سوال
خُدا کا لا تبدیل ہونا کیا ہے؟
جواب
خُدا کے لاتبدیل (کبھی نہ تبدیل ہونے کی صفت) کے بارے میں پورے کلامِ مُقدس میں بڑے واضح طور پر تعلیم دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ملاکی 3باب6آیت میں خُدا اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ "مَیں خُداوند لاتبدِیل ہُوں " (دیکھیے 23باب19آیت؛ 1 سموئیل 15 باب 29 آیت؛ یسعیاہ 46باب9-11آیت اور حزقی ایل 24 باب 14آیت)۔
یعقوب 1باب 17آیت بھی خُدا کی ذات کے لا تبدیل ہونے کے بارے میں تعلیم دیتی ہے: "ہر اچھی بخشش اور ہر کامِل اِنعام اُوپر سے ہے اور نُوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے جِس میں نہ کوئی تبدِیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردِش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔ "گردش کے سبب سے سایہ پڑنے سے مُراد سورج کے بارے میں ہمارا تصور ہے: سورج کو گرہن بھی لگ جاتا ہے، جب سورج (حقیقت میں زمین ) اپنی جگہ سے ہٹتا ہے تو اُس سے سایہ پیدا ہوتا ہے۔ ہر روز سورج نکلتا ہے اور ڈوب جاتا ہے، یہ ظاہر ہوتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے؛ یہ کسی موسم میں کسی ایک خاص جگہ سے طلوع ہوتا ہے تو کسی دوسرے موسم میں کسی دوسری جگہ سے اور سال کے مختلف موسموں میں اِس کا مقام بدلتا رہتا ہے۔ لیکن خُدا جو کہ رُوحانی طور پر خود نُور ہے اُس کی ذات میں کوئی تاریکی نہیں ہے؛ اُس کی ذات میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں آتی اور اُس جیسی کوئی دوسری ہستی موجود نہیں ہے۔ خُدا پنی فطرت، اپنی کاملیت، اپنے مقاصد، اپنے وعدوں اور اپنی نعمتوں میں بالکل لاتبدیل ہے۔ وہ جو کہ پاک ہے کبھی بھی کسی طور پر بدی کو برداشت نہیں کر سکتا، نہ ہی وہ جو خود نور کا سرچشمہ ہے کسی طرح کی تاریکی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اب جبکہ ہر ایک اچھی بخشش اور کامل انعام اُس کی طرف سےآتا ہے، اِس لیے نہ تو اُس کی ذات سے بدی نکل سکتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کو بدی سے آزماتا ہے (یعقوب 1باب13آیت)۔ بائبل بالکل واضح ہے کہ خُدا کبھی بھی اپنے ارادے، اپنی مرضی یا اپنی فطرت کو تبدیل نہیں کرتا۔
کئی ایک ایسی منطقی وجوہات ہیں جن کی بناء پر خُدا کا لا تبدیل ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ خُدا کی ذات کا تبدیل ہونا نا ممکن ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی چیز تبدیل ہوتی ہے تو پھر وہ تبدیلی تاریخی ترتیب کے لحاظ سے آتی ہے۔ وقت کے اندر اُس تبدیلی سے پہلے بھی ایک نقطہ ہوتا ہےا ور اُس تبدیلی کے بعد بھی ایک نقطہ ہوتا ہے۔ اِس لیے تبدیلی یا تغیر کے رُوپذیر ہونے کے لیے وقت کے ایک خاص دورانیے کی ضرورت ہے۔ لیکن خُدا تو ابدی ہے اور وہ وقت کے دھاروں سے باہر رہتا ہے (33 زبور 11آیت؛ 41 زبور 13آیت؛ 90 زبور 2-4آیات؛ یوحنا 17باب5آیت؛ 2 تیمتھیس 1باب 9آیت)۔
دوسرے نمبر پر خُدا کی ذات کا لا تبدیل ہونا اُس کی کاملیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر کسی چیز کے اندر تبدیلی آتی ہے تو وہ تبدیلی یا تو بہتری کے لیے آتی ہے یا پھر ابتری کے لیے، کیونکہ ایک ایسی تبدیلی جو کسی بھی چیز پر کوئی فرق نہیں ڈالتی وہ حقیقت میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ ایک تبدیلی کے رُو پذیر ہونے کے لیے یا تو کسی ایسی چیز کا اضافہ کیا جاتا ہے جس کی پہلے کمی ہوتی ہے، یہ بہتری کے لیے تبدیلی ہوتی ہے، یا پھر کسی ضروری چیزکی کمی ہوتی ہے اور یہ ابتری کے لیے تبدیلی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ خُدا کامل ہے اِس لیے اُسے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس لیے خُدا کسی بھی صورت میں بہتری کے لیے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اگر خُدا کی ذات میں سے کوئی چیز کم ہو تو بھی وہ کامل نہیں رہے گا، اِس لیے خُدا ابتری کے لیے بھی تبدیل نہیں ہو سکتا۔
تیسرے نمبر پر خُدا کی ذات کا لاتبدیل ہونا اُس کے علیمِ کُل ہونے کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے ذہن /ارادے کو تبدیل کرتا ہے تو اِس کی وجہ کسی ایسی معلومات کا ملنا ہوتی ہے جو پہلے اُس کے پاس نہیں تھی، یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُس شخص کے گرد حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور اُن حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اُسے اپنے رویے اور عمل میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب چونکہ خُدا علیمِ کُل ہے اِس لیے وہ کوئی بھی ایسی نئی چیز نہیں سیکھ سکتا جس کا اُسے پہلے پتا نہیں تھا۔ پس جب بائبل کہیں پر خُدا کے ارادے کی تبدیلی کی بات کرتی ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خُدا تبدیل ہو گیا ہے بلکہ اِس کا مطلب ہے کہ حالات اورواقعات تبدیل ہو گئے ہیں۔ جب خروج 32باب14آیت اور 1سموئیل 15باب11-29آیات خُدا کے ارادے کے تبدیل ہونے کی بات کرتی ہیں تو اِس کا مطلب حالات و واقعات کی تبدیلی کی بناء پر انسان کے ساتھ خُدا کا رویہ یا سلوک تبدیل ہوناہے۔
گنتی 23باب15آیت بڑے واضح طور پر خُدا کے لا تبدیل ہونے کو پیش کرتی ہے : "خُدا اِنسان نہیں کہ جھوٹ بولے اور نہ وہ آدمزاد ہے کہ اپنا اِرادہ بدلے۔ کیا جو کچھ اُس نے کہا اُسے نہ کرے؟ یا جو فرمایا ہے اُسے پُورا نہ کرے؟ " نہیں، خُدا اپنا ذہن کبھی تبدیل نہیں کرتا۔ یہ آیات خُدا کے لا تبدیل ہونے کے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں: وہ تو لا تبدیل اور ناقابلِ تبدیل ہے۔
English
خُدا کا لا تبدیل ہونا کیا ہے؟