settings icon
share icon
سوال

ناقابل تخفیف پیچیدگی کیا ہے ؟

جواب


نا قابلِ تخفیف پیچیدگی کچھ پیچیدہ نظاموں کی اُس خصوصیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جس کے مطابق انہیں کام کرنے کے لیے اپنے تمام انفرادی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ نظام کے کسی بھی جزوی حصے کو ہٹانا/ کم کرنا (یا آسان بنانا) اور پھر بھی اُسکی پیچیدگی اوراُس کی فعالیت کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔

لی ہائی یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل بیہی نے اپنے نموی/تخمی کام Darwin’s Black Box, 1996/ ڈارون کے بلیک باکس میں یہ اصطلاح مرتب کی تھی ۔ اُس نے عام چوہے دان کو ناقابل تخفیف پیچیدگی کی مثال کے طور پر پیش کرنے کے ذریعہ سے اس تصور کو مقبول بنایا تھا ۔ چوہا دان ایک عام پانچ لازمی حصوں سے بنا ہوتا ہے: ایک کیچ/پکڑنے والا قبضہ، ایک سپرنگ، ایک ہتھوڑا، ایک روکے رکھنے والی سلاخ اور ایک بنیاد۔ بیہی کے مطابق اگر اِن حصوں میں سے کسی کو بھی اس تناسب سے موزوں متبادل (یا کم از کم باقی حصوں کی ایک اہم ترتیب ِ نو)کے بغیر تبدیل کر دیا جاتا ہے تو پورا نظام کام کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔

ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر جان میکڈونلڈ نے چوہا دان کی ناقابل تخفیف پیچیدگی سے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ میکڈونلڈ نے اپنی دلیل کو واضح کرنے کے لیے ایک آن لائن تصویری تعار ف تیار کیا ہے (http://udel.edu/mcdonald/oldmousetrap.html پر قابل ِ تخفیف پیچیدہ چوہے دان دیکھیں)۔ بیہی نے بھی میکڈونلڈ کی دلیل کا تردیدی جواب آن لائن شائع کیاہے(دیکھیں A Mousetrap Defended: http://www.arn.org/docs/behe/mb_mousetrapdefended.html)۔ اور یوں چوہے دان کے حوالے سے بحث شدت اختیار کر جاتی ہے ۔ لیکن یہ بحث نقطہ نظر سے ہٹ کر ہے۔ معاملے کا مرکز ی نقطہ یہ نہیں کہ آیا چوہا دان واقعی ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ ہے یا نہیں۔ بلکہ معاملے کا مرکزی نقطہ نا قابل تخفیف پیچیدگی کا تصور ہے۔

بصورت دیگر جب نا قابل تخفیف پیچیدگی کے بے ضرر تصور کا حیاتیاتی نظاموں پر اطلا ق کیا جاتا ہے تو یہ شدید تکرار کا باعث بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے ڈاروّن کے نظریہ ارتقاء کے لیے چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو بلاشبہ علمِ حیاتیات کے میدان میں ایک غالب نمونہ بنا ہوا ہے۔ چارلس ڈارون نے تسلیم کیا "اگر یہ ثابت ہو سکتا کہ کوئی ایسا پیچیدہ عضو موجود ہے جو ممکنہ طور پر متعدد، متواتر، معمولی تبدیلیوں سے تشکیل نہیں پا سکتا تھا تو میرا نظریہ بالکل بے اثر ہوجائے گا" (Origin of Species، 1859صفحہ نمبر 158)۔ بیہی دلیل دیتا ہے کہ "کسی ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ نظام کو سابقہ نظام میں معمولی اور متواتر ردوبدل کے وسیلے براہ راست (یعنی اُس ابتدائی عمل کو لگاتار بہتر بنا کر، جو مسلسل ایک ہی طرح کے میکانکی انداز میں کام کرتا ہے) تیار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی کمی کا شکار سابقہ نظا م کسی نا قابل ِ تخفیف حد تک پیچیدہ نظام کے لیے غیر فعال ہے" (Darwin’s Black Box ، 1996 صفحہ نمبر39)۔

