سوال
مسیح کی آمدِثانی کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں؟
جواب
ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یسوع مسیح کی آمدِ ثانی بہت قریب ہے۔ مطلب یہ کہ اُس کی آمد کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ ہم پولُس رسول کے ساتھ "مبارک اُمید یعنی اپنے بزرگ خُدا اور منجی یسوع مسیح کے جلال کے ظاہر ہونے کے منتظر ہیں" (طِطُس2باب 13 آیت)۔ اِس بات کو جانتے ہوئے کہ خُداوند آج بھی واپس آ سکتا ہے، کچھ لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر اُس کا "انتظار" کرنے کی آزمائش میں پڑ گئے ہیں۔
تاہم یہ جاننے میں کہ "یسوع آج بھی آ سکتا ہے" اور یہ کہ "یسوع آج ہی واپس آ جائے گا" بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ خُداوند یسوع نے فرمایاہے کہ "لیکن اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا" (متی24 باب 36 آیت)۔ اُس کی آمد کا وقت ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں خُدا نے کسی کو نہیں بتایا، اِس لئے جب تک وہ خود ہمیں اپنے پاس نہیں بلا لیتا، یعنی زندگی کے آخری سانس تک ہمیں اُس کی خدمت کرتے رہنا چاہیے۔ یسوع مسیح کی طرف سے بیان کردہ دس اشرفیوں کی تمثیل میں رُخصت ہونے والے بادشاہ نے اپنے نوکروں کو ہدایت دی تھی کہ "میرے واپس آنے تک لین دین کرنا" (لوقا 19 باب 13آیت )۔
بائبل میں یسوع کی آمد کوہمیشہ ہی خُدا کے نام کو جلال دینے والے اعمال کے لئے ترغیب کے طور پر پیش کیا گیا ہے، نہ کہ ایسے اعمال سے باز آنے کیلیے۔ 1کرنتھیوں15 باب58آیت میں پولُس رسول کلیسیا کے اُٹھائے جانے کے موضوع پر اپنی تعلیم کا اختتام اِن الفاظ میں کرتا ہے، "خُداوند کے کام میں ہمیشہ افزائش کرتے رہو"۔ 1 تھسلنیکیوں 5 باب 6 آیت میں پولُس مسیح کی آمدِ ثانی پر تعلیم اِن الفاظ میں پیش کرتا ہے، "پس اَوروں کی طرح سوئے نہ رہیں بلکہ جاگتے اور ہوشیار رہیں"۔ یسوع کا یہ اِرادہ کبھی بھی نہیں رہا کہ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُسکی دوسری آمد کے لیے آنکھیں جمائے بیٹھے رہیں، بلکہ وہ چاہتا ہے کہ جب تک ہم اُس کی بادشاہی کا کام کر سکتے ہیں ہم اُسے کرتے رہیں۔ "وہ رات آنے والی ہے جس میں کوئی شخص کام نہیں کر سکتا"(یوحنا 9 باب 4 آیت)۔
رسولوں نے اِس خیال کے ساتھ اپنی زندگی گزاری اور خدمت کی کہ یسوع اُن کی زندگی میں ہی واپس آ سکتا ہے۔ اگر وہ اپنے کام کو چھوڑ دیتے اور صرف "انتظار" کرتے رہتے تو کیا ہوتا؟ وہ ایسا کرنے کی صورت میں لازمی طور پر مسیح کےاِس حکم کی نافرمانی کے مُرتکب ہوتے "کہ تم تمام دُنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو" (مرقس 16 باب 15 آیت) اوراُنکی طرف سے سُستی کی صورت میں خوشخبری پوری دُنیا میں نہ پھیلتی۔ رسول سمجھتے تھے کہ یسوع کی آمد قریب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خُدا کےکام میں مصروف رکھیں۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کو کثرت کی زندگی کے طور پر گزارا، جیسے کہ ہر دن اُن کا آخری دن ہو۔ ہمیں بھی ہر دن کو ایک نعمت کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اُسے خُدا کے جلال کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔
English
مسیح کی آمدِثانی کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگیاں کیسے گزارنی ہیں؟