سوال
حوصلہ شکنی/ مایوسی پر غالب آنے کی کلید کیا ہے ؟
جواب
حوصلہ شکنی لفظ کا ماخذ حوصلہ بمعنی جرات ہی ہے۔اِس لفظ میں شکنی ایک لاحقہ ہے جو لفظ حوصلہ کے ساتھ ملکر ایک مرکب لفظ بناتا ہے۔ حوصلہ شکنی لفظ حوصلہ یا حوصلہ افزائی کے برعکس ہے۔ جب ہماری حوصلہ شکنی ہوتی ہے تو ہم اُس وقت آگے بڑھنے کی ترغیب یا تحریک کھو دیتے ہیں۔ اُس صورت میں پہاڑ بہت اونچا لگتا ہے، وادی بہت گہری اور اندھیری نظر آتی ہے، جنگ بہت زیادہ خوفناک محسوس ہوتی ہے اور ہم اپنی جدوجہد یا کام کو جاری رکھنے کی ہمت کھو دیتے ہیں۔
پورے کلامِ مُقدس میں کئی ایک مقامات پر خُدا اپنی قوم کو جرات مندی کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیتا ہے (27 زبور 14 آیت؛ 31 زبور 24 آیت؛ 2 تواریخ 32باب7 آیت؛ اِستثنا 31باب6 آیت)۔ جس وقت خُدا نے اسرائیلی کی رہنمائی کے لیے موسیٰ کی جگہ لینے کے لیے یشوع کا چناؤ کیا تو اُس کی طرف سے یشوع کو کہے گئے پہلے الفاظ کچھ یوں تھے کہ " کیا مَیں نے تجھ کو حکم نہیں دِیا؟ سو مضبُوط ہو جا اور حَوصلہ رکھ خَوف نہ کھا اوربے دِل نہ ہو کیونکہ خُداوند تیرا خُدا جہاں جہاں تُو جائے تیرے ساتھ رہے گا" (یشوع 1باب9 آیت)۔ خُدا نے یشوع کو دئیے گئے اپنے اِس حکم کی بنیاد 5-6آیات میں کئے ہوئے وعدے پر رکھی جس میں اُس نے اُسے کہا تھا کہ " جَیسے مَیں مُوسیٰ کے ساتھ تھا وَیسے ہی تیرے ساتھ رہُوں گا۔ مَیں نہ تجھ سے دست بردار ہُوں گا اور نہ تجھے چھوڑُوں گا۔ " خُداوند کو معلوم تھا کہ یشوع کا کچھ بہت بڑی لڑائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کابندہ کسی طور پر حوصلہ ہارے۔
حوصلہ شکنی یا نا اُمیدی پر قابو پانے کی کلید خُدا کے وعدوں کو یاد رکھنا اور اُن کا اطلاق کرنا ہے۔ جب ہم خُدا کو شخصی طور پر جانتے ہیں تو ہم اُس کے اُن وعدوں پر قائم رہ سکتے ہیں جو اُس نے اپنے کلام میں اپنے لوگوں کے ساتھ کئے ہیں۔ چاہے ہم اپنی اِس زندگی میں اُن وعدوں کو تکمیل پاتا ہوا دیکھیں یا نہ دیکھیں اُس کے وعدے پھر بھی قائم رہیں گے (عبرانیوں 11باب13-16 آیات)۔ اِسی علم نے پولس رسول کی مسلسل طور پر آگے بڑھنے اور خُدا کے کلام کی منادی کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جس کے اختتام پر وہ رومی قید میں گیا اور اُس کے بعد اُس نے اپنی جان قربان کر دی۔ اپنی اُس قید سے پولس رسول نے لکھا کہ " نِشان کی طرف دَوڑا ہوا جاتا ہُوں تاکہ اُس اِنعام کو حاصل کرُوں جس کے لئے خُدا نے مجھے مسیح یِسُو ع میں اُوپر بُلایا ہے۔ " (فلپیوں 3باب14 آیت)۔ وہ ظلم و ستم، رَد کئے جانے، مار کھانے اور حوصلہ شکنی کے باوجود آگے بڑھ سکتا تھا کیونکہ اُ سکی نظریں حتمی انعام یعنی اپنے خُداوند کی طرف سے یہ بات سُننے پر تھیں کہ :" اَے اچّھے اور دِیانتدار نَوکر شاباش! " (متی 25باب23 آیت؛ مکاشفہ 22باب12 آیت)۔
جب ہم اپنے اردگرد کے لوگوں سے انعام، یا اثبات چاہتے ہیں تو ہم بڑی آسانی کے ساتھ حوصلہ شکنی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اگر ہماری خدمت اور تابعداری کی بنیاد فوری تسکین پر مبنی ہے تو ہم غالباً اپنے آپ کو حوصلہ شکنی کے لیے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ خُداوند یسوع کبھی بھی اپنے لیے آسان راستہ نہیں چُنتا تھا اور اُس نے اپنے پیروکاروں کو خبردار کیا کہ وہ کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اُس کا تخمینہ ضرور لگا لیں (لوقا 14باب25-33 آیات)۔ جب ہم پہلے سے کسی چیز کا تخمینہ لگا لیتے ہیں تو ہم خود کو درپیش لڑائی لڑنے کے لیے اپنے اندر زیادہ قوت رکھتے ہیں۔ جب چیزیں ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتیں تو ہم اتنی آسانی کے ساتھ حوصلہ شکنی کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جنگ ہماری نہیں بلکہ خُداوند کی ہے (1 سموئیل 17باب47 آیت)۔
حوصلہ شکنی یا نا اُمیدی ہمارے لیے انتباہی اشارہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے اپنی بنیادی توجہ کھو دی ہے۔ جس وقت ہم حوصلہ شکنی محسوس کرتے ہیں تو اِس سے ہمیں مدد ملتی ہے کہ ہم خُداوند کے ساتھ تنہا کچھ وقت گزاریں اوراُسے اپنے دِلوں اور اپنے مقاصد کا جائزہ لینے دیں (139 زبور 23 آیت)۔ اکثر یہ تکبر، لالچ یا حرص ہوتی ہے جو ہماری حوصلہ شکنی کا باعث بن رہی ہوتی ہے۔ اجالے کا ایک احساس ہمارے دِلوں میں داخل ہو سکتا ہے اور جو کچھ ہمارے پاس ہے اور جو کچھ ہم ایمان رکھتے ہیں اُس کے درمیان تضاد یا فرق کو اجاگر کر سکتا ہے۔ جب ہم اپنے کسی رویے کو گناہ کے طور پر پہچان لیتے ہیں تو ہم اُس سے توبہ کر سکتے ہیں، اپنے آپ کو حلیم بنا سکتے ہیں اور رُوح القدس کو کام کرنے دے سکتے ہیں کہ وہ ہماری توقعات کو اپنے ہاتھ میں لے۔ جب ہم کسی بھی طرح کی حوصلہ شکنی یا نا اُمیدی کو اِس بات کی یاد دہانی کے طور پر استعمال کرتے ہیں کہ ہماری ترجیحات نا موزوئیت کا شکار ہو چکی ہیں تو حوصلہ شکنی کے احساسات ہمیں اور زیادہ مسیح کی مانند بنانے کے لیے آلہ کار بن سکتے ہیں (دیکھیں رومیوں 8باب29 آیت)۔
زبور نویس حوصلہ شکنی کے احساسات سے ناواقف نہیں تھا۔ حوصلہ شکنی کی صورت میں اُس کا جواب خُدا کو یاد کرنا اور کلام کے وعدوں پر بھروسہ کرنا تھا:
"اَے میری جان! تُو کیوں گری جاتی ہے؟
تُو اندر ہی اندر کیوں بے چَین ہے؟
خُدا سے اُمّید رکھ کیونکہ
اُس کے نجات بخش دِیدار کی خاطر مَیں پھر اُس کی ستایش کرُوں گا۔
اَے میرے خُدا! میری جان میرے اندر گری جاتی ہے۔
اِس لئے مَیں تجھے یَرد ن کی سرزمین سے اور حرمُون اور کوہِ مِصغار پر سے یاد کرتا ہُوں " (42 زبور 5-6 آیات)۔
English
حوصلہ شکنی/ مایوسی پر غالب آنے کی کلید کیا ہے ؟