اس بات کو مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ بیہی کا "غیر فعال" سے یہ مطلب نہیں ہے کہ سابقہ نظام کسی بھی طرح کے کام کو سر انجام نہیں دے سکتا - کوئی چوہے دان سپرنگ کے بغیر بھی کام کرسکتا ہے مگر اُس کادباؤ نا ہونے کے برابر ہو گی ۔ یہ اُسی میکانکی طریقہ کار (سپرنگ کے دباؤ سے ہتھوڑے کے چوہے پر زور سے گرنے )کے ذریعے مخصوص کام (چوہے کو پکڑنے) کی خدمت سرانجام نہیں دے سکتا ہے ۔

اس بات سے یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ ناقابل تخفیف پیچیدہ نظام ایسے سابقہ سادہ نظاموں سے تیار ہو سکتے ہیں جو دوسرے غیر متعلقہ افعال کو انجام دیتے ہیں۔ یہ بالواسطہ ارتقاء کی تشکیل کرے گا۔ بیہی نے اعتراف کیا ہے کہ "اگرچہ کوئی نظام ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ ہے ( تو پھر یہ براہ راست تیار نہیں کیا گیا ہو سکتا ہے) مگر کوئی شخص بالواسطہ، متبادل راستے کے امکان کو حتمی طور پر رد نہیں کر سکتا" (ibid ، صفحہ نمبر 40)۔

چوہے دان کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگرپانچ حصوں پر مشتمل سپرنگ کے ساتھ چوہا دان خود کو ایک سادہ غیر فعال شکل سے براہ راست تیار نہیں کر سکتا (اور ڈارون کےفطرتی چناؤ کے وسیلے ارتقا ء کے تصورکے ساتھ ہم آہنگ رہے) تو کیا یہ چارحصوں کے ساتھ سپر نگ کے دباؤ کے بغیر ارتقا پذیر ہو سکتا ۔ لہذا بیہی کے مطابق اُس صورت میں اپنی سادہ شکل سے زیادہ موثر، زیادہ پیچیدہ شکل میں ارتقا پذیر ہونے والا چوہے دان براہ راست ارتقاء کو تشکیل دے گا۔ دباؤ کے بغیر پیچیدہ حالت سے مزید پیچیدہ حالت تک ترقی کرنے والا چوہے دان بالواسطہ ارتقاء کو تشکیل دے گا۔ ناقابل تخفیف پیچیدگی کو براہ راست ارتقاء کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فطرتی چناؤ کے وسیلے ارتقاء سابقہ نظاموں کو صرف پیچیدہ کرنے کا کام نہیں کرتا ہے۔ یہ اُن کو سادہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس طرح ڈاروّن کا ارتقاء اُلٹی سمت میں کام کرتے ہوئے ناقابل تخفیف پیچیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ مشہور کھیل جینگا پر غور کریں۔ یہ ایک ایسا کھیل جس میں کھلاڑی لکڑی کی اینٹوں کے مینار سے اُس وقت تک اینٹیں ہٹاتے رہتے ہیں جب تک کہ یہ گر نہ جائے۔ مینار کی ابتدا لکڑی کی 54 اینٹوں سے ہوتی ہے۔ جیسے جیسے کھلاڑی اینٹوں کو ہٹاتے جاتے ہیں تو مینار کی پیچیدگی میں اُس درجے تک کمی آتی جاتی ہے (یعنی بتدریج اس کے حصے کم ہوتے جاتے ہیں) جب تک کہ یہ ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ نہ ہو جائے (یعنی اگر مزید اینٹوں کو ہٹایا جائے تو مینار گر جائے گا)۔ یہ چیز اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ کس طرح کوئی ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ نظام کسی زیادہ پیچیدہ نظام سے بالواسطہ طور پر ارتقاء پذیر ہو سکتا ہے۔

بیہی دلیل پیش کرتا ہے کوئی ناقا بل تخفیف حد تک پیچیدہ نظام جتنا کم پیچیدہ ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ یہ کسی بالواسطہ طریقے سے تیار ہو ا ہو سکتا ہے (یعنی یہ یا تو کسی ایسے سابقہ سادہ نظام سے ارتقا ء پذیر ہوا جو کسی طرح کا مختلف کام کرتا تھا یا پھر کسی سابقہ زیادہ پیچیدہ نظام سے ارتقا ء پذیر ہوا جو اپنے کسی حصے کھو چکا ہو۔) اس کے برعکس کوئی ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ نظام جتنا زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے اتنا ہی کم امکان ہے کہ یہ کسی بالواسطہ طریقے سے تیار ہوا ہو ۔ بیہی کے مطابق " کسی تعاملاتی نظام کی پیچیدگی جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے بالواسطہ طریقے کا امکان تیزی سے کم ہو جاتا ہے" (سابقہ، صفحہ نمبر 40)۔

