سوال
مَیں آزمائش پر کیسے غالب آ سکتا ہوں؟
جواب
کلام ِ مقدس ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب کو آزمایشوں کا سامنا ہوتا ہے ۔ 1 کرنتھیوں 10باب 13 بیان کرتی ہے کہ " تم کسی اَیسی آزمایش میں نہیں پڑے جو اِنسان کی برداشت سے باہر ہو۔" اس آیت سے ممکنہ طور پر کچھ حوصلہ افزائی ملتی ہے کیونکہ ہم اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ دنیا میں ہم تنہا ہی آزمایشوں کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اِن سے محفوظ ہیں۔ ہمیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ مسیح یسوع کو بھی آزمایا گیا تھا: "کیونکہ ہمارا اَیسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزورِیوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تَو بھی بے گناہ رہا۔" (عبرانیوں 4باب 15آیت)۔
پس یہ آزمایشیں کس کی طرف سے آتی ہیں ؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں آتیں ہاں اگرچہ وہ اِن کی اجازت دیتا ہے ۔ یعقوب 1باب 13آیت بتاتی ہے کہ "جب کوئی آزمایا جائے تو یہ نہ کہے کہ میری آزمایش خُدا کی طرف سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو خُدا بدی سے آزمایا جا سکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔"ایوب کی کتاب کے پہلے باب میں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا نے شیطان کو خاص پابندیوں کے ساتھ ایوب کی آزمایش کرنے کی اجازت دی تھی ۔ ابلیس گرجنے والے شیر ببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کسے پھاڑ کھائے (1پطرس 5باب 8آیت)۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ دوسرے مسیحی بھی اُس کے حملوں کاسامنا کر رہے ہیں 9آیت ہمیں اُس کا مقابلہ کرنے کی ہدایت کرتی ہے ۔ اِن حوالہ جات کے وسیلہ سے ہم جان سکتے ہیں کہ آزمایشیں شیطان کی طرف سے آتی ہیں ۔ یعقوب 1باب 14آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ آزمایش کی شروعات ہماری اپنی ذات سے بھی ہوتی ہے ۔ درحقیقت ہم "اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر " آزمائے جاتے ہیں ( 14آیت)۔ ہم اپنے آپ کو مختلف طرح کے خیالات کے بارے میں سوچنے دیتے ہیں ،ہم اپنے آپ کو ایسی جگہوں پر جانے کی اجازت دیتے ہیں جہاں ہمیں نہیں جانا چاہیے اور اپنی خواہشات کی بناء پر ایسے فیصلے لیتے ہیں جو ہمیں آزمایش میں مبتلا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔
پس ہم آزمایشوں کے خلاف کیسے مزاحمت کر سکتے ہیں ؟ سب سے پہلے ہمیں متی 4باب 1-11آیات میں شیطان کی طرف سے یسوع کی آزمایش کی مثال پر غور کرناچاہیے ۔ شیطان کی طرف سے ہر آزمایش کے لیےیسوع کا ایک ہی جواب تھا کہ کلام مقدس میں " لکھا ہے "۔ اگر خدا کے بیٹے نے اِن آزمایشوں کے مؤثر خاتمے کے لیے خدا کے کلام کو استعمال کیا ہے –جو کہ ہم جانتے ہیں کہ بہت موثر طریقے سے کام کرتا ہے کیونکہ تین ناکام کوششوں کے بعد " اِبلیس اُس کے پاس سے چلا گیا "-تو ہمیں اپنی آزمایشوں کے خلاف اِسے اور بھی کتنا زیادہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے ؟مزاحمت کی ہماری تمام طرح کی کوششیں اُس وقت تک کمزور اور غیر مؤثر ثابت ہوں گی جب تک یہ کلام مقدس پڑھنے ، اُس کا مطالعہ کرنے اور اِس پر غور و خوص کرنے کے ذریعے رُوح القدس کی قوت سے بھرپور نہ ہوں ۔ اس طرح سے ہم " عقل نئی ہو جانے سے اپنی صُورت بدلتے " جاتے ہیں (رومیوں 12باب 2 آیت)۔ آزمایش کے خلاف"رُوح کی تلوار جو خُدا کا کلام ہے " ( افسیوں 6باب 17آیت)کے علاوہ کوئی اور ہتھیار نہیں ہے ۔ کلسیوں 3باب 2آیت فرماتی ہے "عالَمِ بالا کی چیزوں کے خیال میں رہو نہ کہ زمین پر کی چیزوں کے۔" اگر ہمارا ذہن اس جدید دور کے ٹی وی کے پروگراموں ، موسیقی اوراُن تمام باتوں سے بھرا پڑا ہے جو ثقافت پیش کرتی ہے تو ہم اُن پیغامات اور تصاویر کی لپیٹ میں آجائیں گے جو بالآخر ہمیں گناہ آلودہ خواہشات کی طرف لے جاتی ہیں ۔ لیکن اگر ہمارا ذہن خدا کی عظمت اورپاکیزگی اور مسیح کی محبت اور شفقت اور اُس کے کامل کلام میں منعکس کردہ نور سے بھرا ہے تو دنیا کی خواہشات میں ہماری دلچسپی کم اور ختم ہوتی جائے گی ۔ لیکن ہمارے ذہنوں پر کلام مقدس کے اثر کے بغیر ہم اُن تمام حملوں کے لیے غیر محفوظ ہیں جو شیطان ہم پر کرنے کو ہے ۔
پس آزمایش پر مبنی ذرائع کو ہم سے دور رکھنے کے لیے ہمارے دل و دماغ کی حفاظت کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے ۔مسیح یسوع کے اُن الفاظ کو یاد رکھیں جو اُس نے گتسمنی باغ میں اپنے شاگردوں سے کہے تھے: "جاگو اور دُعا کرو تاکہ آزمایش میں نہ پڑو۔ رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے" ( متی 26باب 41آیت)۔ زیادہ تر مسیحی عموماً گناہ میں مبتلا ہونا نہیں چاہیں گے مگر ہم گناہ میں گرنے کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا بدن مزاحمت کے لیے اتنا مضبوط نہیں ہے ۔ ہم خود کو ایسی صورتِ حال میں رکھتے یا اپنے ذہنوں کو ایسے شہوانی جذبات سے بھرتے ہیں جو ہمیں گناہ کی طرف لے جاتے ہیں ۔
جیسا کہ رومیوں 12باب 1-2آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمیں اپنی سوچوں کو نیا بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں مزید اُس طرح سے نہ تو سوچنا اور نہ ہی چلنا چاہیے جس طرح دنیا سوچتی یا چلتی ہے ۔ امثال 4باب 14-15آیات ہمیں بتاتی ہیں "شرِیروں کے راستہ میں نہ جانا اور بُرے آدمیوں کی راہ میں نہ چلنا۔ اُس سے بچنا۔ اُس کے پاس سے نہ گذرنا۔ اُس سے مُڑ کر آگے بڑھ جا۔" کیونکہ ہمار ا بدن کمزور ہے لہذا ہمیں دنیا داری کے اُس راستے سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں آزمایش میں مبتلا کرنے کا باعث بنتاہے ۔ اس لیے کہ ہم بڑی آسانی سے شہوانی خواہشات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
متی 5باب 29آیت میں بڑی عمدہ نصیحت پائی جاتی ہے ۔ "پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھو کھلائے تو اُسےنکال کر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضاء میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنّم میں نہ ڈالا جائے"یہ بہت خطرناک معلوم ہوتا ہے ! گناہ خطرناک ہے ۔ یسوع یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے جسمانی اعضاء کو حقیقی طور پر نکال پھینکنے کی ضرورت ہے ۔ آنکھ کو نکال پھینکنا ایک انتہائی سخت قدم ہے مگر یسوع ہمیں سکھا رہا ہے کہ اگر ضروری ہو تو گناہ سے بچنے کے لیے سخت اقدام بھی اُٹھائے جانے چاہیے ۔
English
مَیں آزمائش پر کیسے غالب آ سکتا ہوں؟