settings icon
share icon
سوال

مونرج ازم بمقابلہ سینرج ازم – اِن میں سے درست نظریہ کونسا ہے؟

جواب


اِس موضوع پر صدیوں سے کلیسیا کے اندر گرما گرم بحث جاری ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ یہ بحث انجیل کی خوشخبری کے مرکزی ترین عقائد کے بارے میں ہے۔ سب سے پہلے، آئیے دونوں اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہیں۔ جب ہم مونرج ازم(monergism) کا مقابلہ سینرج ازم (synergism)کے ساتھ کرتے ہیں تو الہیاتی رُو سے ہم اِس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ ہماری نجات کس کے وسیلے سے میسر ہوتی ہے۔ مونرج ازم ایک مرکب یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں "اکیلے کام کرنا"اور یہ نظریہ کہتا ہے کہ صرف خُدا کی ذات ہی ہماری نجات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر کیلون ازم کی حامی اور مصلح کہلانے والی کلیسیائیں اِس نظریے کی حمایت کرتی ہیں اور اِس کا بہت گہرا اور قریبی تعلق "فضل کے عقیدے" کے ساتھ ہے۔ سینرج ازم بھی ایک مرکب یونانی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں "مل کر کام کرنا"یہ نظریہ بیان کرتا ہے کہ انسانی نجات کے تعلق سے خُدا ہمارے ساتھ ملکر کام کرتا ہے۔ مونرج ازم کو اکثر جان کیلون کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور سینرج ازم کو جیکب آرمینئس کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، اورمانا جاتا ہے کہ اُس کے خیالات نے جدید بشارتی خدمت کو ایک نئی شکل دی ہے۔ کیلون اور آرمینئس دراصل اِن نظریات کے خالق نہیں ہیں بلکہ وہ اِن نظریات کے سب سے زیادہ مشہور حامی ہیں۔

غیر مشروط چناؤ کے تصورات کو ویسٹ منسڑ اقرار الایمان میں بیان کیا گیا ہے: " نسلِ انسانی میں سے وہ جو بنایِ عالم سے پیشتر زندگی کے لیے مقرر کئے گئے ہیں اُنہیں خُدا نے اپنے ابدی اور لاتبدیل مقصد کے تحت،اپنی مرضی کے بھید اور نیک ارادہ کے مطابق مسیح میں دائمی جلال کے لیے چُنا ہے۔ خُدا نے یہ اپنے مفت فضل اور محبت سے انسان میں ایمان کی پیش بینی یا نیک اعمال کی بناء پرنہیں یا پھر انسان کی اپنی استقامت کے بغیر اور مخلوق کے اندر پائے جانے والے اسباب جو خُدا کو تحریک دے سکتے ہیں اُن کے بغیر اپنے جلالی فضل کی ستائش کے لیے اُنہیں چُنا ہے" (ویسٹ منسٹر اقرار الایمان III.5)۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غیر مشروط چناؤ یہ تعلیم دیتا ہے کہ خُدا نے برگزیدوں کو صرف اپنی مرضی کے بھید اور نیک ارادہ کے تحت چُن لیا ہے نہ کہ کسی اور چیز کی وجہ سے۔ مزید برآں اُس کی طرف سے کسی شخص کا چنا جانا اُس شخص کے مستقبل کے ایمان یا نیک اعمال یا کسی انسان کی استقامت اور اُس میں پائے جانے والے اسباب کے بارے میں پیش بینی کی بنیاد پر نہیں ہے۔

بائبل مُقدس کے دو بہت ہی اہم حوالہ جات اِس عقیدے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ پہلا حوالہ ہے افسیوں 1باب 4-5آیات "چنانچہ اُس نے ہم کو بنایِ عالم سے پیشتر اُس میں چن لِیا تاکہ ہم اُس کے نزدِیک محبّت میں پاک اور بے عیب ہوں۔ اور اُس نے اپنی مرضی کے نیک اِرادہ کے موافق ہمیں اپنے لیے پیشتر سے مقرر کِیا کہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے اُس کے لے پالک بیٹے ہوں۔"اِس حوالے کے مطابق ہمیں خُدا کی طرف سے مسیح میں چُن لیا گیا ہے–محبت میں پاک اور بے عیب – ہونے کے طور پر بنایِ عالم سے پیشتر ہی چُن لیا گیا ہے، اور اِس انتخاب کی بنیاد "خُدا کی خاص مرضی کا مقصد" تھا۔ دوسرا حوالہ ہے رومیوں 9باب 16آیت "پَس یہ نہ اِرادہ کرنے والے پر منحصر ہے نہ دَوڑ دھوپ کرنے والے پر بلکہ رحم کرنے والے خُدا پر۔"خُدا کے انتخاب کا انحصار کسی بھی ایسی چیز پر نہیں ہے جو ہم کرتے یا جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں، بلکہ اِس کا مکمل انحصار خُدا کے فضل کے کامل اختیار پر ہے۔

کیلون ازم کا جوہر اور مونرجیسٹک دلیل یہ ہے کہ خُدا ہی ہے جو لوگوں کو نجات دینے کے لیے چنتا ہے وہ اُنہیں قابلِ نجات بنانے کے لیے نہیں چُنتا۔ کیونکہ سارے کے سارے انسان گناہ میں پیدا ہوتے ہیں، اور اُن کے گناہ میں گرنے کی وجہ سے جو گناہ آلود فطرت (مکمل بگاڑ) ہے اُس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی خُدا کو رَد کرتے ہیں ۔ اِس لیے ایسی حالت میں پائے جانے والے انسانوں کی نجات کے لیے خُدا کو خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا تھا اور اِس چناؤ کی وجہ اِنسان کا ایمان یا کسی طرح کے اعمال نہیں ہے۔ چنے ہوئے لوگوں کو نجات اور ابدی زندگی کی نعمتیں عطا کرنے کے لیے خدا سب سے پہلے اُن کے گناہ کا (محدود) کفارہ دیتا ہے۔ اس کے بعد اُس فضل اور نجات کا اطلاق چُنے ہوئے لوگو ں پر ہوتا ہے اور اس طرح رُوح القدس ان کی رُوحوں کو نئے سرے سے پیدا کرکے اور انہیں نجات (ناقابلِ مزاحمت فضل) میں کھینچ کر اُن چنے ہوئے لوگوں پر نجات کے اثرات کا اطلاق کرتا ہے۔ پس جن لوگوں کو خُدا نے بچایا ہے وہ آخر تک نجات میں قائم رہیں گے (مُقدسین کی استقامت) ۔ اپنی ابتدا سے انتہا تک نجات (اپنے تمام پہلوؤں میں) صرف اور صرف خُدا کی طرف سے ہے اور یہ ہے— مونرج ازم ! اور یہاں پر اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو حقیقی طور پر بچائے جا رہے ہیں وہ چُنے ہوئے لوگ ہیں۔ رومیوں 8باب28-30آیات پر غور کیجئے۔ اِس حوالے میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جنہیں خُدا نے اپنے "نیک ارادہ" کے مطابق بلایا ہے۔ اِن کی شناخت اُن لوگوں کے طور پر ہوئی ہے جو"خُدا سے محبت" رکھتے ہیں۔ 29 اور 30آیات کے مطابق یہ وہی لوگ ہیں جنہیں اُس نے پہلے سے جانا، نجات کے لیے چُنا، بلایا ، راستباز ٹھہرایا اور پھر اُنہیں جلالی بنایا۔ یہ خُدا ہی ہے جو اِن لوگوں کو (جو چُنے ہوئے ہیں اور خُدا سے پیار کرتے ہیں) پہلے جاننے سے لیکر جلالی حالت تک لے کر جاتا ہے اور اِس سارے سفر میں اُن میں سے کوئی بھی اپنی نجات کو کھوتا نہیں ہے۔

ابھی سینرجیسٹک دلیل کی حمایت میں آئیے ہم اپنی توجہ ریمنسٹرنس کے پانچ مضامین کی طرف مبذول کرتے ہیں: خُدا نے یسوع مسیح میں ایک ابدی اور لاتبدیل مقصد کے تحت بنایِ عالم سے پیشتر ارادہ کیا کہ انسان کی گناہ آلود نسل میں سے مسیح میں، مسیح کی خاطر اور مسیح کے وسیلےاُن کو بچائے جو رُوح القدس کے فضل کے وسیلے سے اُسکے بیٹے یسوع پر ایمان لائیں گے اور جو اپنے اُس ایمان میں اور ایمان کے تحت تابعداری میں اُس کے فضل کے وسیلے آخر تک قائم رہیں گے۔ اور دوسری طرف ناقابل، ناقابلِ اصلاح اور گناہ میں بے ایمانی کی زندگی گزارنے والوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور اُنہیں ایسے لوگوں کے طور پر رَد کر دیا جائے گا جو یوحنا 3باب36آیت " جو بیٹے پر اِیمان لاتا ہے ہمیشہ کی زِندگی اُس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھیگا بلکہ اُس پر خُدا کا غضب رہتا ہے " کے مطابق یسوع مسیح کو نہیں جانتے۔ اِس کے ساتھ ساتھ کلامِ مُقدس کے کچھ اور حوالہ جات بھی ہیں جو اِس بارے میں بات کرتے ہیں (FAR, article I)۔

یہاں پر ہم دیکھتے ہیں کہ نجات کسی انسان کے ایما ن اور اُس کی استقامت کے ساتھ مشروط ہے۔ ابھی مشروط چناؤ کیا کرتا ہے کہ یہ ہماری ذات میں ہماری نجات کے تعین والا عنصر ڈالتے ہوئے مسیح کی پیروی کرنے اور اُس میں قائم رہنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ ابھی آرمینیت کے پیروکار یہ دعویٰ کریں گے کہ مسیح کو چننے کی ہماری صلاحیت خُدا کی طرف سے آفاقی فضل کا نتیجہ ہے جو خُدا سب سے پہلے تمام لوگوں کو دیتا ہے اور یہ عنصر گناہ میں گرنے کے اثرات کو دور کرتا ہے اور کسی بھی انسان کو مسیح کو قبول کرنے یا رَد کرنے کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہماری طرف سے نجات کے چناؤ کو ممکن بنانے کے لیے بھی خُدا کو کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے لیکن آخر میں یہ ہمارا اپنا انتخاب ہوتا ہے جو ہمیں بچاتا ہے۔ آرٹیکل I میں کلامِ مُقدس کا جو حوالہ پیش کیا گیا ہے وہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ وہ جو یسوع پر ایمان لاتے ہیں وہ ابدی زندگی پائیں گے اور جو اُس پر ایمان نہیں لاتے وہ ابدی زندگی نہیں پائیں گے۔ پس ایسا لگتا ہے کہ کلامِ مُقدس کے کچھ حوالہ جات اِس نکتے کی حمایت کرتے ہیں۔ اِس طرح سینرجیسٹک دلیل یہ دعویٰ کرتی ہے کہ خُدا نجات کو ممکن بناتا ہے لیکن آخر میں ہمارا اپنا انتخاب ہی ہوتا ہے جو ہماری نجات کو حقیقی بناتا ہے۔

اور اب جبکہ مونرج ازم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خُدا ہماری نجات کے لیے ضروری تو ہے ہی لیکن صرف وہ اکیلا ہی ہماری نجات کے لیے کافی بھی ہے اور سینرج ازم اِس بات پر تو اتفاق کرتا ہے کہ خُدا ہماری نجات کے لیے ضروری شرط ہے لیکن وہ اِس بات کا انکار کرتے ہیں کہ صرف اکیلا خُدا ہی ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ ابھی اگر ہم منطقی طور پر بات کریں تو ہمیں سینرجیسٹک دلیل کے اندر یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ – خُدا دراصل کسی بھی انسان کو بچاتا نہیں ہے۔ اور یہ چیز نجات کی تمام ذمہ داری کو ہم انسانوں پر ڈال دیتی ہےکیونکہ یہ ہم ہی ہیں جو مسیح پر ایمان رکھ کر اپنی نجات کو حقیقی بناتے ہیں۔ اگر خُدا اصل میں کسی کو نہیں بچاتا تو پھر یہ حتمی امکان ہے کہ کوئی بھی انسان نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر خُدا اصل میں کسی کو نہیں بچاتا تو پھر ہم رومیوں 8باب 28-30آیات جیسے اہم اور پُر زور حوالے کی تفسیر کس طرح سے کر سکتے ہیں؟مزید برآں ریمنسٹرنس کا آرٹیکل نمبر 4 بیان کرتا ہے کہ خُدا کی طرف سے ملنے والے فضل کے خلاف مزاحمت کی جا سکتی ہے اور آرٹیکل 5 بیان کرتا ہے کہ وہ جنہوں نے خُدا کے فضل کو چُنا ہے وہ اُس فضل بھری حالت سے گر بھی سکتے ہیں اور "اپنی اُسی ماضی کی گناہ آلود دُنیا میں جا سکتے ہیں" اور یوں وہ خُدا کے فضل سے محروم ہو سکتے ہیں۔ یہ تصور کلامِ مُقدس میں بیان کردہ ایمانداروں کے ابدی تحفظ کی واضح تعلیمات کی صریحاً تردید کرتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو پھر ہم مشروط چناؤ کے لیے بائبل کی طرف سے ملنے والی حمایت کا کیا جواب دیں گے(یوحنا 3باب36 کو دیکھئے)۔ اِس بات سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری زندگیوں میں نجات کی تکمیل کے لیے مسیح پر ایمان رکھنا ضروری ہے، لیکن نجات کے عمل کی ترتیب میں ایمان کونسے درجے پر آتا ہے (Ordu Salutis)؟ایک بار پھر اگر ہم رومیوں 8باب29-30آیات پر غور کریں تو ہم نجات کے عمل کی ایک منطقی اور بتدریج ترقی کو دیکھتے ہیں۔ ایمان کے وسیلے سے راستباز ٹھہرایا جانا نجات کے اِس سفر میں چوتھے درجے پر آتا ہے، کیونکہ پہلے خُدا نے ہمیں جانا، پھر چُنا اور پھر بلایا۔ابھی بلاہٹ کو اِن مزید حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: نئی پیدایش، بشارت، ایمان اور توبہ۔ دوسرے الفاظ میں "بلاہٹ" (جسے مصلح علمِ الہیات کے حامی "موثر بلاہٹ" کہتے ہیں)۔ اِس میں سب سے پہلے رُوح القدس کے وسیلے نئی پیدایش ضروری ہے (یوحنا 3باب3آیت)۔ اُس کے بعد انجیل کی منادی ضروری ہے (رومیوں 10باب 14-17آیات)، اور اِس سے پہلے خُدا کا علمِ سابق اور پھر ایمانداروں کا چُنا جانا آتا ہے۔

ابھی یہ نکتہ ہمیں خُدا کے علمِ سابق کے بارے میں سوال پر لے آتا ہے۔ آرمینیت کے حامیوں کے مطابق خُدا کا علمِ سابق یہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کے بارے میں پہلے ہی سے جانتا ہے جو ایمان لائیں گے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر خُدا کی طرف سے ہمارا چناؤ "اُس کے نیک ارادہ" کے مطابق نہیں ہے بلکہ اُس کی بنیادہماری طرف سے خُدا پر ایمان رکھنے کے چناؤ پر ہے جبکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ ہم گناہ میں گری ہوئی حالت میں ہیں اور رومیوں 8باب 7 آیت کے مطابق ہم خُدا کے خلاف ہیں اور کسی بھی طرح کی اچھائی کرنے کے قابل نہیں۔آرمینیت کی طرف سے پیش کیا جانے والا علمِ سابق کا تصور اوپر بیان کردہ غیر مشروط چناؤ کے بارے میں کلامِ مُقدس کے واضح حوالہ جات کے بھی خلاف ہے (افسیوں 1باب 4-5آیات اور 9باب16آیت)۔ یہ تصور خُدا کی حاکمیت کو ختم کرنے کے مترادف ہےا ور اِس کے ساتھ ہی یہ نجات کی ساری ذمہ داری اُس مخلوق کے کندھوں پر رکھتا ہے جو کسی بھی طور پر اپنے آپ کو بچانے کے قابل نہیں ہے۔

خلاصے کے طور پر، منطقی دلیل اور بائبلی دلیل حقیقت میں نجات کے مونرجیسٹک نظریے کی حمایت کرتی ہے۔ خُدا ہی ایمان/نجات کا بانی اور اُس کو کامل کرنے والا ہے (عبرانیوں 12باب2آیت)۔ جس نے ہم میں نیک کام شروع کیا ہے وہ اُسے یسوع مسیح کے دن تک پورا بھی کردے گا (فلپیوں 1باب6آیت)۔ مونرج ازم کا بہت گہرا اثر نہ صرف اِس بات پر ہے کہ کوئی شخص نجات کو کیسے دیکھتا ہے، بلکہ اِس کا بڑا گہرا اثر انجیل کی بشارت پر بھی ہے۔ اگر ہماری نجات مکمل طور پر خُدا کی طرف سے نجات بخش فضل کی بدولت ہے تو پھر اِس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ہم فخر کر سکیں اور اِس صورت میں سارا جلال خُدا کے نام کو ملتا ہے (افسیوں 2باب8-9آیات)۔ مزید برآں اگر خُدا حقیقت میں لوگوں کو بچاتا ہے تو اُس صورت میں ہماری بشارتی کوششیں پھلدار ثابت ہونگی کیونکہ خُدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ چُنے ہوئے لوگوں کو بچائے گا۔ مونرج ازم خُدا کے نام کو جلال دینے والا نظریہ ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

مونرج ازم بمقابلہ سینرج ازم – اِن میں سے درست نظریہ کونسا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries