سوال
فطری علمِ الٰہیات کیا ہے ؟
جواب
فطری علم ِ الٰہیات فطرت کے مشاہدے پر مبنی خدا کی ذات کا مطالعہ ہے جو کہ مکاشفہ ِ خاص پر مبنی "مافوق الفطرت" یا منکشف علم ِ الٰہیات سے مختلف ہے ۔ چونکہ فطرت کا مشاہدہ ایک فکری جستجو ہےلہذا فطری علم ِ الٰہیات میں خدا کو جاننے کے ذرائع کے طور پر انسانی فلسفے اور استدلال کو استعمال کیا جاتاہے۔
گُلِ میمون کی ساخت اور کام کا جائزہ لینے پر مَیں معقول طور پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں کہ گُلِ میمون کو تخلیق کرنے والا خدا طاقتور اور پُرحکمت ہے– یہ فطری علم ِالٰہیات ہے ۔ یوحنا 3باب 16آیت کے سیاق و سباق اور مفہوم کا جائزہ لینے پر میں معقول طور پر یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں کہ خدا محبت کرنے والا اور مہربان ہے – یہ منکشف علم ِ الٰہیات کو ظاہر کرتا ہے۔
علمِ الٰہیات کی دو حصوں "قدرتی" اور "منکشف" میں تقسیم کی جڑیں کیتھولک ماہر ِ علم ِالٰہیات تھامس ایکوائنس (1224-1274بعد از مسیح ) کی تحریروں میں پائی جاتی ہیں ۔ مسیحی ایمان پر ارسطو کے منطق کا اطلاق کرنے کی کوشش میں ایکوائنس نے صرف فطری مظاہر سے خدا کے بارے میں کچھ سچائیوں کو سمجھنے کی انسانی صلاحیت پر زور دیا۔ تاہم ایکوائنس نے اس بات کو قائم رکھا کہ انسانی عقل اب بھی خدا کے الہام کے مقابلے میں ثانوی اہمیت رکھتی ہے جیسا کہ کلیسیا نے سکھایا ہے۔ ایکوائنس اُن دونوں کے درمیان فرق کرنے میں محتاط تھا کہ "فطری استدلال" اور عقائدی اصولوں سے کیا سیکھا جا سکتا ہے اور اُس نے فطرت سے حاصل کی گئی سچائیوں کو "مضامین [ایمان] کی تمہید" کا نام دیا (Summa Theological، پہلا حصہ، سوال نمبر 2، آرٹیکل نمبر 2) ۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ منطق ایمان کی طرف رہنمائی کر ے لیکن یہ ایمان کی جگہ نہیں لے سکتا۔
بعد میں ماہرینِ علم ِ الٰہیات نے ایکوائنس کے تصور کو لیا اور اُسے وسعت دی۔ فطری علم ِ الٰہیات پر زور دینے والے دیگر مصنفین میں سیموئیل کلارک، ولیم پیلی اور عمانوائیل کانٹ شامل تھے ۔اِس کے بعد کے سالوں میں جیسے جیسے مسیحیت زیادہ سے زیادہ "منطقی فلسفے کی صورت اختیار کرتی گئی تو معجزات کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔
مکاشفہ ِ خاص کو مکمل طورپر خارج کر دینے کے ساتھ ڈی –ازم (Deism- منطقی علم الٰہیات کی وہ شکل جو مکاشفہ خاص کے بغیر عقلی بنیاد پر خدا پر یقین رکھتی ہے۔)کے حامی خدا کے بارے میں اپنے علم کے لیے مکمل طور پر فطری علم ِ الٰہیات پر انحصار کرنے لگے ۔ ڈی-ازم کے حامیوں کے نزدیک خُدا فطرت کے بغیر سمجھ سے بالاتر ہے اور بائبل غیر ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی –ازم کے حامی تھامس جیفرسن نے اپنی بائبل سے معجزات کے تمام بیانات کو حقیقی طور پر کاٹ ڈالا- جیفرسن صرف ایک فطری علمِ الٰہیات چاہتاتھا۔
رومانوی شاعر مجموعی طور پر فطری علمِ الٰہیات کے حامی تھے۔ اگرچہ انہوں نے انسان کے جذبات کو اُس کی عقل پر فوقیت دی لیکن وہ فطرت کی فضیلت اور ماورائیت کے مسلسل گُن گاتےرہے ۔ ولیم ورڈز ورتھ کی مشہور نظم "دا رَین بو– The Rainbow " فطری علم ِ الٰہیات کا ایک واضح اظہار ہے جو ان سطروں پر ختم ہوتی ہے: "اور مَیں یہ خواہش کر سکتا ہوں کہ میرے دن سب کے سب فطری پرہیز گاری کے تابع ہوں۔" ورڈز ورتھ واضح طور پر ایک "فطری" (بمقابلہ "مافوق الفطرت") پرہیز گاری کی خواہش کرتا ہے۔ اُس کی رُوحانیت فطری دنیا سے جڑی ہوئی ہے؛ قوس قزح کو دیکھ کر وہ جو خوشی محسوس کرتا ہے اُس کے نزدیک یہی خدا کی سچی عبادت ہے۔ آج کل جو لوگ کہتے ہیں کہ "مَیں گرجا گھر کے مقابلے میں جنگل میں چہل قدمی کے دوران خدا کے زیادہ قریب محسوس کرتا ہوں" تو وہ اصل میں ورڈز ورتھ کے فطری علمِ الٰہیات کے الفاظ ہی الاپ رہے ہوتے ہیں۔
فطری علم ِ الٰہیات پر بے جا زور نے اصنام پرستی کو بھی قابلِ قبول بنا دیا ہے۔ کچھ لوگ ابھی یہ نہیں کہتے کہ فطرت خُدا کی ذات کا اظہار ہے بلکہ وہ اِس سے آگے بڑھ کر اِس تصورتک پہنچ چکے ہیں کہ فطرت خدا کی توسیع ہے۔ اس منطق کے لحاظ سے ہم فطرت کا حصہ ہیں اور یوں ہم سب خدا کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں اور اس لیے ہم اُسے جان سکتے ہیں۔
زیادہ جدید ایام میں " فطری علم ِ الٰہیات " انسانی علم کی ترکیب کی کوشش کے لیے سائنس، مذہب، تاریخ اور فنون کے ہر شعبے سے حوالہ دے سکتی ہے۔ نیافطری علم ِ الٰہیات اُس ماورا " جامع حقیقت " کی پیروی کرتا ہے جس میں بنی نوع انسان موجود ہے مگر اُس کا مرکزی نقطہ خدا نہیں بلکہ بنی نوع انسان ہے نتیجتاً یہ اصل میں مذہبِ انسانیت کی ہی ایک اور شکل ہے۔
یہاں فطری علم ِ الٰہیات سے متعلق بائبل کے کچھ نکات پیش کئے جاتے ہیں:
1) بائبل سکھاتی ہے کہ خدا کے بارے میں فطری دنیا سےبنیادی سمجھ حاصل کی جا سکتی ہے؛ خاص طور پر ہم "اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت " کا مشاہد ہ کرسکتے ہیں (رومیوں 1باب 20آیت)۔ ہم اِسے " مکاشفہ ِعام " کہتے ہیں (19زبور 1-3آیات بھی دیکھیں)۔
2) رومیوں 1باب کا سیاق و سباق اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خدا کے وجود اور قدرت کے بارے میں اتنی بنیادی سمجھ کسی شخص کی نجات کی طرف رہنمائی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ درحقیقت خدا کے بارے میں بُت پرستوں کا موروثی علم (فطرت کے وسیلے ) بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے جو نجات کی بجائے خدا کی عدالت کا باعث ہے۔
3) فطری علم ِ الٰہیات کسی شخص کے لیے یہ گمان کرنے کا باعث ہو سکتا ہے کہ خدا غیر مرئی ، قادر مطلق اور حکیم ہےلیکن یہ سب ایک بے نام "اعلیٰ و ارفع ہستی" کی تصوراتی خصوصیات ہیں۔ فطری علمِ الٰہیات خدا کی محبت، رحم یا عدالت کی تعلیم نہیں دے سکتا اور یہ کسی شخص کو یسوع مسیح پر نجات بخش ایمان کی طرف لانے کے لیے بے کار ہے۔ "بغَیر مُنادی کرنے والے کے کیوں کر سُنیں" (رومیوں 10باب 14 آیت)۔
4) انسان کے زوال نے عقل سمیت انسان کی پوری شخصیت کو متاثر کیا ہے۔ فطری علم ِ الٰہیات پر انحصار کرنے والے کا مانناہے کہ انسانی عقل بنیادی گناہ سے آلودہ نہیں ہوئی ہے مگر کلام مقدس "ناپسندیدہ عقل " (رومیوں 1باب 28آیت )، "جسمانی نیت " (رومیوں 8باب 7آیت)، بگاڑ کا شکارعقل (1تیمتھیس 6باب 5آیت)،کثیف خیالات(2کرنتھیوں 3باب 14آیت)، اندھی عقل ( 2کرنتھیوں 4باب 4آیت) اور عقل کے نئے ہونے کی ضرورت کا ذکر کرتا ہے ( رومیوں 12باب 2آیت)۔
فطری علم ِ الٰہیات صرف اس حد تک مفید ہے جہاں تک یہ بیان کرتا ہے کہ دنیا کو خدا نے تخلیق کیا ہے اور دنیا اب بھی خالق کے طور پر اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاہم ہماری عقل کے گناہ آلودہ ہونے کے پیشِ نظر ہم خدا کے مکاشفہ ِ خاص کے بغیر اِس کی صحیح تشریح بھی نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کرنے کے لیے خُدا کی رحمدل مداخلت کی ضرورت ہے۔ ہمیں کسی بھی چیز سے زیادہ بائبل اور یسوع مسیح پر ایمان لانے کی ضرورت ہے (2 پطرس 1باب 19آیت)۔
English
فطری علمِ الٰہیات کیا ہے ؟