سوال
زوجین کے درمیان بے وفائی اتنی تباہ کن کیوں ہے ؟
جواب
زوجین کے درمیان بے وفائی یا دغا بازی اُس وقت ہوتی ہے جب شادی شُدہ جوڑے میں سے ایک ساتھی اپنے شادی کے رشتے سے باہر کسی اور کے ساتھ جنسی تعقات قائم کرتا ہے۔ عام طور پر تو ہر کوئی سمجھتا ہے کہ ازدواجی بے وفائی یا دغا بازی اچھی نہیں ہے؛ بہت سارے سروےرپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ 90 فیصد کے قریب امریکی ، مسیحی اور غیر مسیحی، ازدواجی بے وفائی و دغا بازی کو غلط سمجھتے ہیں۔ تاہم اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 30 سے 50 فیصد امریکی اپنےشر یکِ حیات کو دھوکا دیں گے۔ شادی سے باہر حرامکاری کے عمل میں ملوث ہونے کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن زیادہ تر واقعات کسی کے سات جذباتی طور پر جڑے ہونے کے لیے ہوتے ہیں۔ انسانوں میں چاہے جانے، کسی کی ضرورت ہونے اور سمجھنے جانے کی گہری خواہش پائی جاتی ہے۔ مثالی طور پر تو اِس ضرورت کو ازدواجی تعلقات میں پورا کیا جاتا ہے۔ اگر شادی کے بندھن میں یہ ضروریات پوری نہ ہوں تو شریکِ حیات جذباتی طور پر( اور جسمانی طور پر) کسی اور سے جُڑنے کی کوشش کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ازدواجی بے وفائی ہوتی ہے۔
ازدواجی بے وفائی کبھی خوشی کا باعث نہیں بنتی۔ خُدا نے جنسی تعلقات کو ایک پُرعزم اور مختص ازدواجی تعلقات کے اندر لطف اندوز ہونے کے لیے بنایا ہے؛ اگر جنسی تعلقات کو اِس تناظر سے ہٹایا جائے تو اُس کا مطلب اُس کے استعمال کو بگاڑنا اور اُس سے جڑے ہوئے لطف کو سختی کے ساتھ محدود کرنا ہے۔ جنسی تعلق میں قربت کا ایک ایسا مقام شامل ہوتا ہے جو کسی دوسرے انسانی رشتے میں ممکن نہیں ہوتا۔ جب خُدا نے آدم اور حوّا کو شادی کے بندھن میں باندھا تو اُس نے اُن کے درمیان "ایک تن" ہونے کے تعلق کو قائم کیا ۔ پیدایش 2باب24 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ "اِس واسطے مَرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔ " یہ خیال نئے عہد نامے کے ذریعے سے بھی پیش کیا جاتا ہے۔ ہم اِسے خُداوند یسوع کے الفاظ میں متی 19باب5 آیت اور مرقس 10باب7 آیت کے اندر دیکھتے ہیں۔ پولس 1 کرنتھیوں 6باب12-20 آیات کے اندر "ایک تن" ہونے کے خیال پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب کوئی مردکسی فاحشہ عورت کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے تو وہ "ایک تن" ہوتے ہیں (16 آیت)۔ اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنسی تعلقات میں کچھ خاص ہے؛ یہ صرف ایک حیاتیاتی فعل نہیں ہے۔
ازدواجی بیوفائی شادی کے لیے انتہائی تباہ کن ہے کیونکہ دو افراد کے "ایک تن" بننے میں صرف جسمانی قربت سے زیادہ چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ جنسی تعلقات کے دوران جذبات کے ساتھ ساتھ جسموں کا بھی اشتراک ہوتا ہے۔ پرانے عہد نامے میں مباشرت کرنے یا جنسی تعلق کو بیان کرنے کے لیے ایک دوسرے کو "جاننے" کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور یہ حقیقت میں ایک بہت ہی اہم لفظ ہے۔ مباشرت کے عمل یعنی سب سے قریبی انسانی تعلق کے دوران، یہ حقیقی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اِس عمل میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کو جان لیا ہے۔ اِس عمل کے لیے جس سطح کے اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی بھی شخص کو انتہائی غیر محفوظ بنا دیتی ہے اور یہ ایک وجہ ہے کہ جنسی تعلقات ازدواجی حدود تک ہی محدود ہونے چاہییں۔ شادی بغیر کسی خوف کے ساتھی کی کمزوری کے ظاہر ہونے کی اجازت دیتی ہے؛ دونوں میں سے ہر ایک شریکِ حیات دوسرے کے عزم ، اور عہد پر مبنی اِس تعلق کے استحکام کی بدولت محفوظ ہے۔ بیوفائی کے ذریعے سے اِس اعتماد کی خلاف ورزی کرنا اپنی شخصیت اور شادی کے لیے تباہ کن ہے۔ ایسا عمل اعتماد کے ساتھ دھوکا دہی، عہد کاتوڑنا، سلامتی کا توڑنا اور اتحاد کو منطع کرنا ہے۔
ازدواجی بیوفائی کسی شادی کے لیے خود کار اعلانِ مرگ نہیں ہے۔ رپورٹس بیان کرتی ہیں کہ 60 سے 75 فیصد جوڑے جنہوں نے ایک دوسرے کو دھوکا دیا ہوتا ہے اکٹھے رہتے ہیں۔ تاہم اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے تعلقات ٹھیک ہو گئے ہیں یا اُن کے تعلقات نے اعتماد یا عزم دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ بہت سارے معاملات میں ازدواجی بیوفائی کے بعد بھی ایک جوڑا اِس لیے ساتھ نہیں رہتا کہ دونوں لوگ ساتھ رہتے ہوئے خوش ہیں بلکہ وہ اِس لیے اکٹھے رہتے ہیں کیونکہ وہ اِس کے متبادل زندگی سے خوفزدہ ہیں۔ تاہم کچھ اور جوڑے بھی ہیں جو اِس مسئلے سے نمٹنے، کمزوریوں کی شناخت کرنے اور غلطیوں کو درست کرنے کی محبت کا عہد کرتے ہیں۔ ایسے جوڑوں کے پاس نہ صرف ایک ساتھ رہنے کا بہترین موقع ہوتا ہے بلکہ ایک مضبوط، خوشگوار اور بھرپور شادی شُدہ زندگی گزارنے کا بھی موقع ہوتا ہے۔
اِس بات کو یاد رکھنا بہت زیادہ ضروری ہے کہ باقی کے سبھی گناہوں کی طرح ازدواجی بیوفائی بھی قابلِ معافی ہے۔ حرامکاری کا ارتکاب کرنے والے خُدا کے فضل کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں (یسعیاہ 59باب1 آیت)۔ جس طرح گناہ گار توبہ کرتے ہیں اور خُدا معاف کرتا ہےاپنے ساتھی کی بیوفائی سے متاثر ہونے والے جیون ساتھی سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو معاف کر دے۔ خُداوند یسوع نے کہا ہے کہ اگر ہم دوسروں کی خطاؤں کو معاف نہ کریں تو ہمار ے گناہ بھی معاف نہ کئے جائیں گے (متی 6باب15 آیت)۔ "معاف کرنا اور بھول جانا"ہمارے اندر جبلی طور پر نہیں ہے،اور یہ آسان بھی نہیں ہے۔ بحالی کا راستہ طویل اور تکلیف دہ ہے۔ لیکن خُدا کا فضل ہمیشہ ہی کافی ہوتا ہے۔
English
زوجین کے درمیان بے وفائی اتنی تباہ کن کیوں ہے ؟