سوال
ایک مسیحی کو بانجھ پن کے مسئلے کے ساتھ کیسے نپٹنا چاہیے؟
جواب
بانجھ پن کا مسئلہ کافی کٹھن صورت ِ اختیار کرسکتا ہے خصوصی طور پر اُن جوڑوں کے لئے جو اپنی تمام زندگی بچّوں کے منتظر رہے ہوں ۔ ایسے مسیحی جوڑے اکثر خود کو ایسی حالت میں پا سکتے ہیں جہاں پر وہ سوال کر رہے ہوں کہ " او ہ خُداوندہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے ؟"یقیناً خُدا مسیحیوں کو بچّوں کی محبت اور اُن کی پرورش کی برکت دینا چاہتا ہے ۔ جسمانی طور پر صحت مند جوڑوں کے لئے بانجھ پن کے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والے پہلوؤں میں سے ایک پہلو اِس بات سے نا واقف ہونا ہے کہ آیایہ صورتحال عارضی ہے یا پھر مستقل ۔ اگر یہ عارضی ہے تو اُنہیں کتنا عرصہ انتظار کرنا ہو گا؟ اگر یہ مستقل طور پر ہے تو وہ کیسے جان سکتے ہیں اور ایسی حالت میں اُن کی کیا حکمت ِ عملی ہونی چاہیے؟
بائبل کی بہت سی کہانیوں میں عارضی بانجھ پن کے مسئلے کی تصویر کشی پائی جاتی ہے:
• خُدا نے ابرہام اور سارہ کو ایک بیٹا عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن سارہ نے 90 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے بیٹے اضحاق کو جنم نہیں دیا تھا۔ (پیدایش11باب 30آیت) ۔
• ربقہ کے شوہر اضحاق نے مسلسل دلسوزی سے دُعا کی اور خُدا نے یعقوب اور عیسو کی پیدایش کے وسیلہ سے اُس کی دُعا کا جواب دیا (پیدایش25باب 21آیت) ۔
• راخل نے دُعا کی اور ایک طویل عرصے کے بعد خُدا نے "اُس کے رحم کو کھولا"۔ اُس کے دو بیٹے یوسف اور بِنیمین پیدا ہوئے (پیدایش30باب 1آیت؛ 35 باب 18آیت) ۔
• منوحہ کی بیوی جو ایک عرصے سے بانجھ تھی اُس نے سمسون کو جنم دیا (قضاۃ 13باب 2آیت) ۔
• الیشبع نے اپنے بڑھاپے میں یسوع کےپیش رَو یوحنا اصطباغی کو جنم دیا (لوقا 1باب 7 اور 36آیت) ۔
سارہ، ربقہ اور راخل (بنی اسرائیل قوم کی ماؤں) کا بانجھ پن اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ بالآخر بچے پیدا کرنے کی اُن کی قابلیت خُدا کے فضل اور مہربانی کی ایک علامت تھی۔ تاہم بانجھ جوڑوں کو نہ تو یہ فرض کرنا چاہیے کہ خُدا اپنے فضل اور مہربانی کو اُن سے روکے ہوئے ہے نہ ہی اُن کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ خدا اُن کو کسی طرح کی سزا دے رہا ہے ۔ مسیحی جوڑوں کو اِس حقیقت سے پیوستہ رہنا چاہیے کہ مسیح میں اُن کے تمام گناہ معاف ہو چکے ہیں اور بچے پیدا کرنے کے قابل نہ ہونا خُدا کی طرف سے سزا نہیں ہے۔
لہذا ایک مسیحی بانجھ جوڑے کو کیا کرنا چاہیے؟ ماہرِ امراضِ نسواں اور بانجھ پن کے حوالے سے دیگر خصوصی ماہرینِ سے مشورہ کرنا اچھا ہے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو حمل کی تیاری کے لئے ایک صحت مند طرزِ زندگی گزارنی چاہیے۔ بنی اسرائیل کی ماؤں نے حاملہ ہونے کے لئے مستقل مزاجی سے دُعا کی، لہذا بچّے کے لئے دُعا کو جاری رکھنا کوئی غیر مناسب بات نہیں ہے۔ بہرحال ہمیں خصوصی طور پر اپنی زندگیوں میں خُدا کی مرضی کے لئے دُعا کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے لیے اُس کی مرضی ہے کہ ہماری اُولاد پیدا ہو تو وہ ہمیں اولاد دے گا ۔ لیکن اگر اُس کی مرضی ہے کہ ہم بچّے کو گود لیں،لے پالک بچّوں کے والدین بنیں یا بے اولاد رہیں، توہمیں اُس کی مرضی کو قبول کرنا چاہیے اور خوشی سے خُدا کی تابعداری کرنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ خُدا اپنے پیاروں میں سے ہر ایک کے لئے الٰہی منصوبہ رکھتا ہے۔ خُدا زندگی کا بانی ہے۔ وہ حمل کی اجازت دیتا اور اِسے روک سکتا ہے ۔ خُدا حاکمِ کُل اور ساری حکمت اور علم کا مالک ہے (دیکھیں رومیوں11باب 33- 36آیات )۔ "ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام اُوپر سے ہے اور نُوروں کے باپ کی طرف سے ملتا ہے"(یعقوب1باب 17آیت )۔ ایک بانجھ جوڑے کے لیے اپنے دِلوں کے درد کو بھرنےکی خاطر اِن حقائق کو جاننا اور قبول کرنا بے حد مدد گار ثابت ہو گا۔
English
ایک مسیحی کو بانجھ پن کے مسئلے کے ساتھ کیسے نپٹنا چاہیے؟