سوال
بائبل اعضاء عطیہ کرنے کے متعلق کیا کہتی ہے؟
جواب
بائبل اعضاء کی پیوند کاری کے معاملے کے بارے براہ راست بات نہیں کرتی۔ بائبل کے زمانے میں جسمانی عضو کی پیوند کاری واضح طور پر ایک نامعلوم عمل رہا ہو گا۔ تاہم بائبل میں ایسی آیات موجود ہیں جو اُن جامع اصولوں کی وضاحت کرتی ہیں جن کا اس حوالے سے اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس طرح کا عمل دوسروں کے لیے جس محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہے وہ عضو عطیہ کرنے کے لیے سب سے زبردست دلائل میں سے ایک ہے ۔ "اپنے پڑوسی سے محبت" رکھنے کا حکم خداوند یسوع (متی 5باب 43آیت )، پولس رسول (رومیوں 13:9) اور یعقوب رسول (یعقوب 2باب 8آیت ) کی طرف سے بیان کیا گیا تھا لیکن حقیقت میں اس کا سراغ پیچھے احبار کی کتاب 19 باب 18آیت تک لگا یا جا سکتا ہے۔ خدا کے لوگوں کو پرانے عہد نامے کے ابتدائی دنوں سے ہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسیوں سےبھی محبت کا اظہار کریں۔ اپنے بدن سے کسی عضو کو عطیہ کرنے پر آمادہ ہونے کو کسی دوسرے انسان کے لیے بے لوث قربانی کی ایک عظیم مثال کے طور پر دیکھاجائے گا۔
ہمارے پاس یسوع مسیح کی اُس قربانی میں اِس بات کی اعلیٰ مثال موجود ہے جو اُس نے تمام انسانیت کے لیے اپنے بدن کو قربان کرنے کی صورت میں دی تھی۔ یوحنا رسول نے اس حکم کا اُس وقت عمدہ خلاصہ کیا جب اُس نے لکھا کہ " اَے عزِیزو! جب خُدا نے ہم سے اَیسی مُحبّت کی تو ہم پر بھی ایک دُوسرے سے مُحبّت رکھنا فرض ہے "( 1یوحنا 4باب 11آیت )۔ جب یسوع دوسروں تک غیر مشروط محبت کے اِس پیغام کو پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا، اُس نے بھوکوں، پیاسوں، بے گھر وں ، بے لباسوں ، بیمار وں اور قیدیوں کی دیکھ بھال کی بات کی تھی (متی 25باب 35-46آیات)۔ اُس نے وضاحت کے لیے مزید فرمایاکہ "مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سُلوک کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا" (متی 25باب 40آیت )۔ یہ سکھانے کے لیے کہ مسیحی ہونے کے ناطے ہمیں مہربان ہونا اور ہر ایک کے ساتھ محبت کا اظہار کرنا چاہیے یسوع نے نیک سامری (لوقا 10باب 25-37آیات ) کی تمثیل کو بھی استعمال کیا ۔ اگر کوئی عمل یا طریقہ کار بائبل کے اصولوں سے متصادم نہیں ہے تو اُسے جائز سمجھا جانا چاہیے اور باایمان مسیحیوں کی طرف سے اُس کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
کچھ لوگ عضو عطیہ کرنے کے عمل کوانسانی جسم کو برباد کرنے کی حتمی شکل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ 1کرنتھیوں 6باب 19-20آیات جیسے حوالہ جات کو اکثر اس خیال کے دفاع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ کسی شخص کے جسم سے اعضا ءنہیں نکالے جانے چاہییں۔ خدا کی تخلیق کے مختار ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے بدنوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اُن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے جو اُن کے لیے نقصان دہ ہیں۔ تاہم جب پولس رسول نے کرنتھس کی کلیسیا کے مسیحیوں کو یہ الفاظ لکھے تو اُس نے کہا: "کیونکہ قیمت سے خرِیدے گئے ہو۔ پس اپنے بدن سے خُدا کا جلال ظاہر کرو" ( 20 آیت ) یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ وہ کام ہے جو اُس وقت انجام پاتا ہے جب کوئی شخص ا بھی زندہ ہوتا ہے ۔
کرنتھس کی کلیسیا کے نام پولس رسول کے دوسرے خط میں اُس نے اُنہیں یاد دلایا: "کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب ہمارا خیمہ کا گھر جو زمین پر ہے گِرایا جائے گا تو ہم کو خُدا کی طرف سے آسمان پر ایک اَیسی عِمارت مِلے گی جو ہاتھ کا بنا ہُؤا گھر نہیں بلکہ ابدی ہے"( 2کرنتھیوں 5باب 1آیت )۔ یہ تصور کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے لیے پورے جسم کو کسی نہ کسی انداز میں موجود اور محفوظ رکھنا ضروری ہے مسیحیوں کو لاحق بڑے خدشات میں سے ایک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسیحی عضو عطیہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ اُن کا ماننا ہے کہ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا عمل بذات خود ایک "مکمل" بدن کا تقاضا کرتا ہے ۔ تاہم باغِ عدن میں جب خُدا سزائیں سُنا رہا تھا تو اُس نے آدم سے کہا کہ" تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پِھر لَوٹ نہ جائے اِس لئے کہ تُو اُس سے نِکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لَوٹ جائے گا"(پیدایش 3باب 19آیت)۔ پس، خدا نے فرمایا کہ ایک دن ہمارے زمینی بدن مٹی میں واپس لوٹ جائیں گے۔
کرنتھس کی کلیسیا کے ایماندار وں کے نام خط لکھتے ہوئےپولس رسول نے موت کے وقت مادی بدن (جو مختلف طرح سے ختم ہو سکتا ہے ) اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وقت رُوحانی بدن (1کرنتھیوں 15باب35-49آیات)کے درمیان فرق کے بارے میں کچھ سمجھ عطا کی ہے ۔ اُس نے زمینی بدن اور جی اٹھے بدن کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے بیج اور اس بیج کے حاصل کے درمیان فرق کی مماثلت کا استعمال کیا ۔ پھر اُس نے مزید تشریح کی: " نفسانی جسم بویا جاتا ہے اور رُوحانی جسم جی اُٹھتا ہے۔ جب نفسانی جسم ہے تو رُوحانی جسم بھی ہے "(44آیت)۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ قیامت کے وقت جی اُٹھے بدن ہمارے زمینی بدنوں کے محض "دوبارہ قبضے" میں آنے کی نمائندگی کرتے ہیں تو ہم اُس لحاظ سے جی اٹھنے کے بارے میں غلط تصور رکھتے ہیں جیسا کہ بائبل میں پیش کیا گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ زمینی بدن جو "گوشت اور خون " ہے آسمانی بادشاہی میں داخل نہیں ہوگا (1 کرنتھیوں 15باب 50آیت )۔ ان حقائق کی بنیاد پرمسیحیوں کو محض طبعی بدن کو قیامت تک برقرار رکھنے کی کوشش میں عضو عطیہ کرنے سے ڈرنا یا اِس کی تردید نہیں کرنی چاہیے۔
عضو عطیہ کرنے اور عضو نکالے جانے سے متعلقہ مزید سوچ بچار
عضو عطیہ کرنے کے خلاف جائز دلیل عضو نکالے جانے کے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ مردہ بدن میں سے عضو حاصل کرنے میں اخلاقی طور پر کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن عضو کی نہایت کامیاب پیوند کاری کا تقاضا ہے کہ ممکنہ عضو کو اُس وقت تک خون اور آکسیجن کی رسائی کے ساتھ زندہ رکھا جائے جب تک کہ اُنہیں بدن سے نکال نہ لیاجائے ۔ گومگو کی یہ حالت پریشان کن ہے کیونکہ ہم عضو عطیہ کرنے کی منظوری میں زندگی کے خاتمے کی حمایت نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔طب کا پیشہ موت کے وقت کی نشاندہی کرنے کے لیے روایتی طور پر دل اور پھیپھڑوں کی سرگرمی کے رک جانے کا استعمال کرتا ہے۔ طبی ٹیکنالوجی اس مقام تک ترقی کر چکی ہے جہاں دل اور پھیپھڑوں کی سرگرمی کو( ایک وینٹی لیٹر کے ذریعے ) اُس وقت بھی دنوں یا ہفتوں تک برقرار رکھنا ممکن ہے جب کسی مریض کے دماغی افعال ناقابل واپسی حد تک رُک چکے ہوتے ہیں ۔ کچھ طبی حلقوں میں اُسی وقت ہی عضو نکالے جانے پر زور دیا جاتا رہا ہے جب مریض دماغ کے اہم افعال کھو چکا ہوتاہے لیکن ابھی زندہ ہوتاہے۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (AMA) کی اخلاقی اور عدالتی امور کی کونسل نے 1994 میں اپنی تازہ ترین رائے جاری کی کہ زیادہ دماغی افعال کے بغیر پیدا ہونے والے بچّوں کو عضو عطیہ کرنے والوں کے طور پر استعمال کرنا "اخلاقی طور پر جائز" ہے۔
بطور مسیحی، ہم صرف اُن صورتوں میں عضو عطیہ کرنے کی حمایت کر سکتے ہیں جن میں دماغی افعال کے مکمل طور پر رُک جانے سمیت موت کا ہر معیار سے تعین کیا جا چکا ہو، نہ کہ صرف ایک یا دو معیاروں کی بنیاد پر ۔ خُدا دانستہ طور پر قتل کرنے سے منع کرتا ہے (یعقوب 2باب 10-11آیات)؛ لہٰذاہمیں خدا کے کلام کی روشنی میں بڑی احتیاط سے یہ طے کرنا چاہیے کہ آیا وینٹی لیٹر محض ایک لاش کو آکسیجن دے رہا ہے یا انسانی زندگی کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ پھر اس کے مطابق ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ چونکہ زیادہ تر پیوند کاریوں کے عمل کے لیے استعمال ہونے والے عضو اُن عضو دہندگان کی طرف سے آتے ہیں جنہیں اعصابی طور پر مُردہ قرار دیا گیا ہوتا ہے اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اُن معیاروں کو پوری طرح سمجھیں جو طب کا پیشہ دماغی موت کی وضاحت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ جب کسی مریض کے ناقابل واپسی اور دماغی طور پر پوری طرح مردہ ہونے کا تعین ہو جاتا ہے تو صرف اُسی صورت میں اُسے عضو عطیہ کرنے والا امیدوار سمجھا جانا چاہیے۔
English
بائبل اعضاء عطیہ کرنے کے متعلق کیا کہتی ہے؟