہے لیکن خُالق خُدا کسی بھی طرح کی پیچیدگی سے اچھی طرح سے نمٹ سکتا ہے۔
خُدا نے آدم اور حوّا کے گناہ میں گرنے کو پہلے سے دیکھا تھا۔ پھر بھی اُس نے اُنہیں تخلیق کیا تاکہ اُس کے نام کو جلال ملے۔ اُنہیں انتخابات کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔ اگرچہ اُنہوں نے خُدا کی نافرمانی کرنے کا چناؤ کیا، اُن کے انتخابات خُدا کی حتمی مرضی کے پورے ہونے کا ذریعہ بن گئے جس کے وسیلے سے اُس کا پورا جلال ظاہر ہوگا۔
English
اگرخُدا جانتا تھا کہ آدم اور حوّا گناہ کریں گے تو پھر اُس نے اُنہیں تخلیق ہی کیوں کیا ؟