سوال
زندگی کے کیا معنی ہیں؟
جواب
زندگی کے کیا معنی ہیں؟ زندگی میں مقصد، بھرپوری اور اطمینان کو کیسے ڈھونڈا جا سکتا ہے؟ زند گی میں کسی دیر تک قائم رہنے والی چیز کو کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ بہت سارے لوگ ایسے اہم سوالات پر غور کرنے کے لیے کبھی نہیں رکتے۔ اور پھر کئی سالوں کے بعد جب وہ اُن سب چیزوں یا مقاصد کو حاصل بھی کر چکے ہوتے ہیں جن پر اُن کی شروع سے گہری نظر تھی تو وہ اپنی زندگی میں مُڑ کر دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ اُن کے تعلقات کس طرح سے زوال کا شکار ہو گئے اور سب کچھ پانے کے بعد بھی وہ اندرونی طور پر خود کو خالی کیوں محسوس کرتے ہیں۔ ایک کھلاڑی جب اپنے اُس شعبے میں عروج پر پہنچ گیا تو اُس سے پوچھا گیا کہ کیا اُس کے دل میں یہ خواہش ہے کہ جب اُس نے ایک کھلاڑی کے طور پر اپنی زندگی کو شروع کیا تو اُس وقت کوئی اُسکی خاص رہنمائی کرتا، اور اگر کوئی اُس کی رہنمائی کرتا تو وہ کیسی ہوتی؟ اُس نے جواب دیا "میری یہ خواہش ہے کہ جب مَیں نے ایک کھلاڑی کے طور پر اپنی زندگی کا آغاز کیا تو اُس وقت کوئی مجھے یہ بتاتا کہ جب مَیں اپنی زندگی میں کھیلوں کے میدان میں عروج پر پہنچ جاؤں گا تو پھر اُس سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔" ایسے بہت سارے مقاصد ہیں جن پر جب کوئی شخص اپنی زندگی کے کئی سال لگا دیتا ہے، اور جب وہ اُن مقاصد کو پوری طرح سے حاصل کر لیتا ہے تو اُسے اُن کا کھوکھلا اور خالی پن نظر آنے لگتا ہے۔
ہماری انسانی تہذیب و تمدن میں اکثر لوگ زندگی کے اصل معنی پر سے نظریں ہٹا لیتے ہیں۔ وہ بہت ساری چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، صرف یہ سوچتے ہوئے کہ اُن چیزوں میں وہ زندگی کے معنی اور مقصد کو پا لیں گے۔ اِس طرح کی کچھ انسانی دوڑوں میں کاروبار میں کامیابی، دولت، اچھے تعلقات، جنسی تسکین، سیرو تفریح ، موج مستی اور دیگر لوگوں کا بھلا کرنا شامل ہیں۔ لوگوں نے اِس بات کی گواہی دی ہے کہ جب اُنہوں نے اپنی زندگی میں دولت، تعلقات اور لذت و سرور کے مقاصد کو حاصل کر لیا تو بھی اُن کی ذات کے اندر ایک گہرا خلاء باقی رہا، خالی پن کا ایک ایسا احساس جس کو کوئی بھی اور چیز بھر نہیں سکتی۔
واعظ کی کتاب کے مصنف نے بھی بہت ساری باطل چیزوں میں زندگی کے معنی اور مقصد کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ اورپھر وہ جو خالی پن کے احساس کا تجربہ کرتا اور اُسے کچھ یوں بیان کرتا ہے۔ "باطل ہی باطل ۔۔۔ باطل ہی باطل ۔ سب کچھ باطل ہے" (واعظ 1باب 2 آیت)۔ واعظ کی کتاب کے مصنف، سلیمان بادشاہ کے پاس بے انتہا دولت تھی، اُس کے پاس جو حکمت تھی ویسی حکمت نہ اُس کے دور میں کسی کے پاس تھی اور نہ ہمارے دور میں کیس کے پاس ہے۔ سینکڑوں کے حساب سے عورتیں، محلات اور باغات جن پر شاید اُس کے اردگرد کی بادشاہتیں رشک کرتی ہوں۔ اُس کے پاس ہر طرح کا بہترین کھانا ، مے ، تفریح اور لذت و سرور کا ہر طرح کا سامان موجود تھا۔ اُس نے ایک مقام پر کہا تھا کہ "اور سب کچھ جو میری آنکھیں چاہتی تھیں مَیں نے اُن سے باز نہ رکھا ۔ مَیں نے اپنے دل کو کسی طرح کی خوشی سے نہ روکا"(واعظ 2باب 10آیت)۔ اور اِس کے باوجود اُس نے "سورج کے نیچے" زندگی کا خلاصہ کچھ یوں کیا – کہ جو زندگی سب لوگ گزارتے ہیں، زندگی میں وہ سب کچھ جسے ہم دیکھ سکتے ہیں اور وہ سب کچھ جس کا ہم اپنی آنکھوں اور اپنے حواس کے ساتھ تجربہ کر سکتے ہیں وہ سب – باطل یعنی بے معنی ہے۔ اِس عجیب سے خلاء کی کیا وضاحت ہو سکتی ہے؟ خُدا نے دراصل ہمیں کچھ ایسی چیزوں کے لیے تخلیق کیا ہے جو اِس دُنیا کی اُن تمام چیزوں سے جن کا ہم یہاں پر تجربہ کر سکتے ہیں برتر اور اعلیٰ ہیں۔ سلیمان نے خُدا کے بارے میں کہا ہے کہ "اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دِل میں جاگزین کیا ہے " (واعظ 3باب11آیت)۔ہم اپنے دِلوں کے اندر اِس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ "اب، اِس وقت، یہاں پر" جو کچھ ہے وہ ہی حقیقت نہیں بلکہ کچھ اِس سے بڑھ کر اِس سے آگے بھی ہے۔
پیدایش کی کتاب میں ہم زندگی کے معنی کے حوالے سے ایک اشارہ اِس حقیقت میں پاتے ہیں کہ خُدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر پیدا کیا (پیدایش 1باب 26آیت)۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہم کسی بھی چیز سے زیادہ بڑھ کر خُدا کی مانند ہیں۔ ہم اِس حقیقت کو بھی دریافت کرتے ہیں کہ انسان کے گناہ میں گرنے اور اُس گناہ کی وجہ سے اِس زمین کے لعنتی ہونے سے پہلے مندرجہ ذیل چیزیں سچی تھیں:
1. خُدا نے انسان کو ایک معاشرتی مخلوق کے طور پر تخلیق کیا (پیدایش 2باب18-25آیات)؛
2. خُدا نے انسان کو زمین پر کرنے کے لیے کام دیا( پیدایش 2باب15آیت)؛
3. خُدا کی انسان کے ساتھ رفاقت تھی (پیدایش 3باب8آیت) اور
4. خُدا نے انسان کو زمین اور اِس پر موجود ہر ایک چیز پر اختیار بخشا(پیدایش 1باب26آیت)۔
یہ نکات اپنے اندر زندگی کے معنی کے حوالے سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ خُدا چاہتا تھا کہ انسان کثرت کی زندگی حاصل کرے، لیکن ہماری حالت(بالخصوص ہمارا خُدا کے ساتھ تعلق یا رفاقت ) گناہ میں گرنے کی وجہ سے بہت بُری طرح متاثر ہوئی اور اُس گناہ کی وجہ سے یہ دُنیا بھی لعنت زدہ ہو گئی (پیدایش 3باب )۔
مکاشفہ کی کتاب ہمیں یہ دکھاتی ہے کہ خُدا ہماری زندگی کے معنی کو بحال کرنے کے حوالے سے سوچتا ہے۔ خُدا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اِس موجودہ تخلیق کو تباہ کر کے ایک نیا آسمان اور نئی زمین تخلیق کرے گا۔ اُس وقت وہ نجات پا لینے والے سبھی لوگوں کے ساتھ اپنی مکمل رفاقت کو بحال کر دے گا، جبکہ غیر نجات یافتہ لوگوں کی عدالت کی جائے گی، وہ خُدا کی بادشاہی میں جانے کے قابل نہ ہونگے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ کی جھیل میں ڈال دئیے جائیں گے (مکاشفہ 20باب 11-15آیات)۔گناہ کی لعنت کو ایک دن ختم کر دیا جائے گا، اُس کے بعد گناہ، دُکھ، تکالیف، بیماری، موت ، درد و آہ و نالہ نہ رہے گا (مکاشفہ 21باب4آیت)۔ خُدا بنی انسان کے ساتھ بسے گا اور وہ سب اُس کے بیٹے اور بیٹیاں ہونگی (مکاشفہ 21باب7آیت)۔ پس ہم ایک طرح سے پورے دائرے میں گھومیں گے: خُدا نے ہمیں تخلیق کیا تاکہ وہ ہمارے ساتھ رفاقت رکھ سکے؛ انسان نے گناہ کیا، جس کی وجہ سے انسان اور خُدا کے درمیان رفاقتی سلسلہ ٹوٹ گیا، خُدا ابدی زندگی میں اُسی رفاقت کو مکمل طور پر بحال کرتا ہے۔ اگر ہم اِس زندگی میں ہر ایک چیز کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، تو ہم ایک ایسا سفر شروع کرتے ہیں جس میں ہم خُدا سے ابدی طور پر دور ہو جائیں گے اور یہ کسی بھی بڑی سے بڑی ناکامی اور خالی پن سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ لیکن خُدا نے ایک طریقہ پیش کیا ہے جس کے ذریعے سے نہ صرف ابدی برکات ممکن ہیں (لوقا 23باب43آیت)، بلکہ اُس کی مدد سے اِس زمین پر ہماری زندگی زیادہ با معنی اور با مقصد بن جاتی ہے۔ اِس ابدی مسرت اور "زمین پر آسمانی تجربے والی" زندگی کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے؟
یسوع مسیح کے وسیلے زندگی کے معنی کی بحالی
زندگی کے حقیقی معنی ، اب اور آئندہ زندگی میں ابدیت تک کے لیے اِسی بات میں ہیں کہ ہمارا خُدا کے ساتھ حقیقی تعلق، ہماری رفاقت بحال ہو۔ یہ بحالی صرف اور صرف خُدا کے بیٹے ، خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے ہی ممکن ہے، جس نے ہماری خُدا کے ساتھ صلح کروادی ہے (رومیوں 5باب10آیت؛ اعمال 4باب 12آیت؛ یوحنا 1باب12آیت؛ 14باب 6آیت)۔ جب ہم یسوع پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان لاتے ہیں تو ہم نجات اور ابدی زندگی حاصل کرتے ہیں۔ ایک دفعہ جب وہ نجات ایمان کے وسیلے خدا کے فضل سے حاصل کر لی جاتی ہے تو اُس وقت خُداوند یسوع مسیح ہمیں نیا مخلوق بنا دیتا ہے اور ہم اُس کی حضوری اور اُس کی رفاقت میں بڑھنے کے سفر کا آغاز کر دیتے ہیں اور جیسے جیسے ہم اُس پر انحصار کرتے ہیں ہم اُس کی نزدیکی میں جاتے رہتے ہیں۔
خُدا چاہتا ہے کہ ہم زندگی کے معنی جانیں۔ یسوع نے کہا ہے کہ، " مَیں اِس لئے آیا کہ وہ زِندگی پائیں اور کثرت سے پائیں" (یوحنا 10باب 10ایت)۔ ایک کثرت کی زندگی دراصل وہ ہے جو بامعنی اور بےمقصد پن اور خالی پن سے پاک ہے۔
زندگی کے معنی در اصل خُدا کے جلال میں لپٹے ہوئے ہیں۔ جب خُدا پنے برگزیدوں کو بلاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ " ہر ایک کو جو میرے نام سے کہلاتا ہے اور جس کو مَیں نے اپنے جلال کے لئے خلق کیا جسے مَیں نے پیدا کیاہاں جسے مَیں ہی نے بنایا(لاؤ)۔ " (یسعیاہ 43باب6، 7آیات)۔ وہ مقصد جس کے تحت ہم تخلیق کئے گئے تھے وہ خُدا کا جلال ہے۔ جب کبھی بھی ہم خُدا کے جلال کو اپنے جلال کے ساتھ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اُسی وقت ہم زندگی کے معنی کھو دیتے ہیں۔ " اُس وقت یسُو ع نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے اُسے کھوئے گا اورجو کوئی میری خاطِر اپنی جان کھوئے گا اُسے پائے گا" (متی 16باب24-25آیات)۔ " خُداوند میں مسرور رہ اور وہ تیرے دِل کی مُرادیں پُوری کرے گا" (37زبور 4آیت)۔
English
زندگی کے کیا معنی ہیں؟