سوال
کیا خُدا مر چکا ہے؟
جواب
"خُدا مر چکا ہے" جیسی تعلیم کے لیے تکنیکی اصطلاح تھیوتھیَناٹولوجی(theothanatology) ہے جو تین یونانی حروف: تھیوس (خدا) + تھیناٹوس (موت) + لوگیا (علم ) کا مرکب ہے ۔
جرمن شاعر اور فلسفی فریڈرک نِیچی انیسویں صدی میں "خدا مر چکا ہے" جیسابیان دینے کے لیے سب سے مشہور ہے۔ یونانی فلسفہ اور نظریہ ارتقاء دونوں سے متاثر نِیچی نے لکھاکہ "خدا مر چکا ہے، خدا مرا ہی رہے گا۔ اور ہم نے اُسے مار ڈالا ہے۔ ہم جو تمام قاتلوں کے قاتل ہیں اپنے آپ کو کیسے تسلی دیں گے؟ ... کیا اس کام کی عظمت ہمارے لیے بڑی عظمت نہیں ہے؟ کیا ہمیں اِس لائق ہونے کے لیے خود ہی خدا نہیں بن جانا چاہیے؟
نِیچی کا مقصد "روایتی" اخلاقیات-مسیحیت کو ختم کرنا تھا - خاص طور پر اِس وجہ سے کہ اُس کے مطابق یہ کمزور اور عقل سے پیدل لوگوں کو قابو کرنے کے لیے مفاد پرست مذہبی رہنماؤں کی کوشش کی نمائندگی کر تی تھی ۔ نِیچی کا ماننا تھا کہ خدا کا "تصور" اب ضروری نہیں رہا؛درحقیقت، خدا درکا ر نہیں تھا کیونکہ انسان ایک ایسے مقام کو حاصل کر رہا تھا جہاں وہ اپنے طور پر ایک گہری اور زیادہ اطمینان بخش "مرکزی اخلاقیات" مرتب کر سکتاتھا۔
"خُدا مر چکا ہے" نِیچی کے اس فلسفے کو وجودیت، فنائیت اور اشتراکیت کے نظریات کو فروع دینے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں تھامس جے۔ جے۔ الٹیزر اور پال وین بورین جیسے بنیاد پرست علم ِ الہیات کے ماہرین نے "خدا مر چکا ہے"کے خیال کی وکالت کی تھی۔
یہ نظریہ کہ "خدا مر چکا ہے اور مذہب غیر ضروری ہے" فطری طور پر درج ذیل خیالات کا باعث بنتا ہے:
1. اگر خدا مر چکا ہے تو نہ کوئی حتمی اخلاقی اقدار ہیں اور نہ ہی کوئی عالمگیر معیار ہے جس کی تمام انسانوں کو پیروی کرنی چاہیے ۔
2. اگر خدا مرچکا ہے تو زندگی میں کوئی مقصد یا منطقی ترتیب نہیں ہے۔
3. اگر خدا مر چکاہے تو کائنات میں نظر آنے والاہر نمونہ اُن لوگوں کی طرف سے پیش کردہ ہے جو زندگی میں معنی تلاش کرنے کے لئے بے چین ہیں۔
4. اگر خدا مرچکا ہے تو انسان خود مختار ہے اور اپنی اقدار خود بنانے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہے۔
5. اگر خدا مرچکا ہے تو (فردوس اور جہنم کے برعکس) "حقیقی" دنیا ہی وہ واحد مقام ہے جسکی اُسے فکر کرنی چاہیے۔
یہ تصور کہ "خدا مرچکا ہے" بنیادی طور پر ہماری زندگیوں پر خدا کے اختیار کے خلاف چیلنج ہے۔ یہ گمان کہ ہم محفوظ طریقے سے اپنے اصول خود بنا سکتے ہیں وہ جھوٹ ہے جو سانپ نے حوّا سے بولا تھا: " تُم خُدا کی مانِند ۔۔۔۔۔بن جاؤ گے" (پیدایش 3باب 5آیت)۔ پطرس ہمیں خبردار کرتا ہے کہ " جس طرح اُس اُمّت میں جُھوٹے نبی بھی تھے اُسی طرح تم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے جو پوشیدہ طَور پر ہلاک کرنے والی بدعتیں نِکالیں گے اور اُس مالِک کا اِنکار کریں گے جس نے اُنہیں مول لِیا تھا اور اپنے آپ کو جلد ہلاکت میں ڈالیں گے "( 2پطرس 2باب 1آیت)۔
"خدا مرچکا ہے " کی دلیل کو عموماً فنکاروں اور دانشوروں کی طرف سے ایک عقلی، فکری اور بااختیار بنانے والے فلسفے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کلام مقدس اِسے بے وقوفی قرار دیتا ہے ۔ "احمق نے اپنے دِل میں کہا ہے کہ کوئی خُدا نہیں"(14زبور 1آیت)۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جو لوگ اس فلسفے یعنی "خدا مرچکا ہے" کے حامی ہیں وہ اِس مہلک غلطی کو اُس وقت دریافت کریں گے جب وہ خود مر جائیں گے۔
English
کیا خُدا مر چکا ہے؟