سوال
کیا اِسقاطِ حمل قتل ہے ؟
جواب
اِسقاطِ حمل کا موضوع ممکنہ طور پر ہمارے دور کے انتہائی جذباتی مسائل میں سے ایک ہے۔ اس سوال یعنی "کیا اِسقاطِ حمل ایک قتل ہے؟" کے واجب جواب کی تلاش کے لیے اُن لوگوں کو بڑی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے جنہوں نے اِسقاطِ حمل کے عمل کو سرانجام دیا ہے یا جنہوں نے خود اِسقاطِ حمل کرایا ہے۔ بائبل اس حقیقت کے بارے میں واضح ہے کہ قتل کرنا غلط ہے (خروج 20باب 13آیت)۔ تاہم بعض صورتوں میں بائبل قتل سے منع نہیں کرتی۔ اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والے سپاہیوں سے مخالف فریق کے سپاہیوں کو مارڈالنے کی توقع کی جاتی تھی (یشوع 11باب 20 آیت)۔ یہ قتل نہیں ہے۔ کھانے اور قربانی کے لیے جانوروں کی جان لی جاتی ہے (خروج 24باب 5آیت ؛ پیدایش 9باب 3-4آیات)۔ یہ بھی قتل نہیں ہے۔
قتل کی تعریف "ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کی غیر قانونی اور منصوبے کے تحت موت" کے طور پر کی جاتی ہے۔ قتل کسی کو غیر قانونی طور پر ہلاک کرنا ہے - یعنی ایسی موت جو (قومی نہیں بلکہ )ذاتی وجوہات کی بناء پر ایک انسان کے دوسرے انسان کے خلاف فیصلے کے باعث ہوتی ہے ۔ بائبل قتل کو ایک بُرے معاشرے کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے متعدد بار اُسکی مذمت کرتی ہے(استثنا 5باب 17آیت؛ یسعیاہ 1باب 21آیت؛ ہوسیع 4باب 2آیت؛ متی 5باب 21آیت)۔ اِسقاطِ حمل قتل ہے یا نہیں اس کا تعین کرنے میں دوباتوں پر غور و خوص کرنا شامل ہے : پہلی بات یہ کہ بچّہ دانی میں موجود جنین درحقیقت انسان ہے یا نہیں اور دوسری، اگر جنین انسانی بچّہ ہے تو اِسقاطِ حمل کو بجا طور پر قتل کہا جا سکتا ہے یا نہیں کیونکہ زیادہ تر ممالک میں یہ عمل جائز ہے۔ اگر قتل کرنا غیر قانونی یا ناجائز طو ر پر کسی کو مارنا ہے تو اِس سے یہ نتیجہ اخذ ہوگا کہ قانونی طور پر کسی کو مارنا قتل نہیں ہوگا۔
مختلف علاقوں میں قتل کے غیر قانونی قرار دئیے جانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی شخص کا دوسرے انسان کی زندگی کا یکطرفہ فیصلہ کرنا غیر اخلاقی ہے۔ پرانے عہد نامے کی شریعت کے تحت ایک قاتل کو اُس وقت تک سزائے موت نہیں دی جاتی تھی جب تک اُس کے لیے متعدد گواہ نہیں ہوتے تھے : " ایک گواہ کی شہادت سے کوئی مارا نہ جائے" (گنتی 35باب 30آیات) ۔ جنگ میں سپاہی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قتل کرنے کا فیصلہ نہیں کرتے؛ بلکہ وہ قومی مفاد کے پیش ِ نظر قتل کرتے ہیں- اگر وہ ایک باوقار قوم کے لیے لڑتے ہیں تو قومی مفاد معصوم شہریوں کو کسی خطرے سے بچانا ہوگا۔ اِسقاطِ حمل اس لحا ظ سے مختلف ہے۔ اِسقاطِ حمل ماں کے یکطرفہ فیصلے اور انتخاب کی بنیاد پر قتل کرنا ہے۔ بے یارو مدد گار جنین کا اس طرح کا بلا وجہ قتل غیر اخلاقی ہے اور کسی بھی معاشرے میں اِسقاطِ حمل کو ایک قتل کے طور پر بیان کیا جانا چاہیے –چاہے جنین ابھی تک مکمل انسان نہیں بنا ۔ اگر جنین محض لاشخصی خلیوں کا مجموعہ یا انسان سے کم تر کوئی چیز ہے تو اُس کی زندگی کا خاتمہ ایسے اخلاقی چیلنج کا سامنا نہیں کرے گا اور اُسے قتل خیال نہیں کیا جائے گا۔
لہذا کیا جنین انسان ہے؟ یا یہ کچھ اور ہے؟ حیاتیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانی زندگی کا آغاز حمل ٹھہرنے کے وقت سے ہی ہو جاتا ہے ۔ جب ماں کا انڈا اور باپ کا نطفہ اکٹھے ہوتے ہیں تو وہ مل کر ڈی این اے کی ایک نئی ڈوری بناتے ہیں جو ذاتی نوعیت کا اور مکمل طور پر منفرد ہوتا ہے۔ ڈی این اے باضابطہ طور پر ترتیب دی گئی معلومات اورنئے انسان کی نشوونما اور افزایش کا نقشہ ہوتا ہے ۔ اس میں مزید جینیاتی مواد کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ رحم میں موجود جفتہ اتنا ہی انسان ہے جتنا کہ وہ ماں انسان ہے جس کے رحم میں وہ پل رہا ہے ۔ جنین اور ہم میں سے کسی انسان کے درمیان صرف عمر، مقام اور دوسروں پر انحصار کرنے کا فرق ہے۔ جب کوئی ماں جنین کی نشوونما کے عمل کو ختم کر دیتی ہے تو وہ ایک بے مثال زندگی کو تباہ کر رہی ہوتی ہے۔
انسانی زندگی کے آغاز کے طور پر بائبل حمل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سمسون نے کہا کہ " مَیں اپنی ماں کے پیٹ ہی سے خُدا کا نذِیر ہُوں " (قضاۃ 16باب 17آیت)۔ وہ اپنی اُس ذات کا جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی پہلے ہی ایسے انسان – نذیر – ہونے کے طور پرذکر کرتا ہے جو خدا نے اُسے بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ داؤد کہتا ہے" کیونکہ میرے دِل کو تُو ہی نے بنایا۔ میری ماں کے پیٹ میں تُو ہی نے مجھے صورت بخشی"(139زبور 13آیت)۔ ایک بار پھر ہم داؤد کو اپنے آپ کو ایک شخصیت کے طور پر پیش کرتے دیکھتے ہیں جبکہ وہ ابھی رحم میں ہی ہے ۔ اِس کے بعد وہ کہتا ہے کہ " تیری آنکھوں نے میرے بے ترتِیب مادّے کو دیکھا اور جو ایّام میرے لئے مقرّر تھے وہ سب تیری کِتاب میں لکھے تھے۔ جب کہ ایک بھی وجُود میں نہ آیا تھا"(139زبور 16آیت)۔ ۔ داؤد کہہ رہا ہے کہ خُدا نے اُس کے لیے اُس کے تمام دنوں کا منصوبہ تب ہی بنا لیا تھا جبکہ وہ رحم میں ہی تھا۔ ایک بار پھر، یہ ثبوت پیدایش کے وقت کی بجائے حمل ٹھہرنے ہی سے شروع ہونے والی شخصیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا نے یرمیاہ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اُس کی زندگی کے لیے بھی ایسا ہی منصوبہ بنا لیا تھا: "اِس سے پیشتر کہ مَیں نے تجھے بطن میں خلق کِیا۔ مَیں تجھے جانتا تھا اور تیری وِلادت سے پہلے مَیں نے تجھے مخصُوص کِیا اور قوموں کے لئے تجھے نبی ٹھہرایا"(یرمیاہ 1باب 5آیت)۔
بائبل جنین کو ایک ایسا بچّہ خیال کرتی ہے جس کی پیدایش ابھی نہیں ہوئی ،ایک مخصوص انسان جس کی خدا حمل میں پڑنے کے وقت سے ہی سے افزایش کررہا ہے۔ پس اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانی قانون کیا کہتا ہے یا سماجی یا سیاسی طور پر اِسقاطِ حمل کتنا قابل قبول ہے۔ خدا کا قانون سب سے مقدم ہے۔ کوئی ماں جو اپنے حمل کو گرانے کا فیصلہ کرتی ہے وہ یکطرفہ طور پر کسی دوسرے انسان کی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے – یہی ہمیشہ سے قتل کی تعریف رہی ہے ۔
English
کیا اِسقاطِ حمل قتل ہے ؟