سوال
کیا بائبل میں بیان کردہ معجزات کو حقیقی معنوں میں لینا چاہیے؟
جواب
جی ہاں ، ہمیں بائبل کے معجزات کو بالکل اُسی طرح حقیقی معنوں میں لینا چاہیے جس طرح تمام صحائف کو حقیقی مانا جاتا ہے ماسوائے اُن حوالہ جات کے جو واضح طور پر علامتی زبان میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ علامتی زبان کی ایک مثال 17زبور 8آیت ہے" مجھے آنکھ کی پتلی کی طرح محفوظ رکھ۔ مجھے اپنے پروں کے سایہ میں چھپا لے۔" ہم خد اکی آنکھ کی پتلی کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی خدا کے پَرہیں ۔ لیکن معجزات کوئی علامتی بیانات نہیں ہیں ؛ وہ اصل واقعات ہیں جو حقیقی طور پر رونما ہوئے تھے ۔ بائبل میں بیان کردہ ہر معجزہ ایک خاص مقصد کے پیشِ نظر اور اُس خاص کام کی تکمیل کے لیے تھا جو کسی اور طریقے سے ممکن نہیں ہو سکتا تھا ۔
سب سے قدیم ترین اور بڑا معجزہ کائنات کی تخلیق کی صورت میں رونما ہوا تھا ۔خدا نے ہر چیز کو لا موجود یعنی "کچھ نہیں"سے پیدا کیا تھا اور اس کے بعد رو نما ہو نےوالا ہر معجزہ اُس کی قدرت کا ثبوت دیتا ہے ۔ خروج کی کتاب اُن معجزاتی واقعات سے بھری ہوئی ہے جنہیں خدا نے قدرت اپنی کو ظاہر کرنے کےلیے استعمال کیا تھا ۔ ملکِ مصر پر آنے والی مصیبتیں اور آفتیں یعنی دریا ئے نیل کے خون بننے ( خروج 7باب 17آیت) سے لے کر مصری پہلوٹھوں کی موت (خروج 12باب 12آیت) تک کے واقعات جس کے باعث فرعون نے اسرائیلیوں کو آزاد کر دیا تھا سبھی حقیقی وا قعات تھے ۔ اگر آفتیں نازل نہ ہوتیں تو فرعون نے لوگوں کو کیوں جانے دینا تھا ؟ اگر پہلوٹھوں کی موت کی آفت حقیقی نہیں تھی تو پھر خدا مصر کے پہلوٹھوں کو مارنے کےلیے اُس رات مصر میں سے ہو کر نہیں گزرا ہو گا اور نہ ہی اسرائیلیوں کو اپنی چوکھٹوں اور دروازوں کے بازوں پر خون چھڑکنے کی کوئی ضرورت تھی۔ اگر اِن سب چیزوں کو اِسی طرح سے دیکھا جائے تو پھر فسح صلیب پر یسوع کے خون بہانے کی پیش گوئی کے طور پر بے معنی ہے اور یوں یہ خود مصلوبیت کے بارےمیں بھی شک و شبہات پیدا کرتی ہے ۔ ایک بار جب ہم کسی معجزے کی حقیقت پر شک کرنا شروع کرتے ہیں تو ہمیں ہر اُس بیان کو نظرانداز کرنا پڑے گا جس کے بارے میں بائبل کہتی ہے کہ وہ معجزے کا نتیجہ ہے اور یہ بات تمام صحائف کو مشتبہ بنا دیتی ہے ۔
بحرِ قلزم کا دو حصے ہوناپرانے عہد نامے کے معروف معجزات میں سے ایک ہے ( خروج 14باب ) جس کے دوران فرعون اور اُس کی فوج کا بیشتر حصہ غرق ہو گیا تھا ۔ اگر یہ علامتی ہے تو پھر ہم کیسے جان پائیں گے کہ باقی کہانی کے کون سے حصے حقیقی ہیں ؟ کیا بنی اسرائیل قوم واقعی مصر کی غلامی سے آزاد ہوئی تھی ؟ کیا فرعون کی فوجوں نے واقعی اُن کا پیچھا کیا تھا اور اگر اُنہوں نے پیچھا کیا تھا تو پھر اسرائیلی اُن سے کیسے بچ پائے تھے ؟78زبور اُن بہت سے حوالہ جات میں سے ایک ہے جس میں خدا بنی اسرائیل قوم کو اُن معجزات کے بارےمیں یاد دلاتا ہے جو اُس نے اُن کو مصر کی غلامی سے چھڑانے کےلیے کیے تھے ۔ خدا کے عظیم معجز ات نے آس پاس کی اقوام پر یہ ثابت کر دیا تھا کہ خدا وند ہی واحد اور سچا خدا ہے ۔ غیر اقوام کے پتھر اور لکڑی کے بنے معبود ایسی صلاحیتوں کے مالک نہ تھے ۔ صرف معجزات کا خدا ہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے ۔
نئے عہد نامے میں یسوع نے بہت سے معجزات کیے تھے جن کی شروعات قانایِ گلیل کی ایک شادی میں پانی کو مے میں تبدیل کرنے سے ہوئی تھی ( یوحنا 2باب 1-10آیات)۔ چار دن کے مردہ لعزر کو زندہ کرنا ( یوحنا 11باب) اُس کے سب سے حیران کُن معجزات میں سے ایک معجزہ تھا ۔ اُس نے تمام معجزے اس بات کو ثابت کرنے کےلیے کئے تھے کہ وہ واقعی ہی خدا کا بیٹا ہےجیسا کہ وہ خود اپنے بارےمیں بیان کرتا ہے ۔ متی 8باب میں جب اُس نے طوفان کو تھمایا تھا تو شاگرد بھی حیران ہو گئے تھے : " لوگ تعجب کر کے کہنے لگے یہ کس طرح کا آدمی ہے کہ ہوا اور پانی بھی اِس کا حکم مانتے ہیں؟"اگر یسوع کے معجزات حقیقی نہیں تھے تو پھر یسوع کی شفا ئیہ خدمت پر مبنی انجیلی بیانات بھی محض خوبصورت کہانیاں تھیں کیونکہ وہ لوگ اُس کی رحم دلی کے بارے میں شک کے باعث اپنی بیماریوں میں ہی مبتلا رہے تھے ( متی 14باب 14آیت؛ 10باب 34آیت؛ مرقس 1 باب 41آیت)۔ اگر اُس نے واقعی ہزاروں لوگوں کو چند روٹیوں اور مچھلیوں کے ذریعے سے سیر نہیں کیا تھا تو پھر یسوع کے یہ الفاظ بالکل بے معنی ہیں کہ"مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم مجھے اِس لئے نہیں ڈھونڈتے کہ معجزے دیکھے بلکہ اِس لئے کہ تم روٹیاں کھا کر سیر ہوئے" ( یوحنا 6باب 26آیت) ۔ لیکن یسوع نے لوگوں کو شفا دی تھی ، اُس نے چند روٹیوں اور مچھلیوں پر برکت دیتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو اس سے سیر کیا تھا ، اُس نے پانی کو مے میں تبدیل کیا تھا اور اُس نے لعزر کو زندہ کیا تھا ۔ یوحنا2باب 23آیت ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سے لوگ معجزات کے باعث اُس پر ایمان لائے تھے ۔
تمام معجزات کا مقصد اس بات کو ثابت کرنا تھا کہ خدا کی مانند کوئی نہیں ، اور یہ کہ وہ تمام تخلیق پر مکمل قدرت رکھتا ہے اس لیے کہ وہ اس کا خالق ہے اور ہمیں یہ باور کروانا ہے کہ اگر وہ یہ تمام معجزات کر سکتا ہے تو ہماری زندگی میں ایسی کوئی مشکل نہیں جس سے نمٹنااُس کےلیے مشکل ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس پر ایمان لائیں اور یہ جانیں کہ وہ ہماری زندگیوں میں بھی معجزات کر سکتا ہے ۔ اگر معجزات حقیقی طور پر رونما نہیں ہوئے تھے تو ہم اُن باتوں پر کیسے یقین کر سکتے ہیں جو بائبل ہمیں بتاتی ہے خصوصا ً جب وہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ابدی زندگی مسیح کے وسیلہ سے میسر ہوتی ہے ؟ جب ہم بائبل مقدس کے کسی بھی حصے کے بارےمیں شک کرنا شروع کرتے ہیں تو خدا کا نجات کا حیرت انگیز منصوبہ بھی مشکوک ہو جا تا ہے اور اس طرح ہم جھوٹ اور بگاڑ کےلیے دروازے کھول دیتے ہیں جو ہمارے ایمان کو تباہ کرنے کےلیے شیطان کا منصوبہ ہے ( 1پطرس 5باب 8آیت)۔ بائبل کو معجزات سمیت حقیقی معنوں میں پڑھا اور سمجھا جانا چاہیے ۔
English
کیا بائبل میں بیان کردہ معجزات کو حقیقی معنوں میں لینا چاہیے؟