سوال
خدا کے وجود کے متعلق لازم بُرائی کیا ہے ؟
جواب
لازم برائی کی اصطلاح کو اکثراُن محاوروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ "انت بھلا سوبھلا"(انجام طریقہ کار کے استعمال کے لیے جواز پیش کرتا ہے)، وسیع تر مفاد میں ، یا دو برائیوں میں سے کم تر کا چناؤ وغیرہ ۔ اس بیان سے مراد یہ ہے کہ حالات کے پیش ِ نظر کچھ غیر اخلاقی کاموں کی اجازت موجود ہے۔ظاہر ی لحاظ سے دیکھا جائے تو لازم برائی کا محاورہ غیر بائبلی ہے: اگر کوئی چیز حقیقتاً برائی ہےتو یہ کبھی بھی لازم یا اخلاقی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ بہرحال لازم بُرائی کی اصطلاح کسی حد تک درست ہو سکتی ہے اور اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ اُسے کیسے سمجھا جاتا ہے۔ اختلاف کا انحصار اِس بات پر ہے کہ کوئی شخص ضروری شرائط کی کیسے وضاحت کرتا ہے۔
کلام ِ مقدس بُرائی کی اصطلاح کو دو الگ الگ طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔ سب سے عام مفہوم اخلاقی برائی یعنی گناہ کی طرف اشا رہ کرتا ہے ( متی 12باب 35آیت؛ قضاۃ 3باب 12آیت؛ امثال 8باب 13آیت؛ 3یوحنا 1باب 11آیت)۔ عام انگریزی زبان میں لفظ بُرائی/ evil کو اکثر اِسی طرح سمجھا جاتا ہے۔ تاہم عبرانی زبان سیاق و سباق پر کافی زور دیتی ہے۔ پرانے عہد نامے کی وہ اصطلاحات جو اخلاقی برائی کا حوالہ دیتی ہیں وہ اُن الفاظ کے ساتھ گہرے طور پر جُڑی ہوئی ہیں جو آفت، تباہی، بد صورتی ، یا المیے کا اشارہ دیتے ہیں (پیدایش 50باب 20آیت ؛ عاموس 3باب 6آیت)۔ مثال کے طور پر یسعیاہ 31باب 2آیت دونوں تصورات کا استعمال کرتی ہے۔ جبکہ جدید تراجم انگریزی لفظ برائی(evil) کو خصوصی طور پر اخلاقی معاملات کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ پرانے تراجم جیسے کہ کنگ جیمز ورژن میں یسعیاہ 45باب 7آیت نے بَلا کے ذکر کے لیے لفظ برائی کا استعمال کیا ہے جس کے باعث کچھ الجھن پیدا ہو جاتی ہے ۔
اخلاقی برائی گناہ ہے:کوئی ایسی چیز جو خدا کی فطرت کے برعکس ہے۔ اخلاقی برائی کبھی بھی لازم نہیں ہے۔ صورت حال سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خُدا ایک ایسا قانون دیتا ہے جس میں برائی کی ضرورت نہیں رہتی (1 کرنتھیوں 10باب 13)۔ خدا کے اخلاقی قانون میں جو بات واضح طور پر ممنوع ہے وہ نہ تو جائز ہے اور نہ ہی کسی صورت میں قابل ِ جواز ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی گناہ کا مرتکب ہونا "میری دولت کو برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے"، "میرے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے" یا یہاں تک کہ "میری زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے"لیکن یہ کبھی بھی "خدا کی نظر میں لازم نہیں ہے۔"
اس کے ساتھ ساتھ اعمال کی وضاحت خود حالات کی طرف سے کی جاتی ہے ۔ ممکن ہے کہ کوئی عمل گناہ کی صورت اختیار کئے بغیر بد صورتی، المیہ یا آفت برپا کر دے –حتیٰ کہ یہی عمل دیگر حالات میں گناہ ہو گا ۔ یہ نقطہ نظر حالات کی اخلاقیات نہیں ہے جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ انجام پانے والے کام کے طریقوں کو درست/جائز ثابت کرنے کے علاوہ کوئی ہمہ گیر اخلاقی قوانین موجود نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ اخلاقیات کی تعریف الفاظ سے نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحے میں خُدا کی مرضی کے لیے ہمارے ردعمل سے ہوتی ہے (رومیوں 14باب 23آیت ؛ متی 5باب، 21-22 آیات،27-28آیات)۔ اس کے برعکس نقطہ نظر قانون پرستی ہوگی جس سے مراد یہ ہے کہ تصورات اور گرامر اصل ارادے سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں (متی 15 باب 3-9آیات)۔
خروج 20باب 13آیت اس فرق سے متعلقہ ایک بائبلی مثال ہے۔ بائبل کے زیادہ تر تراجم اس آیت کی "قتل" سے منع کرنے کے طور پر تشریح کرتے ہیں ۔ یہ عبرانی لفظ ریَٹسک سے ماخوذ سے ہے جو مفاد پرستانہ ، بلاجواز یا ارادتاً قتل کا حوالہ دیتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی آدمی کے دوسرے آدمی کو "قتل" کرنے کی ہر مثال غیر اخلاقی ہے۔ سزائے موت (پیدایش 9باب 6آیت )، شخصی دفاع (خروج 22باب 2آیت )اور جائز جنگ (144زبور 1آیت )"قتل " کی مثالیں نہیں ہیں۔ درحقیقت ان افعال کو بعض اوقات "لازم برائی" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ "لازم المیہ" یا "لازم بدصورتی" ہو سکتے ہیں لیکن اخلاقی طور پر یہ بُرائی نہیں ہیں - اور فرق کا باعث حالات ہیں۔ اخلاقی اصول ہمہ گیر اور مطلق ہے؛صورت حال محض اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اس اصول کا کیوں اور کیسے اطلاق ہوتا ہے۔
یقیناً تمام حالات ایسے فیصلے کرنے کے لیے واضح مثالیں پیش نہیں کرتے۔ بائبل مقدس میں سےکچھ واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے تاکہ جوازی بدصورتی اور بلا جواز برائی کے درمیان فرق کر سکیں۔ عبرانی دائیوں نے شیر خوار بچّوں کو مار ڈالنے سے گریز کرنے کے لیے جھوٹ بولا (خروج 1 باب 19-20 آیات)۔ کہا جاتا ہے کہ اس عمل کے لیے خدا نے اُن کے ساتھ "بھلا" کیا ۔ راحب نے یریحو میں موجود اسرائیلی جاسوسوں کی حفاظت کے لیے بڑی عمدگی سے جھوٹ بولا (یشوع 2باب 1-7آیات) جس کے نتیجے میں وہ موت سے بچ گئی اور نئے عہد نامے میں اُس کو سراہا گیا ( یعقوب 2باب 25-26آیات)۔ اہُود نے بدکردار بادشاہ عجُلون کو قتل کر دیا جس سے اسرائیل کے لیے لمبے عرصے تک امن ہو گیا( قضاۃ 3باب 15-30آیات)۔
بائبل کی دوسری مثالیں بلاتضاد یہ واضح کرتی ہیں کہ کس طرح روایتی ہدایات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ساؤل نے خیال کیا کہ سموئیل کا انتظار کرنے کے اصول پر عمل کرنے کی بجائے اپنے طور پر قربانی چڑھانا بہتر ہو گا (1 سموئیل 13باب 8-14آیات)۔ خدا کی طرف سے اُس کی اِس بات کی مذمت کی گئی۔ عُزّانے ایک سخت اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عہد کے صندوق کو گرنے سے بچانے کے لیے چھوا ( 2سموئیل 6باب 1-7آیات)۔ اس سبب سے وہ خدا کی طرف سے مارا گیا تھا (1 تواریخ 13باب 9-12آیات)۔
اِس تذ بذب کا احاطہ کرنے والا ایک اقتباس ڈئیاٹرک بونحائفیر / Dietrich Bonhoeffer کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ ایڈولف ہٹلر کو قتل کرنے کی سازش میں اپنی شمولیت کا دفاع کرتے ہوئے بونحائفیر نے کہا "بُرائی کرنے سے بدتر بُرائی بننا ہے۔ " بونحائفیر کے الفاظ کو توڑنے مڑونے کی کوشش کیے بغیر ایسا لگتا ہے کہ اُس کا کہنے کا مطلب تھا کہ "[جائز بدصورتی] کرنے سے بدتر کیا ہے [اخلاقی برائی کو عمل میں لانا]۔" بلاشبہ مسیحی آج بھی ایسے معاملے کے دونوں پہلوؤں کے حق ہیں۔
"لازم برائی" کے تصور کو لفظی طور پر لینا واضح طور پر غیر بائبلی ہے۔ اس سوال کو سلجھانا کافی مشکل ہے کہ آیا اخلاقی طور پر حالات اُن اعمال کو جائز قرار دے سکتے ہیں جن کو خدا بصورت دیگر ہمارے نہیں بلکہ اپنے فیصلے کے مطابق منع کرے گا ۔ ہمیں امتیاز کو عام تصورات سے تبدیل نہیں کرنا چاہیے (1 کرنتھیوں 13باب11آیت)۔ کلامِ مقدس فرماتا ہے کہ حقیقی اخلاقی فہم کے لیے حواس کو "تیز" کرنے کی ضرورت ہوتی ہے (عبرانیوں 5باب 14 آیت)۔ مگر اس کے باوجود خامیوں یا عذرکی تلاش کرنے کی بجائے ہمارا رجحان عاجز اور فرمانبردار بننے کی طرف ہونا چاہیے۔
English
خدا کے وجود کے متعلق لازم بُرائی کیا ہے ؟