بیہی ای کولی بیکٹیریا کے فلیجیلر نظام کو کسی ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ نظام کی ایک مثال کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے بارے میں اُس کا ماننا ہے کہ یہ براہ راست تیار نہیں ہو سکتا تھا (کیونکہ یہ ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ ہے) اور غالباً بالواسطہ طور پر تیار نہیں ہوا تھا (کیونکہ یہ انتہائی پیچیدہ ہے)۔ ای کولی فلیجیلر نظام خوردبین کے ذریعے قابل مشاہد ہ نقل پذیر ایک حیرت انگیز موٹر ہے جسے ای کولی بیکٹیریا اپنے ماحول میں گھومنے پھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ 40 انفرادی اور باہمی مربوط حصوں پر مشتمل ہے جس میں ایک سٹیٹر، ایک روٹر، ایک ڈرائیو شافٹ، ایک یو جوائنٹ اور ایک پروپیلر شامل ہیں۔ اگر اِن حصوں میں سے کسی کو بھی ہٹا دیا جائے تو پورا نظام کام کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔فلیجیلم کے کچھ حصوں خوردبین کے ذریعے قابل مشاہد ہ دنیا کے دیگر جانداروں میں بھی موجود ہیں۔ یہ حصے پورے نظام کے حصوں کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک تیسری قسم کی ترسیل (ایک عمل جسے cooption کہا جاتا ہے) سے مستعارلیا جا سکتا تھا۔ تاہم ای کولی کے فلیجیلرکے بیشتر اجزاء منفرد ہیں ۔ وہ اپنی ارتقائی تبدیلی کی وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں جو کہ ابھی تک پراسرار ہے۔

ڈاروّن کے نظریے کے حامیوں کی طرف سے ناقابل تخفیف پیچیدگی کی زبردست مخالفت کی جاتی رہی ہے ۔ اس تنقید میں سے کچھ باتیں درست اور کچھ غیر درست ہیں ۔ اسی طرح ناقابل تخفیف پیچیدگی کے حامیوں کی طرف سے کئے گئے دعوؤں کی چھان بین کے لیے بھی محتاط رہنا چاہیے۔ ناقابل تخفیف پیچیدگی کے حامیوں نے پہلے پہل جو بعض حیاتیاتی مثالیں پیش کی تھیں وہ اب قابل ِ تخفیف ہونے والی نظر آتی ہیں۔ یہ بات نہ تو خود اِس تصور کو کالعدم قرار دیتی ہے اور نہ ہی یہ ناقابل تخفیف حد تک پیچیدہ حیاتیاتی نظام (جیسے ای کولی بیکٹیریل فلیجیلم) کی حقیقی مثالوں کی نفی کرتی ہے۔ یہ صرف اس بات کو واضح کرنے کے لئے ہے کہ باقی سب لوگوں کی طرح سائنس دان بھی غلطیاں کر سکتے ہیں ۔

پس خلاصہ یہ ہے کہ ناقابل تخفیف پیچیدگی پُر حکمت نمونہ سازی کے نظریے کا ایک پہلو ہے جو دلیل دیتا ہے کہ کچھ حیاتیاتی نظام اتنے پیچیدہ اور اس قدر متعدد پیچیدہ حصوں پر مشتمل ہیں کہ وہ اتفاقی طور پر تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ جب تک کسی نظام کے تمام حصے ایک ہی وقت میں ارتقا ءپذیر نہ ہوں یہ نظام بیکار ثابت ہوگااور اس وجہ سے یہ اصل میں جاندار کے لیے نقصان دہ ہوگا اور یوں ارتقاء کے "قوانین" کے مطابق قدرتی طور پر جانداروں فطری چناؤ کی بنیاد پر اُس نظام سے خارج کر دیا جائے گا۔ اگرچہ ناقابل تخفیف پیچیدگی نہ تو واضح طور پر کسی پُر حکمت نمونہ سازی کو ثابت کرتی ہے اور نہ ہی ارتقاء کو مکمل طور پر غلط ثابت کرتی ہے لیکن یہ بلاشبہ حیاتیاتی زندگی کی ابتدا اور نشوونما میں بے ترتیب عمل سے باہر کسی چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

ناقابل تخفیف پیچیدگی کیا ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries