سوال
بائبل قسمت/تقدیر/نصیب کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
جواب
امریکن ہیریٹیج ڈکشنری "قسمت" کی تعریف کچھ یوں کرتی ہے: 1- اتفاقاًاچھے یا بُرے واقعات کا رونما ہونا۔ 2- اچھی قسمت یا خوشحالی؛ کامیابی۔۔۔۔اتفاق سے کامیابی یا کوئی پسندیدہ چیز حاصل ہونا، جیسے کہ : " خوش قسمتی سے مَیں نے اِس نایاب کتاب کو حاصل کر لیا ہے"۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا چیزیں اتفاقاً رونما ہوتی ہیں؟ اگر وہ اتفافاً رونما ہوتی ہیں تو کوئی کسی کے خوش قسمت یا بدقسمت ہونے کی بات کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ اتفاقاً رونما نہیں ہوتی تو اِن اصطلاحات کو استعمال کرنا نامناسب ہے۔ واعظ 9باب 11-12آیات بیان کرتی ہیں کہ " مَیں نے توِجُّہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دَوڑ میں تیز رفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زورآور کو فتح اور نہ روٹی دانش مند کو ملتی ہے نہ دَولت عقل مندوں کو اور نہ عِزت اہلِ خِرد کو بلکہ اُن سب کے لئے وقت اور حادِثہ ہے۔ کیونکہ اِنسان اپنا وقت بھی نہیں پہچانتا۔ جس طرح مچھلیاں جو مصیبت کے جال میں گرِفتار ہوتی ہیں اور جس طرح چِڑیاں پھندے میں پھنسائی جاتی ہیں اُسی طرح بنی آدمؔ بھی بدبختی میں جب اچانک اُن پر آ پڑتی ہے پھنس جاتے ہیں"۔ واعظ جو کچھ بیان کرتا ہے اُس کا زیادہ تر حصہ اُس شخص کے نقطہ نظر سے ہے جو زمین پر زندگی کو خدا کے بغیر یا زندگی کو صرف " دنیا میں " ہی دیکھتا ہے۔ دنیا کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے یعنی خدا کو تصویر سے باہر کرنے پر پیچھے صرف اچھی یا بُری قسمت ہی رہ جاتی ہے۔
دوڑ میں دوڑنے والا کوئی شخص سب سے تیز رفتار ہو سکتا ہے لیکن اس کے سامنے والے شخص کے لڑکھڑانے اور اُس کے اُس سے ٹکرا کر گر جانے کے باعث وہ دوڑجیت نہیں پاتا۔ یہ اُس کے لیے کتنی بد قسمتی کی بات ہے ؟ یا ممکن ہے کہ کسی جنگجو بادشاہ کے پاس سب سے مضبوط فوج ہو لیکن "اتفاق" سے دشمن کے کسی نامعلوم سپاہی کی طرف سے بے ترتیبی سے چھوڑا گیا تیر اس کے بکتر کوعین سب سے نازک مقام سے چھید ڈالتا ہے (2 تواریخ 18 باب 22آیت ) جس کے نتیجے میں بادشاہ کی موت ہو جاتی اور وہ جنگ ہار جاتا ہے ۔ اخی اَب بادشاہ کے لیے یہ کتنی بدقسمتی کی بات تھی ؟ کیا یہ قسمت کی بات تھی؟ 2 تواریخ کے 18باب کو مکمل طور پر پڑھنے پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا ہاتھ شروع سے ہی اس معاملے میں تھا۔ تیر چلانے والا سپاہی اس کے خطِ پرواز سے بالکل بے خبر تھا لیکن اپنی حاکمیت میں خدا پوری طرح جانتا تھا کہ یہ بدکار بادشاہ اخی اَب کی موت کا وسیلہ ہو گا۔
ایک ایسا ہی "اتفاقی " واقعہ روت کی کتاب میں رونما ہوتا ہے۔ روت جو ایک بیوہ تھی اور اپنی بیوہ ساس کی دیکھ بھال کر تی تھی اناج چننے کے لیے کھیت کی تلاش کرتی ہے۔"سو وہ گئی اور کھیت میں جا کر کاٹنے والوں کےپیچھے بالیں چننے لگی اور اِتّفاق سے وہ بوعز ہی کے کھیت کے حِصّہ میں جا پہنچی جو الِیملک کے خاندان کا تھا۔" (روت 2باب 3آیت )۔چونکہ الیملک اُس کی ساس نعومی کا شوہر تھااس لیے بوعز اُس کا رشتہ دار تھا اور روت کے لیے فیاض تھا۔ جب روت نعومی کی توقع سے کہیں زیادہ اناج کے ساتھ گھر واپس آئی تو" اُس کی ساس نے اُس سے پُوچھا تُو نے آج کہاں بالیں چنیں اور کہاں کام کِیا؟ مُبارک ہو وہ جس نے تیری خبر لی۔ تب اُس نے اپنی ساس کو بتایا کہ اُس نے کس کے پاس کام کِیا تھا اور کہا کہ اُس شخص کا نام جس کے ہاں آج مَیں نے کام کِیا بوعز ہے۔ نعومی نے اپنی بہُو سے کہا وہ خُداوند کی طرف سے برکت پائے جس نے زِندوں اور مُردوں سے اپنی مہربانی باز نہ رکھّی اور نعومی نے اُس سے کہا کہ یہ شخص ہمارے قرِیبی رِشتہ کا ہے اور ہمارے نزدِیک کے قرابتیوں میں سے ایک ہے"(روت 2باب 19-20آیات)۔ لہٰذا نعومی نے اُسے "اتفاق" کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی دستگیر ی کے طور پر دیکھا اور دوسرے لوگوں نے اسی بات کا مشاہدہ بعد میں کیا (روت 4باب 14آیت ) ۔
امثال 16باب 33آیت ایک عام اصول بیان کرتی ہے: "قُرعہ گود میں ڈالا جاتا ہے پر اُس کا سارا اِنتظام خُداوند کی طرف سے ہے"۔ یہ آیت کچھ عدالتی مقدمات کو نمٹانے کے لیے قرعے (سکے کو اچھالنے یا پانسہ پھینکنے) کے استعمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یشوع 7باب میں عکن کا معاملہ ایک ایسی ہی مثال ہے جس میں امثال 16باب 33آیت کے اصول کو قصوروار فریق کی تلاش کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ امثال 18باب 18آیت کچھ ایسا ہی بیان کرتی ہے: "قُرعہ جھگڑوں کو مَوقُوف کرتا ہے اور زبردستوں کے درمیان فَیصلہ کر دیتا ہے"۔ ایک بار پھر، تصور یہ ہے کہ خدا کی قدرت قرعہ ڈالنے کے نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اِسی لیے عدالتی تنازعات کو اس بات سے قطعِ نظر کہ جھگڑا کتنا شدید ہے حل کیا جا سکتا ہے ۔ امثال 16باب 33آیت اس بات کی نشاندہی کرے گی کہ پانسہ پھینکنے یا سکہ اچھالنے جیسابے ترتیب عمل خدا کے اختیار سے باہر نہیں ہے۔ اور اس لیےاس کے نتائج محض اتفاق سے نہیں ہیں۔
خدا کی حاکمیت میں دو پہلو شامل ہیں۔ خُدا کی فعال مرضی یا خودمختاری میں وہ باتیں شامل ہوں گی جن کے رونما ہونے کا وہ باعث بنتاہے جیسے کہ بدکار اخی اب بادشاہ کو جنگ میں لے جانا (2 تواریخ 18باب 18-19آیات )۔ اخی اب کی موت محض اتفافیہ طور پر چلائے گئے تیر کا نتیجہ نہیں تھی لیکن جیسا کہ 2تواریخ 18باب سے پتہ چلتا ہے کہ خُدا نے فعال طور پر نہ صرف اُن واقعات کو ترتیب دیا جس کی وجہ سے اخی اب جنگ میں گیا بلکہ اُس نے اُس دن اخی اب کے لیے اپنی مطلوبہ مرضی کو پورا کرنے کے لیے اتفافاً چلائے گئے تیر کو بھی استعمال کیا تھا۔
خدا کی غیر فعال مرضی اُس کے بذاتِ خود کسی بات کا باعث بننے کی بجائے اُس بات کے رونما ہونے کی اجازت دینے پر مشتمل ہوتی ہے۔ خدا نے ایوب کی زندگی میں شیطان کو جوکچھ کرنے کی جازت دی تھی ایوب کی کتاب کا 1باب اس کی غیر فعال مرضی کی وضاحت کرتا ہے ۔ اِس میں وہ بُرائی بھی شامل ہے جو خُدا نے یوسف کے بھائیوں کو یوسف کے ساتھ کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ اُس بڑی بھلائی کی تکمیل ہو سکے جوسالوں بعد تک بھی یوسف پر عیاں نہیں ہوئی تھی (پیدایش 50 باب 20آیت)۔
چونکہ ہمارے پاس یہ دیکھنے کا اختیار نہیں ہیں کہ آسمان پر کیا ہو رہا ہے اس لیے ہم ہمیشہ اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ آیا ہماری زندگی کے واقعات میں خُدا کی فعال یا غیر فعال مرضی شامل ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ چاہے وہ فعال یا غیر فعال ہو سب کچھ ا ُس کی مرضی کے زیرِ سایہ ہو رہا ہے اور اِس لیے کوئی بھی چیز محض اتفاق سے واقع نہیں ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص کھیلنے کے لیے پانسہ پھینکتا ہے تو خدا بعض اوقات پانسے کے کسی خاص انداز میں گرنے کا سبب بن سکتا ہے لیکن ایسے غیر ضروری معاملات میں وہ اکثر ایسا نہیں کرتا ، وہ پانسے کوفطرت کے قوانین کے مطابق گرنے کی اجازت دے سکتا ہے جو اُس کی فعال شراکت کے بغیرفیصلہ کریں گے۔ لیکن یہاں تک کہ وہ فعال طور پر شامل نہیں ہےپھر بھی یہ بات اُس کی حاکمیت کے ماتحت ہے کہ پانسہ کیسے زمین پر گرتا ہے ۔
پس یہ بات زندگی کے ہر واقعے پر لاگو ہوتی ہے چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا (متی 10باب 29-31آیات) یا کتنا ہی بڑا (دانی ایل 4باب 35آیت ؛ امثال 21باب 1آیت ) کیوں نہ ہو، خدا سب پر حاکم ہے (افسیوں 1باب 11آیت ؛ 115زبور 3آیت ؛ یسعیاہ 46باب 9-10آیات ) اور اس طرح کچھ بھی محض اتفاقی معاملہ نہیں ہے۔
زمینی نقطہ نظر سے، چیزیں اتفاقی طور پر رونما ہوتی ہوئی دکھائی دے سکتی ہیں لیکن تمام کتابِ مقدس میں یہ واضح ہے کہ خدا اپنی تمام مخلوقات پر اختیار رکھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح قدرتی قانون کے بے ترتیب افعال ، اچھے اور برے دونوں طرح کے انسانوں کی آزاد مرضی اور بداَرواح کے بُرے ارادے کو لینے اور اُن سب کو اپنی اچھی اور کامل مرضی کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہے (پیدایش 50باب 20آیت ؛ ایوب 1اور 42 ابواب ؛ یوحنا 9باب 1-7آیات)۔ اور مسیحیوں سے بالخصوص یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ خُدا تمام باتوں کو خواہ بظاہر وہ اچھی ہوں یا بُری اُن لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کرتا ہے جو اُس سے محبت رکھتے اور اُس کے مقصد کے مطابق بلائے ہوئے ہیں (رومیوں 8باب 28آیت)۔
English
بائبل قسمت/تقدیر/نصیب کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