سوال
اب بادشاہی (کنگڈم ناؤ) کے عقیدے کی تعلیمات کیا ہیں ؟
جواب
"اب بادشاہی( Kingdom Now)" ایک الہیاتی عقیدہ ہے جو بنیادی طور پر امریکہ میں پروٹسٹنٹ مسیحیت کی کرشماتی تحریک کے اندر پایا جاتا ہے۔ اب بادشاہی کےعقیدے کے حامیوں کا خیال ہے کہ جب آدم اور حوؔا نے گناہ کیا تھا تو دنیا پر خدا کا اختیار ختم ہو گیا تھا اوردنیا شیطان کے قبضے میں چلی گئی تھی ۔ یہ علم ِ الہیات مزید بیان کرتا ہے کہ تب سے خدا ایک ایسے گروہ کی تلاش کے وسیلہ سے دنیا پر دوبارہ اختیار قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے – جنہیں "وعدے کے لوگ "، "غالب آنے والے " یا "یوایل کی فوج" کہا جاتا ہے - اور یہ بھی کہ اُن لوگوں کے ذریعے ، سماجی اداروں (بشمول حکومتوں اور قوانین) کو خدا کے اختیار میں لایا جائے گا۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ چونکہ ایماندار وں میں وہی رُوح القدس ہے جو یسوع میں بسا ہوا تھا لہذا ہم آسمان اور زمین پر پورا اختیار رکھتے ہیں؛ ہمارے پاس ایسی قدرت ہے کہ جو چیزیں موجود نہیں ہیں اُن کو بول کر وجود میں لا سکتے اور اِس طرح ہم بادشاہی کے دور کو قائم کر سکتے ہیں۔
یہ عقید ہ کہ بے دین یا غیر مسیحی معاشرہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا اِس علم ِ الہیات کے سب سے متنازعہ اصولوں میں سے ایک ہے ۔ لہذا "اب بادشاہی" کا عقیدہ کلیسیا اور ریاست کی علیحد گی کی مخالف کرتا ہے ۔ اِن کےدیگر عقائد میں یہ تصور بھی شامل ہے کہ مسیح کے بد ن کی حیثیت سے ہم بھی مسیح ہیں ۔ دوسرے الفاظ ہم الٰہی فطرت کے مالک ہیں ۔ اب بادشاہی کی تعلیم کے حامل کلیسیا کے اُٹھائے جانے یعنی ریپچر پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔اُن کے نزدیک اس عمل کو ایسے جذبات یا خوشی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو ہمیں اُس وقت محسوس ہوں گے جب خداوند اِس بادشاہی کوہمارےہاتھ سے قبول کرنے کے لیے آئے گا ۔ دوسرے الفاظ میں جب خداوند واپس آئے گا تو ہر شخص جذبات میں " کھو/محو ہو"جائے گا۔ غیر بائبلی عقائد میں سے ایک تصور یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے مستقبل کے متعلق پرانے اور نئے دونوں عہد ناموں کی تمام پیشن گوئیوں کا اطلاق درحقیقت کلیسیا پر ہو تا ہے۔
اب بادشاہی کا عقیدہ یسوع کی دوسری آمد کو دو مراحل میں دیکھتا ہے : پہلا ایمانداروں کے بدن ( اور خصوصاً آج کل کے رسولوں اور نبیوں کے بدن ) کے وسیلہ سے اور دوسرا اُس وقت جب یسوع شخصی طور پر اُن ایمانداروں سے بادشاہی کو واپس اپنے ہاتھوں میں لینے کےلیے آئے گاجو کامیاب ہو چکے یا غالب آ چکے ہیں۔ دوسری آمد سے پہلے غالب آنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین کو تمام بُرے اثرو رسوخ سے پاک کریں ۔" اب بادشاہی" کے حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ یسوع اُس وقت تک واپس نہیں آسکتا جب تک اُس کے تمام دشمنوں ( بشمول موت) کو کلیسیا کے تابع نہیں کر دیا جاتا۔ اگرچہ ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف جزوی طور پر "اب بادشاہی" کے عقیدے کی تعلیمات پر قائم ہیں مگر وہ پھر بھی مذکورہ بالاعقائد سے منسلک ہیں جو کہ سب کے سب مرکزی مسیحیت سے خارج ہیں اور سب ہی کتاب ِ مقدس کی تردید کرتے ہیں۔ پہلی بات تویہ تصور مضحکہ خیز ہے کہ خدا نے کسی چیز کا "اختیار کھو دیا ہے خصوصاً اس خیال کے ساتھ کہ اُسے انسانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اُس اختیار کو دوبارہ حاصل کر سکے۔ وہ کائنات کا خود مختار حاکم ہےجو مکمل ، مُقدس اور اپنی تمام صفات میں کامل ہے ۔ وہ تمام چیزوں - ماضی ، حال اور مستقبل - پر مکمل اختیار رکھتا ہے اور کوئی بھی بات اُس کے اختیار سے باہر واقع نہیں ہوتی ۔ ہر چیز اُس کے الٰہی منصوبے اور مقصد کے مطابق چل رہی ہے اور ایک ذرہ بھی اپنی مرضی سے حرکت نہیں کر رہا ہے۔ "کیونکہ ربُّ الافواج نے اِرادہ کِیا ہے۔ کون اُسے باطل کرے گا؟ اور اُس کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے۔ اُسے کون روکے گا؟" ( یسعیاہ 14باب 27آیت)۔
جہاں تک انسانوں کے ایسی قدرت رکھنے یعنی " جو چیزیں موجود نہیں ہیں اُن کو بول کر وجود میں لانے " کی بات ہے تو یہ قدرت صرف خدا کے پاس ہے جوکبھی بھی اُن لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش نہیں آتا جو اُس کی اِس قدرت کو قبضہ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ "اَےگنہگارو! اِس کو یاد رکھّو اور مَرد بنو۔ اِس پر پھر سوچو۔ پہلی باتوں کو جو قدیم سے ہیں یاد کرو کہ مَیں خُدا ہوں اور کوئی دُوسرا نہیں۔ مَیں خُدا ہوں اور مجھ سا کوئی نہیں۔ جو اِبتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہوں اور ایّام قدِیم سے وہ باتیں جو اب تک وقُوع میں نہیں آئیں بتاتا ہُوں اور کہتا ہُوں کہ میری مصلحت قائِم رہے گی اور مَیں اپنی مرضی بِالکُل پُوری کرُوں گا۔ جو مشرق سے عقاب کو یعنی اُس شخص کو جو میرے اِرادہ کو پُورا کرے گا دُور کے مُلک سے بُلاتا ہُوں۔ مَیں ہی نے یہ کہا اور مَیں ہی اِس کو وُقوع میں لاؤں گا۔ مَیں نے اِس کا اِرادہ کِیا اور مَیں ہی اِسے پُورا کروں گا" ( یسعیاہ 46باب 8-11)۔
"اب بادشاہی" کے عقیدے کی طرف سے کلیسیا کے اُٹھائے جانے کی تردید بھی غیر بائبلی ہے ۔ کلیسیا کا اُٹھایا جانا خد اکے لوگوں کے جذبا ت میں کھو جانے سے زیادہ کچھ نہیں یہ وضاحت اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ "اُٹھائے جانے " کی اصطلا ح کا ایسا استعمال خالصتاً ایک محاوراتی اظہار ہے جو انگریزی کےالفاظ " caught up " کےلیے مخصوص ہے نہ کہ یونانی کےلیے ۔ " مَیں فلم (یا کسی اور خوشی ) میں پوری طرح کھو گیا تھا ۔یہ بات لفظ 'ہرپازو' کا مترادف نہیں ہے جو 1تھسلنیکیوں 4باب 17آیت؛ 2کرنتھیوں 12باب 2-4آیات اور مکاشفہ 12باب 5آیت میں جسم کی حالت میں آسمان پر اُٹھائے جانے کو بیان کرنے کےلیے استعمال ہوا ہے ۔ یہی لفظ اعمال 8باب 39آیت میں بھی استعمال ہوتا ہے جہاں فلپس کوجسم میں رُوح القدس کی طرف سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر " لے جایا " جاتا ہے ۔
جہاں تک ہمارےخود مسیح ہونے اور الٰہی فطرت رکھنے کی بات ہے تو ہم مسیح نہیں ہیں اگر چہ نجات کے موقع پر ہم رُوح القدس کے وسیلہ سے اُس کی الٰہی فطرت میں شریک ہوتے ہیں ( 2پطرس 1باب 4آیت)۔ لیکن مسیح خدائے ثالوث کا دوسرا اقنوم ہے اور کوئی بھی انسان خدا نہیں بن سکتا ۔ یہ جھوٹ جھوٹوں کے باپ شیطان کی طرف سے ہے جس نے سب سے پہلے اس جھوٹ کو باغ ِ عدن میں حوؔا کو آزمانے کے لیےبولا تھا کہ "تمام خدا کی مانند۔۔۔ بن جاؤ گے "( پیدایش 3باب 5آیت)۔
کلیسیا نے اسرائیل کی جگہ لے لی ہے اور یہ کہ اسرائیل کےلیے پیشن گوئیوں کی تکمیل کلیسیا سے متعلق ہے یہ تصور تبادلاتی علم ِ الہیات کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ غیر بائبلی ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی تکمیل اسرائیل میں ہی ہوگی نہ کہ کلیسیا کے اندر۔ اسرائیل کےلیے خدا کی برکات ابدی ہیں اوریہ منسوخ نہیں ہونگی ۔
مسیح کی آمدِ ثانی اُس وقت ہو گی جب انسان نہیں بلکہ وہ خود اپنے دشمنوں کو شکست دے گا اور ہر چیز کو اپنے تابع کرے گا ۔ مکاشفہ 19باب میں دوسری آمد کی تفصیل ایک طاقتور جنگجو کا بیان پیش کرتی ہے جو تمام چیزوں کو درست کرنے کےلیے آتا ہے نہ کہ اُس شخص کا جو ایسی زمین پر واپس آتا ہے جو پہلے ہی سے درست اور اُس کی بادشاہی کے لیے تیار ہے ۔ 15 آیت واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ "قوموں کے مارنے کے لئے اُس کے مُنہ سے ایک تیز تلوار نکلتی ہے اور وہ لوہے کے عصا سے اُن پر حکومت کرے گا اور قادرِ مُطلِق خُدا کے سخت غضب کی مَے کے حَوض میں انگور رَوندے گا"۔ اگر زمین کو " تمام بُرے اثر و رسوخ سے پاک" کر دیا گیا ہے جیسا کہ" اب بادشاہی "کے حامی مانتے ہیں تو مسیح کو قوموں کو مارنے کے لیے تیز تلوار کی ضرورت کیوں ہوگی اور خدا کا غضب اور قہر اب بھی اُن کے خلاف کیوں ہے ؟
"اب بادشاہی" کا عقیدہ اُن انسانوں کےجھوٹے ، غیر بائبلی اور گمراہ کُن فلسفوں کی ایک لمبی فہرست میں سے ایک ہے جن کے فضول تخیلات خدا کو انسان بناتے اور انسان کو معبود کے مقام تک لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اِس عقیدے سے اجتناب کیا جانا چاہیے ۔
English
اب بادشاہی (کنگڈم ناؤ) کے عقیدے کی تعلیمات کیا ہیں ؟